قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا۔ قرآن مجید سراپا ہدایت ہے۔ اللہ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 2میں قرآن مجید کے بارے میں ارشاد فرمایا ''ہدایت ہے اہل تقویٰ کے لیے۔ـ‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احقاف کی آیت نمبر 30میں ارشاد فرما یا ''وہ رہنمائی کرتی حق اور سیدھے راستے کی طرف۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک تعالیٰ سورہ زمرکی آیت نمبر 28میں ارشاد فرماتے ہیں ''قرآن عربی کسی کجی والا نہیں۔‘‘ قرآن مجید کے ساتھ ساتھ نبی کریمﷺ کی سیرت وکردار میں بھی ہمارے لیے رہنمائی کے بہترین اسباب موجود ہیں۔ یقینا نبی کریمﷺ کی زندگی ہم سب کے لیے بہترین مثال ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرما دیا : ''بے شک یقینا تمہارے لیے رسول اللہﷺ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی وحی اور حکم کے مطابق ارشاد اور عمل فرماتے تھے اس لیے نبی کریم ﷺ کی بات کو ماننا درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی بات کو تسلیم کرنا ہے۔ چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر80 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''جو اطاعت کرے گا رسول اللہﷺ کی درحقیقت اس نے اطاعت کی اللہ تعالیٰ کی۔‘‘ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اگر وہ نبی کریمﷺ کی اتباع کرے تو وہ خود اللہ تبارک وتعالیٰ کا محبوب بن جائے گا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''آپ کہہ دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘ اپنی اور نبی کریمﷺ کی اطاعت کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ احزاب کی آیت نمبر71 میں ارشاد فرماتے ہیں : ''اور جو اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی،تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔ ‘‘
نبی کریمﷺ کی اطاعت اور پیروی جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کے حصول کا ذریعہ اوردنیاوی اور اخروی عروج کا سبب ہے وہیں پر آپﷺ کی نافرمانی کے نتیجے میں انسان دنیا کے فتنے اور آخرت میں عذاب کا مستحق بن جاتا ہے۔ چنانچہ سورہ نور کی آیت نمبر 63 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :''پس چاہیے کہ ڈریں وہ لوگ جو مخالفت کرتے ہیں آپ ﷺکے حکم کی کہ پہنچے انہیں کوئی فتنہ یا پہنچے انہیں دردناک عذاب۔‘‘ نبی کریمﷺ کی بات کو اپنے جھگڑوں اور اختلافات میں حرف آخر نہ ماننا اور آپﷺ کی بات کو تنگ دلی سے تسلیم کرنا انسان کے ایمان کو تباہ وبرباد کر دینے کا باعث ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر65 میں ارشاد فرماتے ہیں ''پس تیرے رب کی قسم ہے ! یہ مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو منصف (نہ )مانیں لیں (اس میں) ‘جو اختلاف اٹھے ان کے درمیان ‘ پھر نہ وہ پائیں اپنی جانوں میں کچھ تنگی اور (اس) سے جو آپﷺ فیصلہ کریںوہ تسلیم (نہ) کرلیں (خوشی سے)۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت نمبر 1میں ارشاد فرمایا ''اے ایمان والو! تم آگے مت بڑھو اللہ اور رسولﷺ سے ۔ ‘‘ اور آیت نمبر 2 میں ارشاد فرمایا ''اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو نبی کریمﷺ کی آواز سے بلند مت کرو۔‘‘ اسی طرح سورہ محمد کی آیت نمبر 33 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال باطل مت کرو۔‘‘
ان تمام آیات سے اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ نبی کریمﷺ کی اتباع کے راستے سے ہٹ جانے کے نتیجے میں انسان کے تمام اعمال برباد ہوجاتے اور اس کی تمام کی تمام جدوجہد اکارت چلی جاتی ہے۔ آپﷺ کی اتباع سراپا خیر اور آپﷺ کے اسوہ سے انحراف میں نقصان ہی نقصان ہے۔ کتاب وسنت سے وابستگی کے حوالے سے حدیث مبارکہ میں یہ بات بھی مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :'' میں تم میں دو احکامات چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک تم ان سے چمٹے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے ۔اللہ کی کتاب ا ور میری سنت‘‘۔
کتاب و سنت کی پیروی کی اہمیت کو سمجھنے کے بعد اس حقیقت کا تجزیہ کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے انسان اللہ اور نبی کریمﷺ کی اطاعت سے منحرف ہو جاتا ہے۔اس انحراف کے حوالے سے قرآن مجید میں متعدد اہم امور کی نشاندہی کی گئی ہے۔جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔اپنے آبائواجداد کی اندھی پیروی: اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مقابلے میں اپنے آباؤاجداد کی بات کو بلا چون و چرا ماننا گمراہی کا ایک بڑا سبب ہے۔ مسلمانوں کا طرز عمل یہ ہونا چاہیے کہ جب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بات آجائے تو اس کے سامنے سر تسلیم خم کردیں۔ والدین کی وہ باتیں جو کتاب وسنت کے مطابق ہیں ان پر عمل پیرا رہنا چاہیے اور وہ باتیں جو کتاب وسنت سے ہم آہنگ نہ ہوں ان کو فی الفور چھوڑدینا چاہیے ۔
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 170 میں ارشاد فرماتے ہیں ''جب کہا جائے پیروی کرو جو نازل کیا اللہ نے (تو )کہتے ہیں بلکہ ہم پیروی کریں گے جس پر پایا ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو حالانکہ اگرچہ ان کی آبا ؤاجداد نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ وہ سیدھے راستے پر ہوں ۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زخرف کی آیت نمبر 33 اور 34 میں ارشاد فرمایا''اور اسی طرح ہم نے بھیجا آپ سے پہلے آپ کی بستی میں کوئی ڈارنے والا مگر اس کے خوشحال لوگوں نے کہا بے شک ہم نے پایا اپنے اباؤ اجداد کے طریقے پر ‘ا ور بے شک ہم ان کے قدموں کے نشانات کے پیچھے چلنے والے ہیں۔اس (ڈارنے)والے نے کہا اور کیا اگر میں لے آؤں تمہارے پاس زیادہ ہدایت والے طریقے کو (اس) جس پر پایا تم نے پایا اپنے اباؤ اجداد کو ۔ انہوں نے کہا بے شک تم جس کے ساتھ بھیجے گئے ہو ہم انکار کرنے والے ہیں۔‘‘
2۔ سرداروں اور بڑوـ ں کی بات ماننا: اپنے سرداروں، بڑوںـ اور اکابرین کا احترام کر نا اس وقت تک درست ہے جب تک یہ کام اتباع رسولﷺ کے راستے میں حائل نہ ہو۔ لیکن جب اللہ اور اس کے رسول کی بات سے اکابر ین ، بڑوں اور سرداروں کی بات ٹکرا جائے تو اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بات کو ترجیح دینی چاہیے۔ چنانچہ سورہ احزاب آیت نمبر 66، 67 میں اللہ تبارک وتعالیٰ اعلان فرماتے ہیں ''جس دن الٹ پلٹ گئے جائیں ان کے چہرے آگ میں ‘ تو وہ کہیں گے اے کاش ہم نے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی ۔اے ہمارے رب ہم نے اپنے سرداروں اور بڑوں کی بات کو مانا پس انہوں نے گمراہ کر دیا (سیدھے )راستے سے ۔ ‘‘
3۔ غلط صحبت: غلط صحبت بھی انسان کو کئی مرتبہ راہ حق سے منحرف کر دیتی ہے۔ صراط مستقیم پر چلنے اور اچھے اعمال بجالانے والوں کی صحبت کو اختیار کرنے سے انسان کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ چنانچہ سورہ کہف کی آیت نمبر38 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں''اور روکے رکھیں اپنے نفس کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو صبح شام پکارتے ہیں۔ ‘‘اس کے مدمقابل بری صحبت کے انجام بد کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ فرقان کی آیت نمبر 27,28 اور 29 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوںسے کاٹے گا اور کہے گا اے کاش میں رسول اللہ ﷺ کا راستہ اختیار کرتا۔ ہائے بربادی کاش میں فلاں کو نہ بناتا دلی دوست ۔بلاشبہ اس نے گمراہ کر دیا ذکر سے ‘اس کے بعد کہ جب وہ آیا میرے پاس۔‘‘
4۔ خواہش کی پیروی: انسان کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مقابلے میں اپنی خواہش کو دبا لینا چاہیے۔ خواہش کو کبھی بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے حکم پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نازعات کی آیت نمبر40 اور 41 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور وہ جو ڈر گیااپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے اور اس نے روکا اپنے نفس کو خواہش سے ‘ بے شک جنت ہی ٹھکانہ ہے(اس کا ) ۔‘‘اس کے مقابلے میں آیت نمبر 37 ،38 اور 39 میں ارشاد فرمایا ''پس جس نے سرکشی کی اور ترجیح دی دنیاوی زندگی کو تو بے شک جہنم ہی ٹھکانہ ہے اس کا ۔‘‘
5۔ وحی الٰہی کے نزول کا لمبا عرصہ گزر جانے کے سبب کافی نہ سمجھنا:وحی کے لمبا عرصہ گزر جانے کے سبب کئی لوگ اس کو ہدایت کے لیے کافی نہیں سمجھتے اور جدید راستوں کو تلاش کرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ سابقہ امتوں میں بھی موجود تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حدید کی آیت نمبر 16 میں ارشادفرماتے ہیں''اور نہ ہوجائیں (ان ) کی طرح جو (ان )سے پہلے کتاب دیئے گئے ۔ پھر گزر گئی ان پر لمبی مدت تو ان کے دل سخت ہو گئے۔‘‘
ان اسباب کے علاوہ جہالت ،لاعلمی، تعصب ،لالچ اور صاحب اثر لوگوں کے خوف کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے راستے کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو ان رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے صحیح معنوں میں کتاب وسنت کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم دنیا وآخرت کی کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں۔آمین