"AIZ" (space) message & send to 7575

محرم الحرام

اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو تخلیق فرمایا اور جہاں انواع واقسام کی مخلوق، نباتات اور جمادات پیدا فرمائے۔ وہاں کائنات کی تنظیم کے لیے بھی کئی قسم کے معاملات اور نظام مرتب فرمائے۔ وقت کی پیمائش کے لیے زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے ہی بارہ مہینوںکو مقرر فرمایا جن میں سے چار مہینوںکو حرمت والا قرار دیا۔ان مہینوں میں سے مہینہ محرم الحرام ہے۔ محرم الحرام میں روزے رکھنے کا ثواب رمضان المبارک کے بعد باقی تمام مہینوں سے زیادہ ہے اوراس مہینے کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انسان کے گزشتہ ایک برس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
محرم الحرام میں تین اہم واقعات رونما ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ پہلا واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات کا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کے جلیل القدر نبی ہیں ۔قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء سے زیادہ ذکر ہے۔ آپؑ نے اپنے وقت کے بااثر لوگوں کے سامنے دعوت ِ توحید کو پوری شدومدسے پیش کیا۔ آپ نہ تو فرعون کے اقتدار سے مرعوب ہوئے ‘ نہ آپ نے ہامان کے منصب کی پروا کی اور نہ ہی قارون کا سرمایہ اور شداد کی جاگیر آپ کے راستے میں رکاوٹ بن سکے۔ فرعون جو اپنے آپ کو زمین پر بڑا رب کہنے والا تھا ‘موسیٰ علیہ السلام نے اس کی رعونت کے پردے کو چاک کردیا اور بہت سے مواقع پر اس کی بے بسی اور بے کسی کو بے نقاب کر دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی طرف سے یدبیضاء اور معجزاتی عصاء عطا فرمایا تھاجو کہ زمین پر پھینکنے کی صورت میں ایک بہت بڑے اژدھے کی شکل اختیار کر لیتا تھا۔ ان واضح معجزات اور نشانیوںکو دیکھ کر بھی فرعون موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو ردکرتا رہا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے معجزات کو 
جادوگری قرار دیتا رہا۔ اس نے سلطنت میں موجود بڑے جادوگروں کو منادی کرکے ایک مقام پر جمع کیا تاکہ موسیٰ علیہ السلام کو شکست دے کر اپنا غلبہ ثابت کردے۔ لیکن معاملہ اس کی توقع سے بالکل برعکس ہوا ۔جادوگر جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے پر آئے توانہوں اپنی جادوئی رسیوں کو زمین پر پھینکا تو وہ دیکھنے والوں کے لیے سانپ بن گئیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے جوابی طور پر جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم سے اپنے عصاء کو پھینکا تو اس نے ساری رسیوں کو نگل لیا۔ جادوگراس حقیقت کو بھانپ گئے کہ موسیٰ علیہ السلام جادو گر نہیں بلکہ پروردگار عالم کے رسول ہیں۔ وہ سب اسی وقت سجدہ ریز ہو گئے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لے آئے۔ فرعون اس ہزیمت سے دوچار ہونے کے باوجود بھی ایمان اور اسلام کے راستے کو اختیار کرنے پرآمادہ وتیار نہ ہوا اور حق وباطل کے اس عظیم معرکے کوموسیٰ علیہ السلام اورجادوگروں کی ملی بھگت قرار دینے لگا۔ فرعون کو دعوت توحید کو ٹھکرانے کی وجہ سے پے در پے عذابوں کا سامنا کرنا پڑا۔اس پر اور اس کی قوم پر کبھی ٹڈیوں‘ کبھی جوؤں‘ کبھی مینڈکوں‘ کبھی خون اورکبھی طوفا ن کا عذاب آیا۔ لیکن فرعون ہر عذاب کو دیکھ کر وقتی طور پر اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کا ارادہ ظاہر کرتا۔لیکن عذاب کے ٹل جانے کے بعد دوبارہ بغاوت پر تیار ہو جاتا۔ یہاں تک کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی گرفت کا فیصلہ فرما لیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو ایک رات اپنے ساتھیوںکے ہمراہ نقل مکانی کا حکم دیاگیا۔ موسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوںکے ہمراہ اپنے علاقے کو خیرباد فرما رہے تھے تو فرعون کو اس بات کی خبر ہو گئی چنانچہ اس نے اپنی فوج کے ہمراہ موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا تعاقب کیا ۔ موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے ہمراہ سمندر کے کنارے پرپہنچے تو وقتی طور پر ان کے ساتھی خوفزدہ ہوگئے ۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کے حکم پر اپنے عصاء کو سمندر پر مارا تو سمندر پھٹ گیا اورا للہ تبارک وتعالیٰ نے اس میں موسیٰ علیہ السلام کے لیے راستے کو پیدا فرمادیا۔ موسیٰ علیہ السلام کا تعاقب کرنے والے فرعونی بھی اسی راستے پر موسیٰ علیہ السلام کا پیچھا کر رہے تھے ۔ موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ سمندرسے باہر نکلے تو فرعون اپنے لشکریوں سمیت سمندر کی لہروں کی نظر ہوگیا۔ یہ واقعہ 10 محرم الحرام کو پیش آیا۔ یہودی اس دن موسیٰ علیہ السلام کو ملنے والی نجات کے حوالے سے روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ وابستگی کو مسلمانوں کاحق قرار دیتے ہوئے انہیں بھی یوم عاشور کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔ آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں دسویں کا روزہ رکھتے رہے اور آپﷺ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری برس میں ارشاد فرمایا۔ آئندہ برس میں 9 محرم کا روزہ رکھوں گا۔ لیکن 
آپﷺ اگلے برس سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اس وجہ سے علماء کی اس حوالے سے دو آراء ہیں ۔ بعض علماء دسویں کے ساتھ نویں کے روزے کو ملانے کے قائل ہیں جب کہ بعض کے نزدیک عاشور کا روزہ فقط نویں کا روزہ رکھ لینے ہی سے مکمل ہو جاتا ہے۔ 
محرم الحرام کا مہینہ سیّدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد کو بھی تازہ کرتا ہے۔ حضرت فاروق اعظم ؓ نبی کریم ﷺکی دعاؤں کا ثمر ہیںاور جب اسلام مغلوب اور ناتواں تھا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام سے مسلمانوں کونیا حوصلہ اور نئی توانائی حاصل ہوئی۔ مسلمان چھپ کر نمازیں پڑھنے کی بجائے حرم کعبہ میں نماز کی ادائیگی کے قابل ہوئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ زندگی کے ہر نشیب وفراز میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہے ۔ آپؓ نے اسلام کے دفاع کے لیے لڑی جانے والی جنگوں میں بھی بھرپور کردار ادا کیا۔آپؓ کا شمار ان دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہما میں ہوتا ہے جن کو نبی کریم ﷺ کی طرف سے جنت کی بشارت دی گئی۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد آپؓ سیّدنا ابو بکر ؓ کے مشیر خاص کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے انتقال کے بعد آپؓ مسلمانوں کے خلیفہ بنے۔ آپؓ کی خلافت تاریخ اسلام کی اس اعتبار سے ایک عظیم خلافت ثابت ہوئی کہ نہ صرف یہ کہ آپؓ نے اسلامی سلطنت کو وسعت عطا فرمائی بلکہ اپنی دور خلافت میں غریب، مجبور اور مفلوک الحال افراد کی بحالی کے لیے بے مثال نظام کو وضع فرمایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ کا وضع کردہ نظام اس قدر مقبول ہوا کہ مغربی اقوام نے بھی اس سے بھرپور استفادہ کیا۔ حضرت عمر فاروق ؓ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ، مظلوموں کی نصرت اور انسانیت کی خدمت کا فریضہ انجام دینے کے حوالے سے دنیا کی ممتاز ترین شخصیات میں شمار ہوئے۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلامی سلطنت کے دفاع اور وسعت کے لیے بھی غیر معمولی خدمات سر انجام دیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجاہدانہ کردار کے حامل انسان تھے اور خلافت کی ذمہ داریوں کو نبھانے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ شہادت کے طلب گار اور اس کے لیے دعا گو رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ؓ کی دعا کو قبول ومنظور فرمالیا اور مدینہ طیبہ میں ہی آپؓ 27 ذی الحجہ کو نماز فجر کی امامت کے دوران ایک آتش پرست کے قاتلانہ حملے کا نشانہ بنے اور یکم محرم الحرام کو اس دنیا فانی سے کوچ فرما گئے۔ آپ ؓ کو اللہ تبار ک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے جوار ہی میں قیامت تک ـمحو خواب فرما کر آپ کی شان کو دو چند فرما دیا۔ محرم الحرام کا مہینہ حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ ساتھ سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد دلاتا ہے۔ سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم ﷺ کے چہیتے نواسے اور نواجوانانِ جنت کے سردار ہیں۔نبی کریمﷺ آپ سے بے پناہ محبت فرمایاکرتے تھے۔ آپؓ کئی مرتبہ دوش ِرسولﷺ پر سوار ہو جاتے اور حالت نماز میں بھی کئی مرتبہ آپﷺ کی کمر مبارک پر چڑھ جا یا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ آپؓ کی دل جوئی کے لیے کئی مرتبہ اپنے سجدے کو لمبا فرما دیا کرتے تھے۔ آپؓ ساری کی ساری زندگی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے منظور نظر رہے۔ کثرت عبادت، زہد، تقویٰ ، للہیت کے اعتبار سے آپ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک بلند مقام عطا فرمایا۔ آپؓ نے بھی اسی مہینے کی دس تاریخ کو کربلا کے مقام پر اپنے خانوادے کے بہت سے افراد کے ہمراہ جام شہادت نوش فرمایا اور آپؓ کی شہادت اس انداز میں مقبول ہوئی کہ آج دنیا ئے اسلام کے ہر پیروجواں کے دل میں آپؓ کی ـمحبت وعقیدت رچی اور بسی ہوئی ہے۔
محرم الحرام جہاں حرمت اور عظمت والا مہینہ ہے، وہیں اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی استقامت ، حضر ت عمر فاروق ؓ کی جرأت اور حضرت حسین ؓ کی عظمت کی داستان بھی جڑی ہوئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضر ت عمر فاروق اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے نام لیواؤںکو اس مہینے میں اپنے اپنے رہنماؤں کے کردار کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم انہی روایات کے امین اور پاسبان ہیں جن پر چلتے ہوئے یہ ہستیاں اس دنیافانی سے رخصت ہوئیں؟ اگر تو ہمارا کردار ان کے کردار سے مطابقت رکھتاہے تو ان کی داستانوں کو بیان کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے،لیکن اگر ہمارا کرداران کے کردار سے مطابقت نہیں رکھتا تو صرف ان کے واقعات بیان کرکے ہم ان سے اپنی نسبت کااظہار نہیں کر سکتے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں