اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ سیاسی حوالے سے بھی اسلام نے اپنے ماننے والوںکی بہترین انداز میں رہنمائی کی ہے۔ سیاست سمیت زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کے لیے دستور اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ ہے۔ ہمیں بحیثیت مسلمان کتاب وسنت سے ملنے والی تعلیمات کو بلاچون و چرا من وعن قبول کرنا چاہیے۔ مغربی جمہوری نظام میںقانون سازی کا کلی اختیار انسانوں کے پاس ہے اور وہ اپنی دانست میں جس چیز کوانسانوں کے لیے بہتر سمجھتے ہیں اس کو اپنی پارلیمان میں بحث کے بعد کثرت رائے سے قانون کی شکل دے دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کے ہاں بہت سے غیر اخلاقی اور نقصان دہ امور بھی قانون کا حصہ بن گئے ۔چنانچہ ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ مغربی ممالک میں بنائے جانے قوانین کی بڑی تعداد ان کی اپنی مذہبی کتاب بائبل کی تعلیمات کے بھی بالکل برعکس ہیں۔
اس کے مدمقابل اسلامی ممالک میں جمہوریت کا تصور یکسر جدا ہے۔ اسلامی ممالک میں قانون سازی فقط تدبیری اور انتظامی امور میں ہوتی ہے اور اسلامی تعلیمات کے برعکس قانون سازی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس تصور جمہوریت کو کئی مرتبہ مغربی جمہوریت کے ساتھ گڈمڈ کرنے کی وجہ سے لوگ اسلامی ممالک میں موجود پارلیمانی نظام پر بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ تنقید درحقیقت مغرب میں مروج جمہوریت کی اصطلاح کی وجہ سے ہے جہاں پر ارکان پارلیمان کو قانون سازی کے لا محدود اختیار حاصل ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب قانون سازی کو مشروط اور محدود کر دیا جائے اور قوانین صرف تدبیری اور انتظامی نوعیت کے ہوں تو ایسی صورت میں پارلیمان یا شوریٰ کے اراکین کو بحث وتمحیص کے بعد مفید قانون بنانے کا حق حاصل ہے۔ جہاں تک تعلق ہے اس امر کا کہ اسلامی شوریٰ یا پارلیمان کے رکن اور اس سے بڑھ کر سربراہ حکومت یا مملکت کے کیا خصائص ہونے چاہئیں تو یہ بات طے شدہ ہے کہ اسلامی شوریٰ یا پارلیمان کا ممبر ایک بہترین کردار کا حامل شخص ہی ہو سکتا ہے جو صداقت اور امانت کے جملہ تقاضوں کو پورا کرتا ہو اور علم وحکمت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ ہو۔ اسلام حکمران کے اوصاف کے حوالے سے کیا کہتا ہے ؟ اس سوال کا جواب قرآن مجید نے نہایت احسن انداز میں دیا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر245 سے 247 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کے ایک نبی کا ذکر کیا کہ جن کے پاس ان کی قوم کے لوگ ایک بادشاہ کے طلب گار بن کر آئے کہ جس کے ہمراہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ ان کے پیغمبر نے کہا کہ ممکن ہے جہاد فرض ہو جانے کے بعد تم جہاد نہ کرو۔ انہوں نے کہا کہ بھلا ہم اللہ کے راستے میں جہاد کیوں نہ کریں گے ہم تو اپنے گھروں سے نکالے گئے اور بچوں سے دور کر دئیے گئے ہیں۔ پھر جب ان پر جہاد فرض ہوا تو سوائے تھوڑے سے لوگوں کے سب پھر گئے۔ بنی اسرائیل کے نبی نے کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا دیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس انتخاب کے حوالے سے بہت حیران ہوئے اور یہ بات کہنے لگے کہ بھلااس کی ہم پر حکومت کیسے ہو سکتی ہے اس سے بہت زیادہ بادشاہت کے حقدار تو ہم ہیں۔ اور کہنے لگے کہ طالوت کو تو مالی کشادگی بھی نہیں دی گئی ۔تو ان کے نبی نے ان کو کہا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو تم پر برگزیدہ کر دیا ہے اور اس کو علم اور طاقت میں برتری بھی عطا فرمائی ہے۔ حضرت طالوت کے انتخاب کے حوالے سے قرآن مجید کا یہ واقعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حکمران کو صاحب علم اور صاحب طاقت ہونا چاہیے خواہ اس کے پاس مال کی فراوانی نہ ہو۔
خلفاء راشدین ؓ بھی تاریخ کے مثالی حکمران ثابت ہوئے ۔ان کے پاس بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے علم اور طاقت کی دولت موجود تھی۔ علم کے ذریعے وہ معاملات کو صحیح طور پر سمجھتے اور طاقت کے ذریعے معاملات کا حل کرتے اور قانون کو احسن طریقے سے نافذ کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ص کی آیت نمبر 26میں حضرت داؤد علیہ السلام کو مخاطب ہو کر کہاکہ ''اے داؤد !ہم نے آپ کو زمین پر خلیفہ بنایا پس آپ لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کریں اوراپنی خواہش کی پیروی نہ کریں۔‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حاکم وقت کو خواہش کی پیروی کرنے کی بجائے حق پرست ہونا چاہیے۔ جن حکمرانوں میں علم اور طاقت کے ساتھ حق پرستی کا جوہر موجود ہو وہ مثالی حکمران ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے مدمقابل جو علمی اعتبار سے کمزور ہوں ، قوتِ نافذہ سے محروم ہوں اوراپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے ہوں ایسے حکمران اپنی رعایا کی فلاح وبہبود کی بجائے ان کے لیے نقصان کا سبب بن جاتے ہیں۔
