ہر انسان مصیبتوں کی زد میں ہے اور ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے ان مصیبتوں سے نکلنے میں کامیاب ہو جائے۔ بہت سے لوگ تدابیر کے ذریعے اپنے مصائب پر قابو پانے یا ان کی شدت کو کم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جب کہ بہت سے لوگ کوششوں کے باوجود اپنے مصائب پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتے۔ قرآن وسنت میں مصائب اور مشکلات پر قابو پانے کے لیے بہت سی خوبصورت تجاویز کو بتلایا گیا ہے۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ دُعا: دُعا مومن ومسلمان کا ہتھیارہے۔ جب کوشش اور جدوجہد کے باوجود مومن ومسلمان اپنے مصائب اور مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا تو اس وقت دُعا کے نتیجے میں اس کی مصیبتوں کے حل ہونے کے امکانات روشن ہو جاتے ہیں۔ دُعا انتہائی اعلیٰ درجے کی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور چنیدہ بندے بھی ہمیشہ بارگاہ الٰہی میں دعائیں کرتے رہے اور اللہ تعالیٰ ان کی دعاؤں کو قبول فرماتے رہے۔ چنانچہ جب حضرت آدم ؑجنت سے زمین پرآئے تو آپ نے دعا مانگی : اے ہمارے رب!ہم نے اپنی جانوں پرظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑاور اماں حواکی دعاؤں کو قبول فرما لیا اورا ن کی زندگی میں آنے والے دکھوں کو دور کرکے ان کو خلافت ارضی کے مقام بلند پر فائز فر ما دیا۔ حضرت نوح ؑکی قوم کے لوگ بھی آپ کا استہزاء کرتے رہے ‘ آپ ؑکو دیوانہ اور مجنوں کہتے رہے‘ آپ ؑپر پتھر برساتے رہے۔ ساڑھے نو سو برس آپ ؑکی طویل محنت کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ اب آپ ؑکی قوم میںسے مزیدکوئی شخص آپ ؑپر ایمان نہیں لائے گا تو آپ نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں آکر دعا مانگی :اے میرے رب ! بے شک میں مغلوب ہوں‘ پس تو میری مدد فرما۔ ایک دوسرے مقام پر آپ کی دعا کا یوں ذکر ہوا: اے میرے رب! نہ چھوڑ زمین پر بسنے والے کافروں میں سے کسی کو ۔اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑکی دعا کو قبول ومنظور فرمایا اور منکروں اور نافرمانوں پر ایک ایسے طوفان اور سیلاب کو مسلط کیا جن کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ چنانچہ یہ لوگ سیلاب اور طوفان میں خس وخاشاک کی طرح بہہ گئے۔ حضرت ابراہیم ؑکی بھی بہت سے دعائیں قرآن مجید میں مذکور ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کی دعا کی وجہ سے آپ پر جلتی اور بھڑکتی ہوئی چتا کو ٹھنڈا کر دیا اسی طرح بڑھاپے میں آپؑ کی دعا کی وجہ سے آپ کو حضرت اسماعیلؑ جیسا بیٹا عطا فرما دیا۔ حضرت موسیٰ ؑکا مقابلہ اپنے وقت کے بہت بڑے متکبر حکمران فرعون ، منصب دار ہامان، جاگیر دار شداد اور سرمایہ دار قارون سے ہوا۔ حضرت موسیٰ ؑکو فرعونیوں کے ظلم اور مکر سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے قریہ کو خیر باد کہنا پڑا۔ جس وقت آپ مدین کے گھاٹ پر موجود تھے اور تنہا اجنبی ، پردیسی مسافر تھے تو آپ نے پروردگار عالم کی بارگاہ میں آکر خیر کو طلب کیا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکی دعا کو قبول ومنظور فرما کر ان کے لیے اس اجنبی دیس میں ایک گھر اورشریک زندگی کابندوبست فرما دیا۔ اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام نے بڑھاپے کے عالم میں دعا مانگی :'' اے میرے رب! مجھے پاکیزہ اولاد عطافرما۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت زکریا ؑکی پکار کو قبول ومنظور فرما لیا اور آپ کو یحییٰؑ جیسا بیٹا عطا کیا کہ جن جیسے نام اور صفات والا بیٹا اس سے قبل نبی اسرائیل میں موجود ہی نہیں تھا۔ حضرت رسول اللہ ﷺبھی ساری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا ؤں کو پیش فرماتے رہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نبی مہربان حضرت رسول اللہ ﷺکی دعاؤں کو قبول ومنظور فرماتے رہے۔ صحابہ کرامؓ جب کسی مشکل یا مصیبت میں مبتلا ہوتے تو وہ بھی اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دست دعا کو پھیلا دیا کرتے تھے۔ حضرت خولہؓ ایک ایسی صحابیہ ہیں کہ جن کے شوہر نے ان کو اپنی ماں کہہ لیا وہ اس مسئلے کے حل کے لیے نبی کریم ﷺکی بارگاہ میں آئیں۔تو نبی ﷺنے شریعت میں کوئی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو واپس پلٹنے کاکہا ۔ جب انہوں نے مزید بحث کرنے کی کوشش کی تو نبی مکرم ﷺ نے خاموشی کو اختیار فرمالیا ۔حضرت خولہ ؓنے اس موقع پر بارگاہ رب العالمین میں مدد کے لیے التجا ء کی۔ اللہ تعالیٰ نے اٹھائیسویں پارے کے شروع میں اس امر کا اعلان فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سن لی اس (عورت)کی بات جو اپنے شوہر کے بارے میں آپ سے بحث کر رہی تھی اور اللہ تعالیٰ سے شکایت کر رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اس حوالے سے ایک رخصت کو نازل فرما دیا کہ جو شخص اپنی بیوی کو اپنی ماں کہہ لے گا اگر وہ دو مہینے کے متواتر روزے رکھتا ہے ‘ یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے ‘یا ایک غلام کو آزاد کر دیتا ہے تو اسکی بیوی دوبارہ اس پر حلال ہو جائے گی۔دعائیں ہرعہد میں پوری ہوتی رہیں اور آج بھی اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو دعاؤں کے ذریعے اللہ تبارک وتعالیٰ کو راضی کرکے اپنی مشکلات کو حل کروا سکتا ہے۔
2۔ ذکر الٰہی: ذکر الٰہی مومن ومسلمان کا بہت بڑا ہتھیار ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتے ہیں : '' پس تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر 41،42میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اے ایمان والو! اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت کیساتھ ذکرکیا کرو اور اس کی تسبیح کو صبح وشام کیا کرو، وہی ہے جو رحمتیں بھیجتا ہے تم پر اور اس کے فرشتے (دعائے رحمت کرتے ہیں)تاکہ تمہیں اندھیرے سے روشنی کی طرف نکالے۔‘‘ گویا کہ انسان جب اللہ تبارک وتعالیٰ کا کثرت سے ذکر کرتا ہے تو اس کی زندگی کے غم اور اندھیرے دور ہو جاتے ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام جب مچھلی کے پیٹ میں موجود تھے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کو الہٰ واحد جان کر اس کی تسبیح کو بیان کیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے دکھ اور درد کو دور فرما دیا اور ساتھ یہ بھی واضح فرمایا کہ وہ اسی طرح اہل ایمان کے دکھوں کو دور کرتا ہوں۔
3۔صدقہ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر صبح وشام ، اندھیرے اجالے میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی کے خوف اور غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر274میں ارشاد ہوا:''وہ لوگ جو رات اور دن کو خفیہ اور اعلانیہ طور پر اپنے مالوں کو خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے نہ ان پر خوف ہو گا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔‘‘ صدقہ اور خیرات کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے مصائب کو ٹال دیتے ہیں۔
4۔تقویٰ :جب انسان اللہ تعالیٰ کے اوامر کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے آپ کوگناہوں سے بچانا شروع کر دیتا ہے اور نیکی کے راستے پر کاربند ہو جاتا ہے اور معصیت اور نافرمانی سے حتی الوسع اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی زندگی کے غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔ مالک کائنات سورہ طلاق کی آیت نمبر2اور3 میں ارشاد فرماتے ہیں :''جو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈر جائے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے (تنگیوں سے )نکلنے کا راستہ بنا دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق دیں گے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔
5۔توکل: جب انسان کی زندگی میں کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''جو اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرے تو وہ کافی ہے اس کے لیے ‘‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر 51میں ارشاد فرماتے ہیں :''کہہ دیجئے ہرگز نہیں پہنچے گا ہمیں مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے وہ ہمارا مولیٰ ہے پس اللہ پر ہی چاہیے بھروسہ رکھیں ایمان والے۔‘‘ مصیبت کو لانے والی ذات بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہے اور مصیبتیں ٹلتی بھی اسی کے حکم کے ساتھ ہیں۔
6۔ استغفار وتوبہ: جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ کا طلب گار ہوجاتا ہے او ر بکثرت توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے غموں اور پریشانیوں کو دور فرما دیتے ہیں۔گناہ خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں اللہ انہیں معاف فرما دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ زمر کی آیت نمبر 53میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہو‘بے شک اللہ سب گناہوں کو بخش دیتا ہے ۔ ‘‘استغفار کے نتائج کے حوالے سے سورہ نوح میں بڑے خوبصورت انداز میں مذکور ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر کثرت سے استغفار کی تلقین کرتے رہے، آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا : بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا تم پر موسلا دھار بارش اور وہ مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ کر دے گا تمہارے لیے باغات اور کر دے گا تمہارے لیے نہریں ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ یقینا انسان کی جملہ مشکلات کو حل کرنے پر قادر ہیں۔ انسان کو جہاںپر تدبیر اور پلاننگ کے ذریعے اپنی مشکلات پر قابو پانے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے مذکورہ بالا تدابیر کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ جو انسان ان تدابیر کو اختیار کرتا ہے یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تمام مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کی مشکلات کو دور فرمائے۔ آمین !