"AIZ" (space) message & send to 7575

تکلیف دہ واقعات

پاکستان ہمارا دیس ہے اور اس کی بقاء اور استحکام کی خواہش ہر محب وطن پاکستانی کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ پاکستان میں قانون کی بالا دستی ہونی چاہیے اور ماورائے عدالت قتل و غارت گری، دہشت گردی اور لاقانونیت کا خاتمہ ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں وقفے وقفے سے ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں‘ جن کی وجہ سے ہر محب وطن کا دل، دماغ اور اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ 
گزشتہ روز دوپہر کے ایک بجے کے قریب ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے ہر محب وطن پاکستانی کے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بلوچستان کے ممتاز عالمِ دین اور اہلِ حدیث مکتبہ فکر کے نمایاں رہنما مولانا علی محمد ابو تراب کو ان کے بیٹے اور محافظ سمیت تھانہ کوئٹہ ائیرپورٹ کی حدود سے اغواء کر لیا گیا۔ مولانا علی محمد ابو تراب مشفق ، غیر متعصب ، ملنسار اور محب وطن شخصیت ہیں اور آپ کے حلقہء احباب میں ہر مکتبِ فکر کے لوگ شامل ہیں۔ مولانا علی محمد ابو تراب بلند پایہ علمی شخصیت بھی ہیں اور ان کی علمی خدمات کی وجہ سے ان کو ماضی قریب میں اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بھی بنایا گیا۔ مولانا کو صرف پاکستان کے علمی اور سیاسی حلقوں میں ہی احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی آپ کی شخصیت کااعتراف کیا جاتا ہے۔ بالخصوص سعودی عرب کے علمی اور سیاسی حلقے مولانا صاحب کو بہت زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مولانا کی بازیابی کے لیے کوششیں کی جاری ہیں‘ لیکن تادمِ تحریر اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ مولانا کے اغواء کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ماضی کے کئی ایسے واقعات آنے شروع ہو گئے جو ہر محب وطن اور دین پسند شخص کے لیے تشویش کا باعث رہے ہیں۔ مجھے آج سے تیس برس قبل والدِ گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کی شہادت کا واقعہ یاد آنا شروع ہو گیا۔ وہ گھر سے بھلے چنگے مینار پاکستان کے عقب میں واقع راوی روڈ پر سیرت النبیﷺ کانفرنس سے خطاب کرنے کے لیے گئے تھے۔ حسبِ معمول ہم سب گھر والوں کا خیال تھا کہ وہ خطاب کے بعد خوش و خرم گھر تشریف لائیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمیں ساڑھے گیارہ بجے کے قریب یہ اطلاع موصول ہوئی کہ سیرت النبیﷺ کے جلسے میں بم دھماکہ ہو گیا ہے۔ میرے والد تنہا زخمی نہیں ہوئے تھے‘ بلکہ ان کے ہمراہ ان کے دس ساتھی بھی زخموں سے چور تھے۔ میرے والد کے یہ تمام رفقاء وقفے وقفے سے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سیرت النبیﷺ کے جلسے میں شریک‘ سو کے قریب سامعین بھی زخمی ہو گئے۔ ابتدائی طور پر ہم علامہ صاحب کے بارے میں پُرامید تھے کہ آپ صحت یاب ہو جائیں گے‘ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ کے زخموں اور خرابیء صحت کو دیکھ کر اس وقت کے عراق کے صدر صدام حسین اور سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فہد نے اپنے اپنے ممالک میں علاج کی پیشکش کی۔ والدِ گرامی نے سعودی عرب سے آنے والی پیشکش کو قبول کر لیا‘ اور آپ کو ریاض کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے منتقل کر دیا گیا‘ جہاں پر میرے والد صاحب زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ وہاں سے آپ کو تدفین کے لیے مدینہ طیبہ کے تاریخی قبرستان المعروف جنت البقیع میں منتقل کر دیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد قاتلوں کی گرفتاری کے لیے ملک کے طول و عرض میں ایک منظم تحریک چلائی گئی‘ لیکن بوجوہ آپ کے قاتل گرفتار نہ ہو سکے۔
والد گرامی کی شہادت کے بعد بھی ملک کی بہت سی نمایاں شخصیات تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنیں۔ حکیم سعید بہت بڑے ماہرِ تعلیم اور معالج تھے۔ طب اور علم کے میدان میں ان کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ ان کو بھی نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا اور ان کے قاتل بھی لمبا عرصے گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں ہو سکے۔ مرحوم اصلاح الدین میدان صحافت کا ایک نمایاں نام تھے اور کراچی سے ایک اخبار اور موثر ہفت روزہ شائع کرتے تھے۔ حق پرستی پر بے لچک اور بے لاگ تبصرے کرنا آپ کی وجہء پہچان تھا۔ آپ بھی دہشت گردی اور بربریت کا نشانہ بنے اور آپ کو بڑی سفاکی کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ اور آپ کے قاتل بھی گرفتار نہ ہو سکے۔ 
