جب کسی عالم با عمل کی موت کی خبر سننے کو ملتی ہے تو سمجھ دار انسان پر سکتے کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آج ہم کسی قریبی عزیز یا سرپرست کی شفقتوںسے محروم ہو گئے ہیں۔ چلچلاتی ہوئی دھوپ میں بادلوں کا سایہ ہم سے ہٹ گیا ہے، زمین قدموں کے نیچے سے سرک گئی ہے،بہاریں ہم سے روٹھ گئی ہیں، اور دل میںخیال ابھرتا ہے کہ اب ہم روحانی توانائی کہاں سے حاصل کریں گے۔ سینہ غم سے تنگ ہو جاتا ہے، آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں، یوں سمجھیں کہ ان کے چلے جانے کے بعد دنیا ویران نظر آتی ہے۔ مگرجب عالم باعمل کی وفات پر ان کے ہم عصروں اور شاگردوں کے خوبصورت الفاظ اور دعائیں سننے کو ملتی ہیں تو دل گواہی دیتا ہے کہ بامقصد زندگی تو انہی کی تھی اور سعادت کی موت بھی انہی کی ہے کہ جو مرتے دم تک رب کا قرآن اور نبی ﷺکا فرمان سنا گئے اور اپنے رب کے فضل اور نیک اعمال کے ذریعے دنیا کی نیک نامی کے ساتھ ساتھ آخرت کی کامیابیوںکو سمیٹ گئے۔
اس موقع پر نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث بھی ذہن میں آتی ہے کہ'' اللہ تعالی علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اس کو بندوں ( کے سینوں ) سے ہی چھین لے۔ بلکہ وہ ( پختہ کار ) علماء کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوالات کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ چنانچہ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔ (بخاری شریف)
میں نے اپنی زندگی میں بہت سے عظیم علماء کو دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے دیکھا اور ہر عالم کی موت کے بعد محسوس کیاکہ مدتوں تک ان کا خلاء پورا نہیں ہو سکے گا۔
15 اگست کا دن بھی اپنے ساتھ ایک المناک خبر کو لے کر آیاکہ شیخ الحدیث مولانا عبداللہ امجد چھتوی ؒاللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے ہیں۔ آپ کی عمر 78 برس تھی۔ آپ ریاست بیکانیر (انڈیا) کے علمی مرکز بڈھیمالوی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد مرحوم سے حاصل کی اور درس نظامی کی تکمیل جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں 1958 میں کی۔ فراغت کے بعد اسی جامعہ میں 18 سال تدریس کے فرائض سر انجام دئیے اور بعد ازاں دارالقرآن ( فیصل آباد) ، جامعہ سلفیہ (فیصل آباد) اور جامعہ اشاعۃ الاسلام عارفوالہ 149/eb میں بھی شیخ الحدیث کے طور پر تدریس کے فرائض سر انجام دیتے رہے اور 1993 سے تاحال مرکز الدعوۃ السلفیہ ستیانہ بنگلہ میں شیخ الحدیث اور مفتی کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح تقریبا ً تیس سال سے آپ کو صحیح البخاری پڑھانے کا شرف حاصل رہا ہے۔آپ نے اپنے وقت کے نامور علماء سے علم کو حاصل کیا۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
شیخ الحدیث والتفسیر حافظ عبداللہ بڈھیمالوی،شیخ الحدیث مولانا محمد عبدہ، شیخ الحدیث پیر محمد یعقوب صاحب، شیخ الحدیث والتفسیر محمد عبداللہ روپڑی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ۔
اسی طرح آپ سے سینکڑوں کی تعداد میں علماء نے علم کو حاصل کیا جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
فضیلۃ الشیخ مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فیصل آباد،شیخ الحدیث حافظ عبدالعزیز علوی حفظہ اللہ فیصل آباد،شیخ حافظ عبدالمنان نورپوری رحمہ اللہ گوجرانوالہ، شیخ حافظ عبدالسلام بھٹوی حفظہ اللہ مریدکے، شیخ الحدیث مولانا عبدالعلیم صاحب گوجرانوالہ، شیخ الحدیث مولانا محمد اکرم شاہ سیالکوٹ، شیخ الحدیث مولانا محمد گلزار صاحب فیصل آباد، فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالغفار اعوان المدنی حفظہ اللہ اوکاڑہ،شیخ مقصود احمد صاحب حفظہ اللہ ۔
آپ آخری عمر میں کچھ عرصہ علیل رہے۔ لیکن دوران علالت بھی آپ تعلیم وتعلم اور تبلیغ کے عمل سے وابستہ رہے ، احادیث سے فقہی مسائل کے استنباط اور اور استدلال میں منفرد ذوق رکھتے تھے ۔ طلباء کو تقابلی انداز میں پڑھانا اور اس کے اصولوں سے آگاہ کرنا بھی ان کا خاص وصف تھا ۔
مرکز ستیانہ جو کہ کتاب وسنت کی تعلیم کا ایک بڑا مرکز ہے۔ اس مرکز میں حافظ عبداللہ بڈھیمالوی کی رحلت کے بعد تقریباً 30 برس آپ نے دورہ تفسیر القرآن بھی کروایا ۔اپنے طویل تدریسی کیرئیر کے دوران آپ نے ایک دن بھی چھٹی نہیں کی۔ حتیٰ آپ کی صاحبزادی ام محمد ایک طویل علالت کے بعد رات کے کسی حصہ میں فوت ہو گئیں تھی۔ آپ نے فجر کے فورا ًبعد مدرسے میں اعلان نہیں کروایا۔صبح حسب معمول درس کے لئے طالب علم آپ کو لینے کے آپ کے گھر پہنچے ۔ تو گھر کے باہر غیر معمولی کیفیت تھی۔آپ آگے بڑھ کر طالب علم کی بائیک پر سوار ہو کر مدرسہ پہنچے ‘راستے میں طالب علم کے استفسار پر اپنی لخت جگر کی فوتگی کا بتلا کر سختی سے تاکید کی کہ مدرسہ میں ابھی کسی کو نہیں بتانا۔پھر معمول کے مطابق صحیح بخاری شریف کا درس دیا۔
اتنی دیر میں مدرسے کی مسجد سے بیٹی کی وفات کا اعلان ہوا تو طلبہ آپ کی تعلیم وتدریس کا ذوق ریکھ کر حیران رہ گئے۔ اس موقع پر آپ نے فرمایا :حدیث کے سبق سے دل کو کافی صبر وسکون ملا۔
آپ نے تعلیم وتعلم کے ساتھ ساتھ بعض دینی اور سیاسی تحاریک میں بھر پور شرکت کی اور عوام کی خوبصورت انداز میں رہنمائی فرمائی ۔تحریک ختم نبوتﷺ اور تحریک نفاذ نظام مصطفی میں ان کی خدمات نمایاںہیں ۔ اس دوران آپ پر مقدمات بھی قائم کیے گئے اور آپ پابند سلاسل بھی رہے ۔
مولانا عبداللہ امجد چھتوی سے مجھے کئی مرتبہ ملاقات کا موقع ملا۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒکی نسبت کی وجہ سے وہ مجھ سے ہمیشہ انتہائی شفقت والا معاملہ کرتے اور مجھے مسکرا کے دیکھتے۔ کھڈیاں ضلع قصور کے ایک اجتماع میںمجھے ان کی براہ ِراست ایک تقریر سننے کا بھی موقع ملا۔ آپ کی شخصیت بڑی پُر رعب اور آپ کا خطاب انتہائی پر اثر ہوتا تھا اور تشنگان علم آپ کی خطابت اور آپ کے علم سے بھر پور استفادہ کیا کرتے تھے۔
رائیونڈ کی مرکزی مسجد میں چھتوی صاحب نے اکتالیس سال مسلسل جمعہ پڑھایا ۔پانچ دن پہلے بھی جمعہ پڑھا کر گئے، پہلے بالعموم آدھا گھنٹہ خطبہ دیتے تھے لیکن زندگی کے آخری جمعہ کے خطبے کا دورانیہ پون گھنٹہ تھا۔
مولانا عبداللہ چھتوی ؒکے جنازے کے دن ستیانہ کی سرزمین نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ ستیانہ کے چھوٹے سے قصبے میں سینکڑوں کی تعداد میں بسیں، ویگنیں، ٹرالیاں، گاڑیاں اور دیگر سواریاں موجود تھیں اور جس ہائی سکول گراؤنڈ میں مولانا کے جنازے کو ادا کیا گیا اس گراؤنڈ میں داخل ہونا مشکل ہو چکاتھا۔ جنازے میں ہزار ہا انسانوں کی شرکت دیکھ کر دل کو شرح صدر حاصل ہوا کہ دنیا داروں اور مادہ پرستوں کے جنازوں میں لوگ مادی اغراض اور مفادات کے لیے آتے ہیں لیکن اہل دین کے سفر آخرت میں شمولیت کے لیے لوگ بغیر کسی غرض سے صرف محبت اور عقیدت کی وجہ سے کشاں کشاں چلے آتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مریم کی آیت نمبر96 میں اس امر کا اعلان فرما دیا ''بے شک جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے عنقریب رحمن ان کے لیے محبت (کو پیدا )کر دے گا۔ ‘‘ جنازے میں ملک بھر سے صرف عوام ہی کی کثیر تعداد شریک نہ تھی بلکہ حدیث کو پڑھنے اور پڑھانے والے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ حضرت شیخ الحدیث حافظ شریف، شیخ الحدیث مولانا مسعود عالم، شیخ الحدیث مولانا عبدالسلام بھٹوی سمیت ملک کے طول وعرض سے اکابر علماء کی کثیرتعداد نے شرکت کی۔ جنازے کی امامت معروف عالم دین مولانا عتیق اللہ نے کروائی۔ جنازے کے دوران ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہرشریک جنازہ خلوص دل سے مولانا کی درجات کی بلندی کے لیے دعا گو تھا۔ گو مولانا عبداللہ چھتوی ہم میں نہیں رہے لیکن اس قسم کے اکابر علماء کا خلاء قیامت کی دیواروں تک پُر نہیں ہو سکتا۔ ان کی یادوں کی خوشبو سے دل کا گلستان ہمیشہ مہکتا رہے گا۔ ان شاء اللہ ۔