برماکے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کوکئی عشروںسے صرف ان کے مذہب کی وجہ سے انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہاہے ۔ ہزاروں کی تعداد میںمظلوم مسلمان بچوں اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو اذیتیں دے کر شہید کیا جا چکا ہے۔ مسلمان عورتوں کی بڑے پیمانے پر عصمت دری کی جا چکی ہے۔ بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں تربتر ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں کی حالت زار دیکھ ہر حساس دل مغموم ہو جاتا ہے۔ 1970ء سے لے کر اب تک دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مسلمان دوسرے ملکوں میں جا کر آباد ہو چکے ہیں۔ جن میں سے دو لاکھ سے زائد سعودی عرب میں، ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ پاکستان میں اور پانچ لاکھ کے قریب بنگلہ دیش میں موجود ہیں۔ اس المیے میں اضافے کا بہت بڑا سبب برما کے ہمسایہ ملک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کی تنگ نظری اورا سلام دشمنی ہے۔ اس سے قبل وہ پروفیسر اعظم، ملا عبدالقادر شہید اور جماعت اسلامی کے دیگر رہنماؤں اور جید علماء کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اس کو کوئی دلچسپی نہیں۔ حالانکہ روہنگیا مسلمانوں کو برما کے لوگ بنگالی کہہ کر پکارتے ہیں۔ حسینہ واجد اس مسئلے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے یہ الفاظ کہتی ہے کہ ''ہمارا ملک پہلے ہی آبادی کے لحاظ سے دباؤ میں ہے۔ اس لیے ہم مزید آبادی کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتے۔‘‘ مظلوم روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش میں پناہ لینے کے لیے داخل ہونا چاہتے ہیں لیکن حسینہ واجد کی حکومت ان کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔اگست کے آخرمیں بڑے پیمارے والے ہونے والے قتل عام کے بعد جب ہزاروں روہنگیا مسلمانوں نے مجبوری اور بے سروسامانی کے عالم میں بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کی تو بنگلہ دیش کی سرحد پر موجود سیکورٹی فورسز نے ان کو داخل ہونے سے روک دیا۔جس کی وجہ سے برما اور بنگلہ دیش کے درمیان موجود نو مین ایریا میں دس ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان پھنس چکے ہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں سمندر میںموجود واحدمہاجر کیمپ صرف انہی مسلمانوں کا ہے جو سمندر کی خطرناک لہروں کے درمیان موت وحیات کی کشمکش میں زندگی کے بچے کھچے دن گزار رہے ہیں۔
اقوام عالم کی اس سلسلے میں ستم ظریفی کا عالم یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے کئی تحقیقاتی اور امدادی مشنز کو برما میں داخلے سے روک دیا گیا لیکن اس باوجود اقوام متحدہ اہل برما کے حق میں کوئی واضح اسٹینڈ لیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ برمی حکومت کی قائد آنگ سان سوچی نوبل انعام یافتہ خاتون ہیں۔ یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ ایک ایسی عورت کو نوبل انعام برائے امن دیا گیا جس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں اور جس نے کبھی بھی وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی کے جرم کا اعتراف نہیں کیا۔ بلکہ اپنے ماضی قریب کے تمام انٹرویوز میں اس نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کا یکسر انکار کیا ہے اور اس تمام قتل عام کو دوطرفہ خوف کا نتیجہ قرار دیا۔ انسانی حقوق کی نجی اور بین الاقوامی تنظیموں کو اس موقع پر مطالبہ کرنا چاہیے کہ آنگ سان سوچی سے نوبل انعام برائے امن کو واپس لیا جائے۔
انسانی حقوق کی یہ تنظیمیں شایداقلیتوں اور عورتوں کی حق تلفی کو ہی انسانی حقوق کی خلاف ورزی تصور کرتی ہیں۔ اسی لیے آج تک انہوں نے کبھی بھی کشمیری اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر آواز نہیں اُٹھائی ۔ اہل برما کے ساتھ ہونے والے انسانیت سوز مظالم کو پچھلے کئی برسوں کے دوران الیکٹرونک میڈیا پر بھی خاطر خواہ کوریج حاصل نہیں ہو سکی۔ برما کے مظلوم مسلمان بیچارگی کے عالم میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں اور دنیا بھر کے مسلمان اور اسلامی ممالک کے سربراہان ان کی حالت زار پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
قومی ریاستوں کے قیام نے امت کے دردمشترک اور قدر مشترک پر گہری ضرب لگائی ہے اور آج اگر کسی ایک مقام پر مسلمان مظلوم یا معتوب ہوں تو دیگر اقوام سے تعلق رکھنے والے مسلمان اس لیے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس ظلم سے محفوظ ومامون سمجھتے ہیں۔ یہ خود غرضی اور نفسا نفسی اس حد تک آگے بڑھ چکی ہے کہ ایک ہی وطن اور ملک میں بسنے والے افراد بھی قومی‘ لسانی تقسیم اور اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے کے دکھ درد کو صحیح طریقے سے محسوس نہیں کرتے ۔
قرآن مجید کی سورت الحجرات میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا ہے کہ بے شک مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اسی طرح حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ مسلمانوں کی مثال ایک جسد واحد کی مانند ہے کہ جسم کے ایک حصے میں درد ہو تو باقی سارا جسم بھی اس درد کو محسوس کرتا ہے۔ اسی لیے کسی شاعر نے خوب کہا تھا ؎
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
یہ جذبہ اخوت سر دست مسلمانوں میں نظر نہیں آرہا‘ اسی لیے کسی بھی مسلمان ملک نے اس مسئلے کو ماضی میں بین الاقوامی سطح پر اُٹھا نے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی۔ اسی طرح مسلمانوں کے اپنے نمائندہ ادارے جن میں سرفہرست او آئی سی ہے اس نے بھی اس مسئلے پر غوروغوض کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ۔
امریکہ اور یورپی اقوام دنیا بھر میں مسیحیوں کے معاملات پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسی لیے مشرقی تیموراور سوڈان کے وہ علاقے جہاں مسیحیوں کو غیر محفوظ سمجھا گیا‘ ان کو سیاسی طور پر علیحدگی دلوانے کے لیے فوری کردار ادا کیا گیا۔ اسی طرح مغربی اقوام داخلی سطح پر کبھی سیاسی آزادی کے مطالبے کو نظر انداز نہیں کرتیں۔انگلستان میں سکاٹ لینڈ کی علیحدگی سے متعلق استصواب رائے کے مطالبے کو فی الفور عملی جامہ پہنایا۔ اس کے برعکس کشمیر کے مسلمان تقریباً گزشتہ سات عشروں سے اپنی آزادی کے لیے برسرپیکار ہیں لیکن ان کے جائز مطالبے کو کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
روہنگیا مسلمان اٹھارویں صدی کے آخری حصے تک آزادی سے زندگی گزار رہے تھے اور ان کی اپنی حکومت تھی۔ برما نے جبراً ان کے علاقوں پر قبضہ کرلیا اور بتدریج ان سے مذہبی آزادیوں کو سلب کیا اوریہاں تک کہ ان سے جینے کے بنیادی حق کو چھین لیا گیا۔
اس المیے پر اقوام عالم اور امت مسلمہ کو جہاں پر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘ وہیں پر یہ بات بھی مد نظر رہنی چاہیے کہ ہمارا ملک پاکستان ایک نظریاتی اسلامی ریاست ہے اور اگر اقوام عالم یا دیگر مسلمان ممالک برما کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نہیں بھی کرتے تو ان کی مدد کرنا اہل پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے بعض سیکولر عناصر بنگلہ دیش کا حوالہ دیتے ہیں کہ وہ ہمسایہ ملک ہونے کے باوجود اہل برماکی مدد نہیں کر رہا چنانچہ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بھی اس سلسلے میں زیادہ حساس ہونے کی ضرورت نہیں۔ ان کا استدلال بالکل باطل ہے۔ حسینہ واجد ایک غیر نظریاتی اور اسلام دشمن عورت ہے۔ اس کے عمل کو اپنے بطور دلیل لینا یہ کسی بھی طور پر درست نہیں۔ اہل پاکستان کو ترکی کے سربراہ رجب طیب اردوعان سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ وہ کس طرح اس مسئلے پر اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور تمام ممکنہ تدابیر کو اختیار کرنے پر آمادہ وتیا رہیں۔ترکی کے وزیر خارجہ نے اس حوالے سے بنگلہ دیش کی حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ اگر روہنگیا کے مسلمانوں کے لیے اپنی سرحدیں کھولتے ہیں تو اس حوالے سے آنے والے تمام اخراجات کو ترکی حکومت برداشت کرنے پر تیار ہو گا۔ سعودی عرب جو اس سے قبل بھی دو لاکھ روہنگیا مسلمانوں اپنے ملک پناہ دے چکا ہے وہ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی سطح پر اُٹھانا چاہتا ہے۔ عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان میں اس حوالے سے بیداری کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی ہے اور ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں پروگرامز کا انعقادا ور احتجاج کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
اس حوالے سے میری تنظیم بھی جمعہ کے روز مرکز قرآن وسنہ لارنس روڈ پر ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کر رہی ہے جس میں اس مسئلے کے تاریخی پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی جائے گی اور ان کی معاونت کے حوالے سے قابل عمل تجاویز کو بھی پیش کیا جائے گا۔ پاکستان ہمارا ملک ہے ۔ اس کے نظم وضبط کو برقرار رکھنا اور اس کو انارکی سے بچانا ملک کے سمجھ دار رہنماؤں کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاست پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کی اس معنی خیز خاموشی کو بھانپتے ہوئے اہل برما کی مدد کے لیے تمام ممکنہ تدابیر کو اختیار کرے۔ اگر حکومت وافواج پاکستان ترکی کے ساتھ مل کر برما کی حکومت کو ٹھوس پیغام دیں تو یقینی طور پر برما مسلمانوں کے دباؤ میں آ سکتا ہے۔ بعض ذہین دانشوروں نے اس موقع پر اُمت مسلمہ کو برما کے اقتصادی بائیکاٹ کی بھی تجویز دی ہے۔ دور حاضر میںاقتصادیات کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ چنانچہ اگر برما کا اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے تو یقینا روہنگیا مسلمانوں کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔اس ضمن میںبعض حلقوں کی طرف سے آنے والی نہایت خوبصورت تجویز یہ ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کی مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے ان کی تعداد فقط دس لاکھ کے قریب رہ چکی ہے۔ اگر تمام مسلمان ممالک اس افرادی قوت کو اپنے اندر جذب کرنا چاہیں تو 57اسلامی ملکوں کے لیے ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ مسلمان ممالک کو ان مظلوم بے کس اور بے بس مہاجروں کے لیے اپنی مملکتوں کے دروازے کھول دینے چاہئیں تاکہ روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کو روکا جا سکے۔ اگر ان قابل عمل تجاویز پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے بعد عمل کر لیا جائے تو یقینا روہنگیا مسلمانوں کے استیصال کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