14 اگست 1947ء کو پاکستان دنیا کے نقشے پر اُبھرا۔ ہمارا پیار اوطن پاکستان مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر ہے جس کے حصول کے لیے کئی عشروں تک ہندوستان کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں نے اپنے عظیم قائدین کی قیادت میں زبردست جدوجہد کی۔ حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال و دیگر قائدین نے برصغیر کے طول وعرض میں بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔ جلسے، جلوسوںکے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی فورمز پر بھی آزادی کے حصول کے لیے زبردست تحریک چلائی گئی۔ اس پرامن تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے انگریز سامراج اور ہندو مکار نے باہم گٹھ جوڑ کے ذریعے مسلمانوں کو زبردست تشدد کو نشانہ بنایا۔ بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں تربتر ہو گئیں‘ ماؤں کے سروں سے دوپٹوں کو اتارا گیا‘بہنوں کو بے حرمت کیا گیا‘ نوجوانوں اوربچوں کے لہو سے زمین کو رنگین کر دیا گیا۔ ان ساری قربانیوں کے بعد بھی پاکستان کے قیام کے وقت برصغیر کے مسلمان انتہائی خوش تھے کہ ہم نے ایک آزاد وطن حاصل کر لیا۔ گو ہم نے جغرافیائی اعتبار سے آزادی حاصل کر لی لیکن اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے حصول کے بعد بھی کرنے والے بہت سے ایسے کام تھے جن کو کرنے میں تاحال ہم کامیاب نہ ہو سکے۔ پاکستان کو کس طرح کا ہونا چاہیے؟ اس حوالے سے مختلف لوگ اپنے اپنے افکار اور نظریات بیان کرتے رہتے ہیں۔ محب وطن اہل دین کس طرح سوچتے ہیں؟ اس حوالے سے چند گزارشات قارئین کے سامنے رکھنا چاہتاہوں:
پاکستان چونکہ ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ اس لیے اس میں قرآن وسنت کی بالادستی کو یقینی بنانا حکمرانانِ وقت کی ذمہ داری ہے۔ گو اس ملک میں بسنے والے غیر مسلم بھی پاکستان کے شہری ہیں اور انہیں شہریت کے لحاظ سے مساوی حقوق حاصل ہیں لیکن ملک کی اپنی جہت اور نظام حکومت کو کتاب وسنت کے تابع ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جہت کو تبدیل کرنے کے خواہش مند بہت سے لوگ حضرت محمد علی جناحؒ کے بعض اقوال کو پیش کرکے یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت قائد پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانا چاہتے تھے۔ یہ بانی ٔ پاکستان پر بہت بڑا بہتان ہے۔ آپ کے مختلف خطبات اور تقاریر سے واضح ہوتا ہے کہ آپ پاکستان کو اسلام کا دیس بنانا چاہتے تھے۔ ایک اسلامی فلاحی ریاست‘ جہاں توحید اور سنت کے ابلاغ کی ہر حوالے سے حوصلہ افزائی ہو۔ایک اسلامی فلاحی ریاست کے حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سورہ حج کی آیت نمبر 41 کو مدنظر رکھیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آیت مبارکہ میں ارشاد فرماتے ہیں ''وہ لوگ کہ اگر ہم زمین میں انہیں اقتدار دیں (تو) وہ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیںاور تمام امور کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘ چنانچہ یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ نظام صلوٰۃ کے قیام کو یقینی بنائیں۔ گو پاکستان میں مساجد کی کثیر تعداد ہے لیکن تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں جس حد تک نماز کا اہتمام ہونا چاہیے وہ تاحال نہیں ہو سکا۔ کالجوں، یونیورسٹیوں، سکولوں اور کاروباری اداروں کے نظام الاوقات کو نمازوں کے ساتھ مربوط کرنا کچھ مشکل نہیں۔ اگر ایساکام کرلیا جائے تو یقینی طور پر نماز پڑھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور نماز سے بے رغبتی اختیار کرنے والوں کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ نظام صلوٰۃ کے بعد قرآن مجید کے مطابق حکمرانوں کی ترجیح نظام زکوٰۃ کا قیام ہونا چاہیے۔ ہمارے ملک میں سطحِ غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے اور ان کی بدحالی کے ازالے کے لیے 70 برس گزر جانے کے باوجود کوئی فیصلہ کن منصوبہ تیار نہیں کیا جا سکا۔ مختلف ادوار میں بعض انکم سپورٹ پروگراموں کو متعارف کروایا گیا لیکن ان پروگراموں کے اثرات عام طور پر حکومتی جماعت سے وابستہ لوگوں تک محدود رہے۔ حکومت کو اس طرح کے کام پارٹی کی وابستگی سے بالا تر ہو کر پوری قوم کے لیے کرنے چاہئیں اور اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ بوجھل اور غیر ضروری ٹیکسوں کے نظام کو نظام زکوٰ ۃ سے تبدیل کیا جائے۔ اگر زکوٰۃ ،عُشر ، صدقات اور خیرات کی بنیاد پر منظم بیت المال کو قائم کرلیا جائے اور علاقائی سطح پر اکٹھی کی جانے والی زکوٰۃ ، خیرات اور صدقات کو اسی علاقے کے غریب ، محروم، مساکین اور بیواؤں کی بحالی پر لگا دیا جائے تو کچھ ہی برسوں میں معاشرے سے بے روزگاری اور غربت کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
نظام صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اسلامی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ تمام معروف کاموں کی حوصلہ افزائی کرے ۔ معروف کاموں کی اگر فہرست کو مرتب کیا جائے تو اس میں مفت تعلیم دینے والے ادارے، طبی سہولیات کے مراکز، یتیموں اور بیواؤں کی بحالی کے سینٹراور مفلوک الحال لوگوں کے لیے مفت خورونوش کے ادارے شامل ہیں۔ اگر معروف کاموں کے نیٹ ورک کو سرکاری سطح پر منظم کیا جائے تو معاشرے کے غریب لوگوں کی زندگی اور رہن سہن کے انداز میں نمایاں تبدیلی رُونما ہو سکتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مذہبی تحریکوں اور رفاہی اداروں نے اس ذمہ داری کو حکومتی اور ریاستی اداروںسے کہیں بڑھ کر ادا کیا ہے۔ جب کہ سماجی فلاح پر مبنی پُر امن معاشرے کا قیام درحقیقت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ آج بہت سے یورپی ممالک میں سماجی فلاح کا نظام موجود ہے جس کے تحت انسانوںکی بنیادی ضروریات کو ریاست پورا کرتی ہے۔ معروف کاموں کی ذیل میں ان تمام کاموں کو خصوصی اور ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ خلفاء راشدین اور بالخصوص حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سماجی فلاح وبہبود کا ایسا نظام متعارف کروایا کہ کوئی بدحال شخص بھی اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے اپنے مستقبل کے بارے میں متفکر اور مترود نہیں رہتا تھا۔ جلد یا بدیر بیت المال کے ثمرات اس کے دروازے تک پہنچ جایا کرتے تھے۔
ایک اسلامی ریاست میں جہاں معروف کاموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے وہیں پر فواحش اور منکرات کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی کرنا بھی اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ چنانچہ قحبہ خانوں‘ منشیات فروشی کے مراکز، جواء خانوں اور اس قسم کے دیگر دھندوں کو فی الفور بند ہونا چاہیے۔ اسی طرح سودی معیشت پر مبنی نیٹ ورک کو اسلامی سرمایہ کاری کے نظام کے ساتھ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے علمائے دین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور سود کے حقیقی متبادل نظام یعنی صدقہ وخیرات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ۔اگر سرمایہ دار ہمہ وقت اپنے سرمائے کو بڑھانے کے لیے سود کھانے کی بجائے عوام کے درد کو محسوس کرتے ہوئے زکوٰۃ کے ساتھ ساتھ اپنے مال کا ایک مناسب حصہ صدقہ وخیرات کرتے رہیں تو معاشرے میں انسانوں کے استحصال کے راستے خود بخود مسدود ہو سکتے ہیں۔
اسلامی فلاحی ریاست میں جرم وسزا کا بھی ایک موثر نظام موجود ہونا چاہیے جس کے ذریعے جرائم پیشہ عناصر کی مکمل طور پر حوصلہ شکنی ہو۔ اسلام نے دہشت گردوں، قاتلوں،بدکاروں، شراب نوشوں، چوری کرنے والوں، ڈاکے ڈالنے والوں‘ دھوکہ اور فراڈ کرنے والوںاور جھوٹی تہمت لگانے والوں کے لیے کڑی سزاؤں کو مقرر کیا ہے۔ اگر ان سزاؤں کو معاشرے میں لاگو کر دیا جائے تو قانون اور سزا کے خوف کی وجہ سے بے شمار لوگ جرائم کے ارتکاب سے باز آ سکتے ہیں۔ اسلامی ریاست کے حوالے سے بہت سے لبر ل اور دین سے بیزار لوگ اس بات کا گمان کرتے ہیں کہ شاید اسلامی ریاست میں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کو غصب کیا جائے گا ۔ان کی یہ سوچ حقیقت سے متصاد م ہے، ایک اسلامی ریاست یقینی طور پرخواتین کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کرتی ہے اور اس سلسلے میں اُمہات المومنین اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوںکی سیرت و کردار ہمارے سامنے ہے۔ بالخصوص حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تعلیم وتعلم کے اعتبار سے خواتین کے لیے ایک سنہری مثال قائم کی۔ اسی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق بھی محفوظ رہتے ہیں۔ اقلیتوں کے ساتھ دینی مسائل میں مسلمانوں کو مذاکرے ، مباحثے اور دلائل کے تبادلے کا حق ہے لیکن جہاں تک تعلق ہے حقوق شہریت کا تو ایک اسلامی معاشرے میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سلسلے میں قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اگر ہم نے ایسا کر لیا تو جغرافیائی آزادی کے ساتھ ساتھ ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل کر دے۔ آمین