صد شکر کہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ نہایت امن وامان سے گزر گیا اور اس میں انتشار اور کشیدگی پر مبنی کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہوا اور ملک کے کسی بھی مقام پر بدامنی اور دہشت گردی کی کوئی اطلاعات موصول نہ ہوئیں۔ ملک میں بقائے باہمی اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مستقبل میں جہاں پر انتظامیہ اور سکیورٹی اداروںکو متحرک رکھنا انتہائی ضروری ہے ، وہیں پر ملی یکجہتی کونسل کے ضابطۂ اخلاق پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق کے مطابق اہل بیت عظامؓ، امہات المومنین ؓ ، خلفائے راشدینؓ اور صحابہ کرام ؓکی تنقیص حرام اور ان کی تکفیر کفر ہے۔
حقیقت یہ ہے صحابہ کرام اور اہل بیت عظام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک ہی سورج کی کرنیں، ایک ہی خوشبودار گلدستے کے پھول، ایک ہی پرکشش شمع کے پروانے، ایک ہی مقدس زنجیر کی کڑیاں، ایک ہی حسین مالا کے نگینے، ایک ہی صاحبِ حسن وجمال کے محب، ایک ہی شجر طیب کی شاخیں، ایک ہی بحرالعلوم کی لہریں، ایک ہی امام ِمعصوم کے مقتدی، ایک ہی کامیاب سپہ سالار کے سپاہی، ایک ہی پرعزم قائد کے کارکن، ایک ہی قابل فخر استاد کے تلامذہ، ایک ہی رسول اللہﷺ کے ساتھی، ایک ہی نبی ﷺ کے امتی، ایک ہی مدرسہ علم وحکمت کے طالب علم، ایک ہی حرم کے پاسباں اور ایک ہی دستور کے علمبردار ہیں۔
مسلمان اہل بیت عظام، امہات المومنین، خلفاء راشدین اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ، احترام ،عقیدت اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کی نسبت نبی کریمﷺ سے ہے۔ یہ سلسلہ ان شاء اللہ زندگی کے آخری لمحات تک جاری رہے گا۔
اس وقت ملک بھر میں انتخابی اصلاحات کے حوالے سے بھی مختلف حلقوں میں گرما گرم بحث جاری ہے ۔مسلم لیگ (نون)نے انتخابی اصلاحات قانون میں نااہل شخص کو پارٹی صدر بنانے کی ترمیم کے ساتھ ساتھ عوامی جذبات سے وابستہ انتہائی حساس مسئلے پر ترمیم خاموشی سے کر دی۔ جس کے تحت شنید ہے کہ عقیدہ ختم نبوتﷺ پر حلف کو اس قانون سے نکال دیا گیا ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق نئی ترمیم کے تحت ختم نبوت کے منکر بھی مسلمان امیدوار بن کر انتخابات میں حصہ لے سکیں گے۔ اس امر کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ انتخابی اصلاحات بل 2017 ء میں مشرف دور کے الیکشن آرڈر 2002ء کی ذیلی شق 7C اور 7B کو نکال دیا گیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ختم نبوتﷺ پر ایمان رکھنے کے ''حلف ‘‘کو خذف کر دیا گیا ہے۔
ختم نبوتﷺ کے بیان حلفی کی بجائے جاری کردہ نئے اقرار نامے میں ''میں صدق دل سے حلف اُٹھاتا ہوں‘‘ کو ختم کرکے ''میں یقین رکھتا ہوں‘‘ کے الفاظ شامل کر دئیے گئے ہیں۔ اس ترمیم پر مذہبی جماعتوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔جماعت اسلامی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہماری معلومات کے مطابق 2002ء کے کنڈکٹ جنرل الیکشن آرڈر (7)میں ذیلی سیکشن 7B اور7Cاور حلفیہ اقرار نامہ ختم نبوت کو اب موجودہ قانون میں ختم کردیا گیا ہے۔ جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ اس شق کے خاتمے سے کاغذات نامزدگی کے وقت ختم نبوت کے منکروں کے حوالے سے جو قانونی پابندیاں تھیں وہ ختم ہو جائیں گی۔ عالمی مجلس ختم نبوت کے سرکردہ رہنما مولانا اللہ وسایا نے اس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون لکھا ہے۔ جس میں اقرار نامے اور حلف نامے کے درمیان فرق واضح کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وفاقی سیکرٹری کنور محمد دلشاد نے بھی کہا ہے کہ حکومت نے یورپی ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور ایک مخصوص مکتبہ فکر کے حامل گروہ کے ایماپر انتخابی کاغذات سے اہم شقوں کو حذف کر دیا ہے۔ ان کے مطابق حلف اور اقرار میں فرق یہ ہے حلف کی خلاف ورزی پر امیدوار سزا کا مستحق ہوتا ہے جب کہ اقرار سے انحراف کی صورت میں سزا کا مستحق نہیں ہوتا۔ مسلم لیگ نون کے احباب کا اصرار ہے کہ ختم نبوت کی شق کو نہیں چھیڑا گیا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بیان حلفی کو فقط بیان بنا دیا گیا ہے۔ آخر اس تبدیلی کا سبب کیا ہے ؟کیا محض یہ ایک اتفاق ہے یا سوچی سمجھی سازش؟ مسلم لیگ (نون) کے ہمنوا اس کو فقط ایک اتفاق قرار دے رہے ہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس تبدیلی کو محض اتفاق یا غلطی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جائے؟ تحریک ختم نبوت ﷺ کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ یہ کالم یا مضـمون نہیں بلکہ پورے سوچ وبچار سے لکھی جانے والی آئینی عبارت ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے بھر پور آواز اُٹھانی چاہیے۔ان کا یہ ماننا ہے کہ اس طرح کے معاملات پر اگر آواز نہ اُٹھائی جائے تو بتدریج نجانے کیا سے کیا ہو جائے۔ بعض حلقوں کے مطابق اس حرکت کا ایک مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ شق 62 اور 63 میں صادق و امین اور نااہل قیادت کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات ختم نبوتﷺ کے مقدس عنوان پر ہونے والی کشمکش کے پس منظر میں چلے جائیں اور مذہبی جماعتیں 62 اور 63 شق کو بھول کر فقط آقائے نامدار حضرت محمدﷺ کی ختم نبوت کے تحفظ کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ دوسرا امکان اس سے بھی خطرناک ہے کہ واقعتاً ختم نبوت کے منکروں کے لیے ملک کی سیاسی بساط پر کنٹرول کو آسان بنایا جا رہا ہے۔
میاں صاحب کے حوالے سے دینی طبقات مختلف قسم کے تحفظات کا شکار ہیں۔ ماضی میں ممتاز قادری کی پھانسی، وویمن پروٹیکشن بل، نیشنل فزکس سینٹر کا نام ایک متنازعہ شخصیت سے منسوب کرنے کا اعلان اور میاں نواز شریف صاحب کا ایک مخصوص گروہ کو اپنا بھائی قرار دینا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ان وجوہات کی بنیاد پر دینی طبقات بیان حلفی کو اقرار نامے سے تبدیل کرنے پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں اور اس حوالے سے 5 اکتوبر کو ملی یکجہتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔
ہفتہ رواں کے دوران خواجہ آصف کے حافظ محمد سعید کے خلاف امریکہ میں دیے جانے والے بیان کے حوالے سے بھی ملک کے مختلف حلقوں میں بہت زیادہ بحث ہوتی رہی۔ خواجہ آصف نے ماضی میں امریکہ میں ہونیوالے بعض اجلاسوں میں شرکت کرنے والے جہادی رہنماؤں میں حافظ محمد سعید کے نام کو بھی شامل کیا۔ جب کہ یہ واقعہ حقیقت کے خلاف ہے۔ امریکہ سے واپسی کے بعد ہونے والے ایک میڈیاپروگرام میں خواجہ آصف نے اپنی اس غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ تاہم انہوں نے حافظ سعید کی شخصیت پر لگائے جانے والے الزامات سے برأت کا اظہار نہیں کیا۔ حافظ محمد سعید کے پاک وہند ،مسئلہ کشمیرپر جدوجہد اور بیانات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان کی شخصیت سے فکری، سیاسی اورعلمی اختلافات تو کیے جا سکتے ہیں لیکن ان کے جذبہ حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا۔مسئلہ کشمیر اور انسانیت کے حوالے سے بھی ان کی خدمات بالکل واضح ہیں۔ خواجہ آصف کے اس بیان پر کافی بحث و تمحیص ہوئی اور کثیر تعداد میں پاکستانیوں نے اس حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا۔ مسلم لیگ نون کو اس موقع پر چومکھی لڑائی لڑنے کی بجائے نظریہ پاکستان اور دستو ر کے تحفظ کے حوالے سے اپنے موقف کو واضح کرنا چاہیے وگرنہ مذہبی طبقات کے مسلم لیگ کے حوالے سے زوایہ نگاہ میں نمایاں تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