گزشتہ چند دنوں کے دوران بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جو توجہ طلب ہیں اور ہر پاکستانی ان معاملات کو اپنے اپنے تجربے اور علم کے تناظر میں دیکھ رہا ہے۔ سب سے بڑا اور اہم واقعہ امریکہ کے صدر ٹرمپ کی پاکستان کو دھمکی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی مضبوط پناہ گاہیں ہیں اور انہوں نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ صدر ٹرمپ کا یہ بیان کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے۔ پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی صلاحیتوں سے کہیں بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا لیکن امریکہ نے مسلسل ''ڈومور‘‘ کے مطالبے کو جاری رکھا۔ قبائلی علاقوں میں امریکہ کے مسلسل ڈرون حملوں کی وجہ سے پاکستان کو داخلی خلفشار کا بھی سامنا کرنا پڑا اور سیاسی اعتبار سے بھی ملک کی سیاسی جماعتوں کے درمیان کشمکش میںاضافہ ہوا۔ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستان کے احتجاج کو امریکہ نے کبھی اہمیت نہ دی اور قطع نظر اس بات کے کہ امریکہ کے ڈرون حملوں کا ہدف بننے والے پاکستان کے وفادار ہوں یا ـمخالف امریکہ نے اپنے مفاد میں جہاں مناسب سمجھا ڈرون حملے کیے‘نتیجتاً پاکستان کی مذہبی اور سیاسی کشمکش کو ہوا دی۔ امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی جارحیت کی وجہ سے لاہور قرطبہ چوک میں بعض جانیں ضائع ہو گئیں۔ ریمنڈ ڈیوس قانوناً سزا کامستحق تھا لیکن امریکہ نے پاکستان کے قوانین کو پامال کرتے ہوئے اپنے قاتل جاسوس کو قتل کے ارتکاب کے باوجود بغیر سزا دلوائے پاکستان سے بحفاظت امریکہ منتقل کر دیا۔اس کے بالمقابل پاکستان کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی عرصۂ دراز سے امریکہ میں محبوس ہے اور پاکستانی قوم کے مسلسل احتجاج کے باوجود ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے مطالبے کو امریکہ نے کوئی اہمیت نہیں دی۔ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ مودی سرکار کو خوش کرنا اور خطے میں طاقت کے توازن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر افواج پاکستان نے جس ردعمل کا اظہار کیا وہ تسلی بخش ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان کے خلاف جمعہ کے روز ایک بڑا مظاہرہ ہوا ۔ جس میں دفاع پاکستان کونسل میں شامل تمام جماعتوں نے شرکت کی۔مظاہرے میں شرکت کرنے والوں میں صرف نوجوان ہی نہیں بلکہ پختہ عمر کے بزرگوں کی بھی بڑی تعداد شامل تھی۔یہ سب لوگ زبان ِحال سے پیغام دے رہے تھے کہ پاکستان کی سالمیت کے لیے پوری قوم افواج پاکستان کے ہم قدم ہو گی۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور معزول وزیراعظم میاں نواز شریف بھی احتجاجی مظاہروں اور مختلف طبقات زندگی کے اجتماعات سے خطاب کرنے میں مشغول رہے ہیں۔ میاں نواز شریف اس بات پر نالاں ہیں کہ ان کو کرپشن کے الزام میں کیوں نااہل قرار دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس الزام کی واضح صفائی دینے کی بجائے ملک میں ایک نیا مطالبہ پیش کر رہی ہے کہ آئین کی شق 62 ، 63 کو ختم کیا جائے ۔پاکستان کے آئین کی شقیں 62 اور 63امیدوار کی اہلیت کے تعین کے لیے ایک بہترین ضابطہ مقرر کرتی ہیں۔ ان شقوں کے مطابق کوئی بھی امیدوار جو صداقت اور امانت کے اعلیٰ معیار پر پورا نہ اترتا ہو اس کو سیاسی امور کی قیادت کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ میاں صاحب کو اس قانونی ،آئینی اور عدالتی طریقے سے اپنی صداقت اور امانت داری بیان کرنے کا پورا حق حاصل ہے لیکن شق 62 اور 63 کے خاتمے کے لیے مہم جوئی کرنا کسی بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔ میاں محمد نواز شریف اس بات کا بھی اظہار کرچکے ہیں کہ عوام کا ووٹ اس بات کا فیصلہ کرے گا کہ کون مجرم ہے اور کون بے گناہ ؟ میاں صاحب کا یہ موقف اصولی طور پر اس لیے درست نہیں کہ کسی بھی سیاسی شخصیت کے مجرم ثابت ہو جانے کے بعد بھی اس کی عوامی تائید برقرار رہتی ہے تو یہ اس کے بے گناہ ہونے کا ثبوت نہیں بن سکتی۔ ماضی میں ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین بھی پاکستان کے بارے میں کئی مرتبہ غلط جذبات کاا ظہار کر چکے ہیں لیکن صرف عوامی تائید کا فائدہ اُٹھاکر ہی
وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے۔
عوامی دلچسپی کا تیسرا اہم معاملہ حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کا ہے۔ جہاں پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کے ساتھ ساتھ ایک نئی جماعت ملی مسلم لیگ کے رہنما قاری یعقوب شیخ بھی میدان عمل میں ہیں۔ یہ حلقہ عوام کی دلچسپیوں کا مرکز بنا ہوا ہے اور عوام اس حلقے میں ہونے والی انتخابی مہم میںبڑی دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس انتخاب کے نتائج یقینا آئندہ عام انتخابات پر بھی اثر انداز ہوں گے۔ حلقے میں جیت کے اعتبار سے تو اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ہی کے درمیان تصور کیا جا رہا ہے لیکن قاری یعقوب شیخ کو بھی معقول ووٹ ملتے نظر آ رہے ہیں۔ قاری یعقوب شیخ اس سے قبل جماعۃ الدعوۃ کے تنظیمی کاموں کی نگرانی میں سر گرم رہے ہیں۔ تنظیمی نیٹ ورکنگ، کارکنوں کو منظم کرنے اور عوامی اجتماعات کے انعقاد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ریاض یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور بہترین مقرر ہیں۔ قاری یعقوب شیخ اگر اس حلقے سے معقول ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقینا آئندہ عام انتخابات میں ملی مسلم لیگ بھی ایک موثر جماعت بن کرسامنے آئے گی۔
لاہورکے شہری حلقے سے ایک نئی جماعت کا انفرادی حیثیت میں معقول ووٹ لینا یقینا انتخابی اور اتحادی سیاست کے حوالے سے اس جماعت کی اہمیت میں اضافے کا موجب ہوگا۔ ماضی میں لاہور ہی کے ایک ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار حامد معراج نے جب دس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تو اس کے بعد رفتہ رفتہ تحریک انصاف ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ملی مسلم لیگ کو جماعۃ الدعوۃ کی مکمل تائید حاصل ہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے کارکن قاری یعقوب کے لیے ڈور ٹو ڈور کمپین کر رہے ہیں۔ دیکھیے اس کمپین کے نتائج کیا مرتب ہوتے ہیں۔ 17ستمبر کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے بعد ملی مسلم لیگ کی سیاسی اہمیت اور مستقبل کے تعین میں آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔
گزشتہ چند دنوں کے دوران دہشت گردی کے بعض افسوسناک واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جن پر پوری قوم بے چین اور بے قرارہے۔ دہشت گردی کے واقعات کے بعد ہمیشہ اس بات کی توقع کی جاتی ہے کہ دہشت گردوں کو بے نقاب کرکے کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ انتظامیہ اور ادارے اس حوالے سے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ماضی میں دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کے بعد مجرم بے نقاب نہیں ہو سکے۔ بلکہ ان واقعات کے بعد بالعموم الزام تراشیوں اور قیاس آرائیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ کئی مرتبہ ان واقعات پر کیے جانے والے تبصروں کی وجہ سے معاشرے میں طبقاتی کشمکش کو بھی فروغ حاصل ہوتا ہے۔ حکومت کوچاہیے کہ دہشت گردی کے واقعات کے تدارک کے لیے ان واقعات میں ملوث مجرموں کو بے نقاب کرکے ان کو قرار واقعی سزا تاکہ ہمارا ملک امن وسکون کا گہوارہ بن سکے۔ دہشت گردوں کانہ کوئی مذہب ہوتا ہے اور نہ کوئی مسلک‘ انسانیت اور مذہب کے یہ دشمن کسی بھی رورعایت کے مستحق نہیں‘ ان کو قرار واقعی سزا ملنی ہی چاہیے۔ ملک کی کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کو دہشت گردی کے واقعے میں ملوث کسی بھی مجرم کی پشت پناہی نہیں کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں کسی بھی بے گناہ فرد کو کسی شبے کی بنیاد پر ٹارگٹ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ انصاف اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ریاست کو اپنا موثر اور غیرجانبدارانہ کردار پوری قوت سے ادا کرنا چاہیے۔ قومی سلامتی سے متعلقہ یہ تمام امور جہاں ریاست اور حکومت کی توجہ کے طلب گار ہیں وہیں پر عوام کو بھی اس سلسلے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے دشمن اور حاسد یقینا پاکستان کو ناکام کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل اور اس کی تائید ونصرت کے ساتھ پاکستان نہ صرف ترقی کرے گا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ قائم رہے گا۔