نبی کریم ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ : ''جو لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرتا۔‘‘ چنانچہ اس حدیث مبارک کے مطابق ہمیں چاہیے کہ جب کوئی ہم سے حسنِ سلوک کرے تو ہم اس کی خدمات کا اعتراف کریں ‘ اس کا شکریہ ادا کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ اس لیے حسن سلوک کا حکم دیا کہ ان کے احسانات ہم پر بہت زیادہ ہیں۔ وہ ہماری تعلیم، تربیت اوربودوباش کے حوالے سے نمایاں کردار ادا کرتے ہیں چنانچہ ہمیں ان کے ساتھ شکر گزاری والا معاملہ کرنا چاہیے۔جب ہم قومی اور بین الاقوامی سطح پر دیکھتے ہیں تو بعض شخصیات، ادارے اور ممالک اپنی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین کے حقدار نظر آتے ہیں ۔ہمیں ان کی خدمات کا اعتراف کرنے میں بخل نہیں کرنا چاہیے ‘ ان کے ساتھ شکر گزاری اور احسان مندی والا معاملہ ضرور اپنانا چاہیے۔
ملی یکجہتی کونسل ملک کا ایک نمایاں مذہبی پلیٹ فارم ہے ‘ جس نے اتحادِ اُمت کے فروغ اور ملک میں قیام امن کے لیے نمایاں کردار ادا کیاہے۔ اس پلیٹ فارم میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء شامل ہیں۔ امت میں موجود فرقہ وارانہ اختلافات کو کم کرنے اور معاشرے میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لیے اس پلیٹ فارم نے جو متفقہ تجاویز دیں وہ ہر اعتبار سے قابل تحسین ہیں۔ تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے اس پلیٹ فارم پر مقدسات اُمت کے احترام کو یقینی بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ اُمہات المومنین، اہل بیت عظام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ‘ نبی کریمﷺ سے قرابت داری اور ان کی رفاقت کی وجہ سے انتہائی بلند مقام پر فائز ہیں۔ چنانچہ ان کے احترام سب پر لازم ہے ۔ تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ مقدسات اُمت کے احترام میں کسی قسم کی کمی کو قبول نہیں کیا جائے گااور ملی یکجہتی کونسل کے اکابرین نے صحابہ کرام ، امہات المومنین اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی شان میں گستاخی کو حرام اور ان کی تکفیر کو کفر قرار دیا۔ اس متفقہ دستاویز کی موجودگی میں مختلف مکاتیب فکر کے درمیان منافرت پھیلانے کی تمنا رکھنے والے لوگ اپنے عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ان متفقہ تجاویز اور مثبت لائحہ عمل کی وجہ سے ملی یکجہتی کونسل کا ادارہ قابل تحسین ہے کہ اپنی مدد آپ کے تحت علماء نے وہ کردار ادا کیا جو درحقیقت حکومتوں کو کرنا چاہیے تھا۔
برماکے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر اُمت مسلمہ کی بے حسی اور غفلت ہر اعتبار سے قابل مذمت اور قابل افسوس ہے لیکن ترکی کے صدر طیب رجب اردوان نے اس حوالے سے اپنی بساط کے مطابق جو کردار ادا کیا اس کی تحسین کرنا اتنہائی ضروری ہے۔ طیب رجب اردوان نے اپنی حد تک برماکی حکومت پر دباؤ ڈالا اور بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں کا دورہ کرنے کے بعد مظلوم برمی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ اگر امت مسلمہ کے تمام حکمران اس موقع پر طیب رجب اردوان والا ہی کردار ادا کرتے تو برمی مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا تھا اور مستقبل میں ان کے ساتھ ہونے والے نارواسلوک اور ظلم کا سدباب بھی ہو سکتا تھا۔ طیب رجب اردوان نے اپنے ملک میں اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے بھی اپنی حد تک بہت کوششیں کی ہیں۔ وہ معروف معنوں میں عالم دین اور مذہبی رہنما تو نہیں ہیں لیکن پھر بھی اسلام کے ساتھ دلچسپی رکھتے ہیں اور اگر ان کے علم میں کوئی ایسی بات آجائے جو اسلامی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہو تو اس کے فروغ کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ایک وقت تھا جب ترکی میں حجاب پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور دین پسند طبقات پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا تھا لیکن ترکی اب بتدریج ایک اسلام پسند ملک کی حیثیت سے اُبھر رہا ہے اوراس کے موجودہ حکمرانوں کا کردار دیگر مسلمان حکمرانوں کے لیے کئی حوالوں سے نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔
سعودی عرب پاکستان کا دیرینہ دوست ہے اور اس نے بہت سے حادثات اور قدرتی آفات کے دوران اپنی بساط کے مطابق پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ۔ پاکستان میں جب آزاد کشمیر ، بالا کوٹ اور گلیات اور شمالی علاقہ جات میں ایک بڑا زلزلہ آیا تو اس وقت اس علاقے کی بحالی کے لیے سعودی عرب نے نمایاں کردار ادا کیا۔ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی روزگار کی غرض سے سعودی عرب میں آباد ہیں اور وسیع پیمانے پر زرمبادلہ اپنے ملک بھیجتے ہیں۔ سعودی عرب ہمارے لیے مذہبی عقیدتوں کا مرکز بھی ہے ۔ ہر سال بڑی تعداد میں برصغیر سے مسلمان حج اور عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لیے وہاں جاتے ہیں۔ ان کی ضیافت اور میزبانی کے لیے سعودی عرب کی حکومت بہترین کردار ادا کرتی ہے۔ عالم اسلام کے مسائل سے سعودی عرب کو خصوصی دلچسپی ہے اور فلسطین اور کشمیر کے تنازعات پر سعودی عرب کا موقف بالکل واضح ہے۔ جب پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت بھی سعودی عرب نے پاکستان کا کھل کرساتھ دیا۔ سعودی عرب کے حوالے سے ہمارے ملک میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں بعض لوگ سعودی عرب پر طعن کرتے ہیں اور ان کی حکومت کے عیوب کو بڑھاچڑھا کر بیان کرتے ہیں لیکن اس کی وہ نیکیاں جو اس نے ایک برادر اسلامی ملک ہونے کے ناطے ہمارے ساتھ کی ہیں ان کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ سعودی عرب ہر مسئلے میں پاکستان کا ہمنوا رہا ہے لیکن پاکستان کے بعض طبقات ہمہ وقت سعودی عرب کی مخالفت میں مصروف رہتے ہیں۔ اپنے ملک میں لشکر کشی یا فوجی کارروائیوں کی مذمت کرنے والے لوگ بھی سعودی عرب کے خلاف ہونے والی بغاوتوں کی ہمنوائی کرتے ہوئے اس کو عوام کا حق قرار دیتے ہیں۔ سعودی عرب کے قومی دن کے موقع پر بحیثیت مجموعی پاکستان کی حکومت اور قوم کو سعودی عرب کے ساتھ بردارانہ جذبات کا اظہار کرنا چاہیے اور سعودی عرب کی عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کے لیے خدمات کو سراہنا چاہیے۔ سعودی عرب کا معاملہ پاکستان حکومت کے ساتھ جو ہے سوہے اس سے کہیں بڑھ کر دین متین کی خدمت اور قرآن مجید کی نشرواشاعت میںتو سعودی عرب کا کردار کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ سعودی عرب نے وسیع پیمانے پر دنیا بھر کی زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم کی نشرواشاعت کی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم حلقہ بگوش اسلام ہوئے ہیں۔ جس پر سعودی عرب کی جتنی بھی تحسین کی جائے کم ہے۔
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور اس کے قیام کا مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کو قائم کرتے ہوئے ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا۔ اہل اسلام کی نظروں میں پیغمبر آخر الزماںﷺ کی شخصیت ایک اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس اور ناموس ہر اعتبار سے مقدم ہے۔چنانچہ آپﷺ کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے ملک میں C 295ّ کا قانون موجود ہے۔ لیکن بعض عاقبت نااندیش لوگ اس قانون پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کرتے رہتے ہیں۔ ان حملوں کے رد عمل کے طور پر فی الفور ملک بھر میں اجتماعات، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد بھی شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ مقام تاسف ہے کہ آئینی اور قانونی ضمانت کے ہونے کے باوجود کئی مرتبہ حکومتیں اس مسئلے میں موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
ماضی قریب میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی اس حوالے سے ایک نمایاں کردار ادا کر چکے ہیں کہ انہوں نے C 295ّ کے قانون پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر نبی کریمﷺ کی گستاخی کرنے والوں کے خلاف کے ایک تاریخی فیصلہ قلمبند کیا۔ اس فیصلے میں آپ نے کتاب وسنت اور تاریخ کے موثر دلائل کے ذریعے اس بات کو ثابت کیا کہ حرمت رسول ﷺ پر حملہ کرنے والے لوگ کسی بھی قسم کی رو رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے اس فیصلے کی وجہ سے پاکستان کے نظریاتی خدوخال واضح ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا یہ فیصلہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے ۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو اپنے اس کردار کی وجہ سے مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بننا پڑا ۔ لبرل فاشٹ طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض وکلاء نے بھی ان کے خلاف برے عزائم کا اظہار کیا لیکن جسٹس شوکت عزیز صدیقی اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور انہوں نے نبی کریمﷺ کی ناموس کے حوالے سے ایک موثر اور تفصیلی فیصلہ لکھ کے پاکستان کی عدالتی تاریخ کو تابناک کر دیا۔
آج کے کالم کا مقصد بعض حوالے سے ان کرداروں کی تحسین کرنا تھا کہ جن کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے آج ہم بجا طور پر اپنے مسلمان اور پاکستانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہماری امت کے اندر مفید اور کارآمد شخصیات اور عناصر میں اضافہ فرمائے تاکہ اُمت کی تابناک تاریخ کو مزید روشن کیا جا سکے۔ آمین