ملک کی دیگر بہت سی نمایاں سیاسی شخصیات بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کا نشانہ بن کر دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ لیاقت علی خان مرحوم سے لے کر بے نظیر بھٹو تک بہت سے سیاسی رہنما دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے‘ لیکن کسی کے بھی قاتل گرفتار نہ ہو سکے۔ یہ تمام المناک سانحے اور ان میں ملوث مجرموں کا گرفتار نہ ہونا یقینا ہماری ریاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ دہشت گردی اور قتل و غارت گری کے ان واقعات کے ساتھ گزشتہ چند برسوں کے دوران مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بہت سے ذہین لوگ یا تو اغواء کیے جا چکے ہیں‘ یا منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں۔ ان لاپتہ ہونے والے افراد میں سے بہت سے لوگوںکے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے کو ملتی ہیں۔ اس حوالے سے ماضی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور ان لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوشاں رہے‘ اس کے باوجود کئی افراد بازیاب نہ ہو سکے۔ 
مسعود جنجوعہ کی اہلیہ برس ہا برس تک اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج رہیں‘ لیکن ان کی برآمدگی نہ ہو سکی۔ مولانا ابو تراب کے اغواء میں کون لوگ ملوث ہیں یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ لیکن ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں یہ بات شامل ہے کہ وہ ہر انسان کی جان، مال، عزت، آبرو اور وجود کا تحفظ کرے۔ پاکستان کا قیام اسی بنیاد پر کیا گیا تھا کہ مملکتِ خداداد میں ہر شخص کو بلا تفریق رنگ و نسل اور بلا تفریق مذہب و فرقہ بنیادی حقوق شہریت حاصل ہوں گے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ خواب تاحال شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔ پاکستان میں جہاں دہشت گردی ، قتل و غارت، اغواء اور گم شدگی کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں‘ وہاں پاکستان کے بعض نمایاں لوگوں کے ساتھ ہونے والا ناروا سلوک بھی باعثِ تشویش ہے۔ ماضی میں جس انداز میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہزیمت اُٹھانا پڑی اور جس انداز میں ان کو بدنام کرنے کی کوششیں کی گئی‘ اس پر ہر محب وطن شہری نے انتہائی دکھ اور کرب کو محسوس کیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے معمار کے ساتھ ساتھ خدمتِ انسانیت اور کشمیر کاز کے حوالے سے غیر معمولی شہرت حاصل کرنی والی محب وطن شخصیت حافظ محمد سعید کی نظر بندی بھی باعثِ تشویش ہے۔ ماضی میں حافظ محمد سعید کو عدالتیں تمام الزامات سے بری کر چکی ہیں مگر صرف بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے حافظ محمد سعید کی نظر بندی کو طول دیا جا رہا ہے۔
حکومت کو اس سے حوالے سے اپنے رویوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس قسم کے رویوں سے محب وطن افراد کی دل آزاری اور ملک و ملت کی خدمت کرنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ ریاست کو دہشت گردی اور قتل و غارت گری کی وارداتوں میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنا چاہیے اور پراسرار طور پر غائب ہو جانے والے لوگوں کی بازیابی کے لئے اپنے اختیارات اور اثرورسوخ کو استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح ملک کی خدمت کرنے والی ملک کی مؤثر شخصیات کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کا سلسلہ بھی بند کرنا چاہیے۔ جب تک ملک میں دہشت گردی، قتل وغارت گری اور گمشدگی اور نمایاں شخضیات کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعات ہوتے رہیں گے اس وقت تک ملک و ملت کے بہی خواہ تشویش میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اربابِ اختیار کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے تاکہ ملک کو امن و امان کا گہوارہ بنایا جا سکے۔ آمین! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں