وہ عظیم اوصاف جن کی وجہ سے ایک بڑا انسان دوسرے انسانوں کے مقابلے میں ممتاز ہو جاتا ہے ا ور وہ عظیم خوبیاں جن کی وجہ سے لوگ نمایاں کامیابیاں حاصل کرلیتے ہیں ان میںسے ایک اہم وصف اور خوبی مسلسل جدوجہد ہے۔ انسان کے نظریات اور اہداف خواہ کیسے بھی کیوںنہ ہوں اگر وہ اپنے نظریات اور اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتا ہے تو جلد یابدیریا تو وہ اپنے نظریات کی اشاعت اور مقاصد کے حصول میں کامیاب ہو جاتا ہے یا جدوجہد کی ایک تاریخ رقم کرکے آنے والے لوگوں کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انسان کے نظریات اور افکار سے اختلاف رکھنے والے لوگ بھی اس کی جدوجہد سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے صراط مستقیم پر چلنے والے کئی انبیاء علیہم السلام کے احوال کا ذکر کیا جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے لیے بے مثال جدوجہد کی ۔ ہر طرح کی ابتلاؤں ،اذیتوں، مشقتوں اور تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیالیکن دعوت الا اللہ کے عظیم ـمشن سے لمحہ بھر کے لیے بھی ہٹنا گوارا نہیں کیا۔
حضرت نوح علیہ السلام کا واقعہ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے۔ آپؑ ساڑھے نو سو برس تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ ساڑھے نوبرس کے دوران آپ کو مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ آپ کو دیوانہ کہا گیا، آپ کو پتھر مارے گئے لیکن اس کے باوجودآپ راہِ حق پر پوری استقامت کے ساتھ کاربند رہے اور اپنی دعوت کے مادی نتائج سے بے پرواہ ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی تبلیغ کرتے رہے۔ حتیٰ کہ اپنے کردار، جہد مسلسل اور عزم کی وجہ سے آپ اولوالعزم رسل اللہ میں شامل ہو گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی ساری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی نشرواشاعت کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ حضرت ابراہیمؑ نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت کو حاصل کیا۔ اجرام سماویہ کی حقیقت پر غوروخوض کرنے کے بعد آپ اس بات کو بھانپ گئے کہ ان میں ربوبیت اور الوہیت والے کوئی امکانات موجود نہیں ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی زمین وآسمان کے خالق ومالک ہیں اور بندگی ،پوجا اورپرستش انہی کا حق ہے۔ ابراہیم ؑ نے بت کدے میں جا کر کلہاڑے کو چلا دیا اور اعدائے دین کی شقاوتوں کے مقابلے میں سینہ سپر ہو گئے۔ آپؑ سے عداوت رکھنے والوں نے آپؑ کو جلتی ہوئی چتا میں جلانے کی کوشش کی۔ حضرت ابراہیمؑ پیکر صبر ورضا بن گئے۔ اللہ کو اپنے لیے کافی جان کر اسی کو بہترین کارساز قرار دیا تو اللہ نے بھڑکتی ہوئی چتا کو آپؑ کے لیے ٹھنڈا فرما دیا۔ دربارِ نمرود میں آپؑ نے صدائے توحید کو بلند فرما دیا اور نمرود کے سامنے اس بات کا اعلان کیا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ نمرود نے اس دلیل کو مکر وفریب کے ذریعے ٹالنا چاہا اور ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار کر ایک مجرم کو آزاد کر دیا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اس کے مکرو فریب کے پردے کو چاک کرنے کے لیے اس موقع پر اس دلیل قطعی کو پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے تُو سورج کو مغرب سے لے کے آ۔ اس دلیل کا نمرود کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ چنانچہ وہ دلیل حق کے سامنے لاجواب ہو کر بے بس اور بے کس ہو گیا۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور اپنے ننھے بیٹے حضرت اسماعیل ؑکو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا اور اللہ ہی کے حکم پر اپنے بیٹے اسماعیل ؑ کے گلے پر چھری چلانے کے لیے بھی تیار ہو گئے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ کی توحید کی نشرواشاعت کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ آپؑ نے فرعون کی رعونت، قارون کے سرمائے، شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مشن کو جاری وساری رکھا اور اپنے کردار کی بلندی کی وجہ سے رہتی دنیا تک کے لیے امر ہو گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا معاملہ بھی اسی طرح کا رہا۔ بستی کے لوگوں کی عداوت اور حاکم وقت کی مخالفت کی پرواہ کیے بغیر اللہ کی توحید کی نشرواشاعت میں مصروف رہے۔ آپؑ کو شہید کرنے کی جستجو کی گئی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کو کافروں کے مکر سے محفوظ فرمایا اور آپ ؑکو زندہ آسمان کی طرف اُٹھا لیا۔ نبی کریم حضرت رسول اللہ ﷺ اولوالعزم انبیاء کی تاریخ میں اس اعتبار سے انتہائی نمایاں رہے کہ آپﷺ نے اپنے کردار ،عمل، گفتار ورفتار کے ذریعے جہد مسلسل کی ایک ایسی تاریخ کو رقم کیا جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ آپﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ ﷺ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، آپﷺ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، طائف کی وادی میں آپﷺ پر اس انداز میں ظلم کے پہاڑ توڑے گئے کہ آپﷺ کا وجود اطہر لہو رنگ ہو گیا ایسے عالم میں پہاڑوں کا فرشتہ حضرت جبرائیل ؑ کے ساتھ آیا اور عرض کی کہ اگر آپﷺ حکم کریں تو طائف کی اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے۔ نبی مہرباں حضرت رسول اللہﷺ نے اعلان فرمادیا : اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے‘ یہ مجھ کو پہچانتے نہیں۔ آپﷺ نے اللہ کے دین کے لیے اپنے وطن کو خیرباد کہا، اللہ کی رضا کے لیے ادھیڑ عمری میں تلوار کو اُٹھالیا۔ آپ ﷺ کی مسلسل جدوجہد کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺ کی حیات مبارکہ میں ہی جزیرۃ العرب میں اسلام کا بول بالا فرما دیا اور کعبۃ اللہ جس میں 360 بتوں کو نصب کیا گیا تھا‘ کو دوبارہ مرکز ومحورِ توحید بنا دیا۔
نبی کریمﷺ کے خلفاء اور جانشینوں نے بھی اسلام کی سر بلندی کے لیے جدوجہد کو جاری رکھا اور اللہ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے جہد مسلسل کے ذریعے پوری کائنات میں اسلام کا بول بالا فرما دیا۔ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد بھی مختلف ادوار میں آئمہ دین نے اللہ کے دین کی نشرواشاعت کے لیے جدوجہد کو جاری رکھا اوردین کی نشرواشاعت کے لیے اپنے قلم، اپنی زبان، اپنے وسائل اور صلاحیتوں کو بہترین انداز میں استعمال کیا۔ جس کی وجہ سے پوری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت ہوئی۔ آئمہ دین اور علمائے حق نے اپنے آپ کو اس انداز میں خدمت دین کے لیے وقف کیے رکھا کہ نہ صبح کے دھندلکوں کو دیکھا، نہ چلچلاتی ہوئی دوپہروں کو دیکھا، نہ ڈھلتے ہوئے سورج کو دیکھا، نہ رات کے اندھیاروں کو دیکھا۔ ہمہ وقت جدوجہد اور جستجو کی تصویر بنے رہے۔
جہد مسلسل کا معاملہ صرف خدمت دین تک ہی موقوف نہیں بلکہ سیاسی اور دنیاوی معاملات میں بہت سے ایسے لوگ گزرے جنہوں نے اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے شبانہ روز محنتیں کیں، وہ جہد مسلسل کے ذریعے اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ بانی پاکستان حضرت محمد علی جناحؒ نے اپنے رفقاء کے ہمراہ آزادی کے حصول کے لیے کئی عشروں تک زبردست جدوجہد کی اور بالآخردنیا کے نقشے پر پاکستان سب سے بڑی اسلامی نظریاتی ریاست کی حیثیت سے اُبھر آیا۔ حضرت محمد علی جناحؒ کے بعد بھی جدوجہد کا یہ سلسلہ جاری وساری رہا اور تاحال جاری وساری ہے۔ تاریخ اور سیاسیات کے طالب علم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے مقامات پر مختلف مذاہب کے پیروکار اور مختلف رنگ ونسل کے لوگ جہد مسلسل کے ذریعے اپنے ہدف کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ نیلسن منڈیلا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جنہوں نے کالوں کے حقوق کے لیے آواز کو اُٹھایا اور اس حوالے سے مسلسل جدوجہد کی ۔ 27 سال طویل عرصہ قید وبند کی صعوبتیں برداشت کے بعد بالآخر کالوں کو حقوق دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ تجربات اور مشاہدے کے ذریعے اس حقیقت کو پرکھا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہتے ہیں وہ جلد یا بدیراپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ عصر حاضر کے نوجوان کو بھی قوت عمل سے بہرہ ور ہو کر جہد مسلسل کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔ میدان تعلیمی ہو ،پیشہ ورانہ ہو ،سیاسی ہو ،روحانی ہو یا خدمت خلق کا ہو ، جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ اگر ہم درست سمت میں جستجو اور جدوجہد کو جاری رکھیں گے تو یقینا ہم دنیا اور آخرت کی بہت سی کامیابیوں کو سمیٹ سکتے ہیں۔مایوسی، سستی، کاہلی اور بے راہ روی انسان کو کئی مرتبہ جہد مسلسل سے دُور لے جاتی ہے اور بعض اوقات انسان بغیر عمل کے بڑے اہداف اور بڑی توقعات کو اپنے دل میں سمو لیتا ہے ‘ نتیجتاً اسے ناکامی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اگر ہم دنیا اور آخرت کی کامیابیوںکو سمیٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر توکل کرتے ہوئے مسلسل جدوجہد کو جاری رکھنا چاہیے۔ جو شخص بھی مثبت انداز میں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے جدوجہد جاری رکھے گا‘ جلد یا بدیر وہ دنیا اور آخرت کی کامیابیوں و کامرانیوں کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جائے گا ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دنیا اور آخرت میں کامیاب وکامران کرے۔ آمین!