جب ہم اپنے آئین کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو آئین کی شق 62اور 63 میں جن اوصاف کا تعین کر دیا گیا ہے وہ اوصاف ایک مثالی ممبر پارلیمان کے لیے کفایت کرتے ہیں۔ دور حاضر میں پاکستان کا حکمرانوں کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ان پر مختلف طرح کی مالی اور اخلاقی کرپشن اور نا انصافی کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔ کرپشن اور ناانصافی سے پاک حکومتیں تبھی حاصل ہو سکتی ہیں جب ہم ایسے لوگوں کو اپنا قائد اور رہنما بنائیں جو علم اور طاقت کی دولت سے بہرہ ور ہوں اور جو لوگ فقط سرمائے اور سرمایہ کاری کے بل بوتے پر برسر اقتدار آتے ہوں اور ہم انہیں اپنا رہنما اور حاکم تسلیم کرنے پر آمادہ وتیار رہتے ہوں تو ہم کبھی بھی بدعنوانی اور نا انصافی کے چنگل سے آزادی حاصل نہیں کر سکتے۔
جہاں تک تعلق ہے ووٹر کی اہلیت کا تو انتخابی اصطلاحات کے ذریعے ان کو بھی بہتر بنایا جا سکتا ہے اور بتدریج ان کو ایک مثالی سطح پر پہنچایا جاسکتا ہے۔ قرآن مجید کے مطالعے سے اس بات کو چانچنا بھی کچھ مشکل نہیں کہ مثالی حکمران کس انداز میں حکومت کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 41میں اس امر کا اعلان فرمایا ''یہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین پر انہیں تمکن دیںتو یہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں‘ زکوٰۃ کو ادا کرتے ہیں‘ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔ ‘‘ قیام پاکستان کے وقت تاریخ پاکستان کے قائدین نے ایک اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کا وعدہ کیا تھا گو آئینی اور قانونی اعتبار سے تو پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے۔ لیکن حقیقی معنوں میں اس کو ایک اسلامی فلاح ریاست بنانے کے لیے مزید جدوجہد کی ضرورت ہے۔
اسلامی طرز حکومت میں عورت کی سربراہی ، قیادت یا براہ راست امیدواری کے حوالے سے بھی مختلف آراء سننے کو ملتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں عورت کی سربراہی، قیادت یا امیدواری کا کوئی تصور موجود نہیں۔جس کی دلیل بخاری شریف کی یہ حدیث ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :''کہ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پا سکتی جس نے اپنے معاملات عورت کے سپرد کر دیے۔‘‘ بہت سے علماء اور دانشور اس موقع پر یہ بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اگر عورت سربراہ مملکت، سربراہ حکومت ، سیاسی قائد یا کسی مخصوص علاقے کی لیڈر نہیں بن سکتی۔ تو وہ انتظامی اور تدابیری قوانین ،بالخصوص جن کا تعلق عورت کی ذات کے ساتھ ہے ،پر تجربہ کار ، سمجھدار اور صاحب نظر عورتوں کی رائے کیونکر لی جائے گی۔ تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ جدید پارلیمانی نظام میں عورتوں کے لیے نشستوں کو مخصوص کیا گیا ہے۔ ان مخصوص نشستوں پر جو عورتیں چنی جاتی ہیں وہ نہ تو کسی حلقے کی قائد ہوتی ہیں اور نہ ہی مملکت یا حکومت کی سربراہ۔ وہ صرف اور صرف پارلیمان کی ایک رکن ہوتی ہیں اور کسی بھی حلقے کے عوام کی براہ راست سربراہی ان کے ہاتھ میں نہیں ہوتی اور نہ ہی عوام کے ساتھ اختلاط ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر خواتین کی رائے لینا ناگزیر ہو تو یہ کام مخصوص نشستوں کے لیے چنی جانے والی خواتین کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ حدیث مبارکہ کی وضاحت کی وجہ سے عورت کی قیادت اور براہ راست امید واری کی بہر کیف اسلام کے اندر کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ جب کبھی ملک میں ضمنی یا عام انتخابات کا مرحلہ آتا ہے تو اس قسم کے فکر ی سوالات بالعموم اُٹھائے جاتے ہیں ۔ چنانچہ قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے میں نے ان سوالات کے جوابات کو اپنے علم وفہم کے مطابق قارئین کے سامنے رکھا ہے۔دیگر اہل علم اور اہل دانش ان امور پر دلائل کی روشنی میں اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں اور دلائل کا موازنہ کرنے کے بعد فیصلہ قارئین خود کر سکتے ہیں۔