دعوت کا عمل اللہ تبارک وتعالیٰ کی نظروں میں انتہائی پسندیدہ ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 33میں ارشاد فرمایا '' اور کون زیادہ اچھا ہے بات کے لحاظ سے اس سے جو اللہ کی طرف بلائے‘اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ ‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دینا ایک ایسا کام ہے جو انبیاء علیہم السلام نے کیا جو کہ دنیا کی سب سے اعلیٰ ہستیاں تھیں۔ اس عظیم کام کے بعض اہم تقاضے بھی ہیں جن کو پورا کرنا ہر داعی کی ذمہ داری ہے۔ ان اہم تقاضوں میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔استقامت: داعی کو دین کی دعوت دیتے ہوئے اس راستے میں آنے والی مشکلات پر صبر کرنا ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی سیرت اس حوالے سے ہمارے لیے ایک روشن مثال ہے کہ انہوں نے ہر طرح کی تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن دین کی دعوت کے عظیم عمل سے ہٹنا گوارہ نہیں کیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ کے جلیل القدر انبیاء میں سے اولوالعزم رسول اس اعتبار سے بلند مقام کے حامل ہیں کہ انہوں نے صبر و استقامت کا ایسا طرز عمل اپنایا جو رہتی دنیا تک لوگوں کے لیے ایک مثال بن گیا۔
حضرت نوح علیہ السلام 950 برس تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تبلیغ میں مصروف رہے۔ اس دوران حضرت نوح علیہ السلام کو دیوانہ اور مجنوں کہا گیا،ذہنی اور جسمانی اذیتیں دی گئیں اور آپ پر پتھر برسائے گئے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ہر طرح کی تکلیف کوخندہ پیشانی سے برداشت کر لیا لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دینے سے ہٹنا گوارہ نہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی بھی جہد مسلسل کی ایک تصویر ہے۔ آپ نے حاکم وقت کی رعونت کو نہیں مانا، آپ نے اپنی بستی والوں کی مخالفت کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا، آپ نے نمرود کی جلتی ہوئی آگ میں کودنا گوارہ کرلیا اورآپ نے بت کدے میںعلمِ توحید کو بلند کر دیا۔ آپ نے جہاں کوئی دباؤ قبول نہ کیا وہیں پرآپ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے بہت سی محبتوں کی بھی قربانیاں دیں۔ آپ نے اپنے باپ کی محبت اور پیار کو تج دیا۔ نوزائیدہ بچے حضرت اسماعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہؓ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضاکے لیے وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا اور اپنے کم سن لاڈلے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے گلے پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر چھری چلانا گوارہ کر لیا۔ استقامت کے ان عظیم الشان روایات کو قائم کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے رہتی دنیا تک کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو انسانیت کا قائد اور لیڈر(امام) بنا دیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بھی استقامت اور جہدوجہد کی ایک لازوال داستان ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک عظیم مشن کی تکمیل کے لیے پیدا کیا۔ آپ کی بعثت کا مقصد دنیا سے شرک اور بداعتقادی کا خاتمہ کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید خالص کی دعوت دینا اور مظلوم اور بے کس انسانیت کو ظالم کے پنجے سے نجات دلوا کر انصاف اور امن کو قائم کرنا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقابلہ وقت کے انتہائی موثر اور با اختیار لوگوں سے ہوا۔ حاکم وقت فرعون آپ کا مخالف اور دشمن تھا۔ وقت کا بہت بڑا عہدے دار ہامان بھی آپ کا بہت بڑا دشمن تھا۔ آپ نے فرعون کی رعونت کو نہیں مانا، ہامان کے منصب کو نہیں دیکھا، اسی طرح شداد کی جاگیر اور قارون کا سرمایہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدموں میںکسی بھی قسم کی لڑکھڑاہٹ پیدا نہ کر سکا۔ موسیٰ علیہ السلام پیہم جدوجہد میں مصروف رہے اور آپ نے فرعون کے جھوٹے دعویٰ ربوبیت کو بے نقاب کیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اپنی زندگی میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بنی اسرائیل کے لوگ آپ کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کو نہایت احسن انداز میں آگے بڑھاتے رہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر لٹکانے کی کوشش بھی کی گئی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اعدائے دین کی شقاوتوں سے ان کو محفوظ و مامون فرما کر زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا۔ قرب قیامت میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کی جامع مسجد کے کنارے پر ہوگا۔ آپ ازسر نو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کی حاکمیت کے قیام کے لیے کوشاں ہوں گے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دشمن اور انسانیت کا قتل عام کرنے والے بہت بڑے فتنے دجال کا خاتمہ کردیں گے۔
حضرت رسول اللہﷺ کی زندگی بھی استقامت کی منہ بولتی تصویر ہے۔ حضرت رسول اللہﷺ نے اپنی زندگی میں بہت سی ابتلاؤں اور اذیتوں کو سہا لیکن آپ اپنے اصولی موقف سے نہ ہٹے۔ آپ کو شعب ابی طالب کی گھاٹی میں محصور کیا گیا، آپ کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ کے وجود اطہر پر سنگ باری کی گئی، طائف کی وادی میں حضرت رسول اللہﷺ کو اذیتوں اور تکالیف کا اس انداز میں نشانہ بننا پڑا کہ آپ کے وجودِ اطہر سے لہو رواں ہوگیا۔ حضرت رسول اللہﷺ کے پاس حضرت جبرائیل امین اور پہاڑوں کا فرشتہ آیا اور انہوں نے عرض کی کہ اگر آپ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے۔ اس عالم میں بھی حضرت رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے دے یہ مجھ کو پہچانتے نہیں ہیں۔ حضرت رسول اللہﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے اپنے وطن کو بھی خیر باد کہنا پڑا۔ دارالسلام مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران بھی آپ کو بہت سے اتار چڑھائو کا سامنا کرنا پڑا۔ کافروں اور اسلام کے دشمنوں نے مسلسل مدینہ طیبہ کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار اور منصوبہ بندی کی، اہل اسلام پر بہت سی جنگیں مسلط کیں۔ اسلام اور مدینہ کے دفاع کے لیے کی جانے والی بہت سی جنگوں میں حضرت رسول اللہﷺ خود بھی شریک ہوئے۔ آپ صرف حکمت عملی اور منصوبہ بندی میں مصروف نہ رہے بلکہ آپ نے اسلام اور اسلامی ریاست کے دفاع کے لیے خود اپنے ہاتھوں میں تلوار اُٹھالی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے نبی کی نصرت فرمائی اور چند ہی برسوں میں وہ لوگ جو آپ کے خون کے پیاسے تھے وہ حلقہ بگوش اسلام ہو گئے اور فتح مکہ کا عظیم الشان واقعہ آپ حیات مبارکہ ہی میں رونما ہو گیا۔
2۔علم: داعی کے لیے دین کا علم حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ وہ جس چیز کی تبلیغ کر رہا ہے اس کے بارے میں اسے ابہام نہ ہو۔ علم کی کمی کی وجہ سے کئی مرتبہ داعی لوگوں کے سوالات کے صحیح طور پر جواب دینے سے قاصر ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا ہو جاتے ہیں۔
3۔مشترکہ نکات: داعی کے لیے یہ بات بھی نہایت ضروری ہے کہ وہ جن لوگوں کو دین کی دعوت دے رہا ہے ان کے ساتھ مشترکات کی تلاش کرے۔ اختلافی امور پردعوت دینے سے قبل اگر مشترکات پر توجہ دی جائے تو کئی مرتبہ دعوت کا عمل بہت زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے ۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میںاہل کتاب کو دعوت دینے کے حوالے سے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 64 میں اس امر کا ذکر فرمایا'' کہہ دیں اے اہل کتاب آؤ (ایسی) بات کی طرف (جو) یکساں ہے ہمارے اور تمہارے درمیان۔ یہ کہ نہ ہم عبادت کریں اللہ کے سوااور ہم شریک نہ بنائیں اس کے ساتھ کسی کو۔ ‘‘ نکتہ مشترکہ تلاش کرنے سے قر بت کی راہیں نکل آتی ہیں اور مخاطب کو اللہ کے دین کی طرف بلانا آسان ہوجاتا ہے۔
4۔ حکمت اور موعظہ حسنہ: دین کی دعوت دیتے وقت حکمت اور اچھی نصیحت کا راستہ اختیار کرنا چاہیے کسی کو طعن وتشنیع کرنے کی بجائے جب اسے اچھے انداز میں دین کی دعوت دی جاتی ہے تو اُس کے سیدھے راستے پر آنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہم السلام کو فرعون کے پاس بھیجا تو ان کو یہ بات کہی کہ اس کو نرم انداز میں تلقین کرنا شاید کہ وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں ارشاد فرمایا''بلائیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت او ر اچھی نصیحت کے ساتھ۔ اور بحث کیجئے ان سے (اس طریقے سے) جو سب سے اچھا ہو۔ بے شک آپ کا رب خوب جاننے والا ہے اس کو جو گمراہ ہوا اس کے راستے سے اور خوب جاننے والا ہے ہدایت پانے والوں کو۔‘‘
5۔ دین پر خود بھی عمل پیرا ہونا: داعی کے لیے اس بات کی بہت زیادہ اہمیت ہے کہ وہ جس چیز کی دعوت دے رہا ہو اس پر خود بھی عمل پیرا ہو۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ صف کی آیت نمبر 2 اور 3میں ارشاد فرمایا ''اے ایمان والو! کیوں تم کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہواللہ کے نزدیک ناراضی کے لحاظ سے بہت بڑی (بات) ہے کہ تم (وہ) کہو جو تم نہیں کرتے۔‘‘اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشاد ہوا''کیا تم لوگوں کو حکم دیتے ہو نیکی کا اور تم بھول جاتے ہو اپنے آپ کو۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں یہودکے بے عمل علماء کا ذکر کیاجو تورات کا علم تو حاصل کرتے تھے لیکن اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ اللہ نے ان علماء کو ان گدھوں کی مثل قرار دیا جن پر کتابوںکو لاد دیا گیا ہو۔ اسی طرح ایک داعی کو دنیا کی بجائے دعوت کا اجر اللہ سے طلب کرنا چاہیے۔
اگر داعی ان تمام اوصاف کو اپنی ذات میں جگہ دے تو وہ دنیا اور آخرت کی بھلائیوں کو سمیٹ سکتا ہے۔ اللہ ہم سب کو قرآن وسنت کے دعوت واسلوب سے استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین