ہفتہ رواں کے دوران جو موضوع معاشرے اور سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ زیر بحث رہا وہ ختم نبوتﷺ کے حلف نامے میں ہونے والی ترمیم تھی۔ ابتدائی طور پر حکمران جماعت اور اس کے حلیف اس بات پر اصرار کر رہے تھے کہ حلف نامے میں کوئی ترمیم نہیں کی گئی لیکن بعد ازاں مذہبی جماعتوں اور عوام کے اتفاقی موقف کی وجہ سے حکمران جماعت کے سینئر نمائندگان ،جن میں وفاقی وزیر قانون اور سپیکر قومی اسمبلی شامل ہیں ،نے اس بات کا اعتراف کیا کہ واقعتاً حلف نامے میں ترمیم کی گئی تھی۔مسلم لیگ (نون)کے سینئر رہنما اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے اس حوالے سے عزم کا بھی اظہار کیا کہ اگر حلف نامے کی ترمیم میں کوئی وزیر بھی ملوث ہوا تو اسے کابینہ سے نکال دیا جائے گا۔ علماء اور عوام کے اتفاقی موقف کو تسلیم کرنے کی وجہ سے معاشرے میں پیدا ہونے والے اضطراب میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گئی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں جہاں بہت سے فکری اور سیاسی نوعیت کے سوالات پیدا ہوئے وہیں پر مذہبی اور جذباتی اعتبار سے نبی کریمﷺ کی عظمت ، حرمت اور تقدس کا احساس نمایاں ترین ہو کر سامنے آیا اور اس بات کو بڑی شدت سے محسوس کیا گیا کہ مسلمان اپنی کمزوریوں اور بدعملیوں کے باوجود نبی کریمﷺ کی ذات سے والہانہ وابستگی رکھتے ہیں اور ان کی عزت اور توقیر پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ ختم نبوت کے حلف نامے کو سابق حالت میں بحال کیے جانے والی جدوجہد ہر اعتبار سے قابل تحسین تھی۔اس قسم کے بحرانوں کے دوران جہاں اہل ایمان کو نبی کریمﷺ سے والہانہ وابستگی کا اظہار کرنا چاہیے وہیں پر اہل ایمان کو اس بات کا بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ نبی کریمﷺ کے بہت سے حقوق ہیں جو بطور اُمتی ہم سب پر واجب الادا ہیں۔ کیا ان حقوق کی پاسداری کے حوالے سے ہمارا جو کردار ہونا چاہیے ،ہم اس کو احسن طریقے سے ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟کتاب وسنت کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے بہت سے حقوق ہم سب کے ذمے واجب الادا ہیں ۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے حق کا تعلق ہمارے عقیدے اورفکر کے ساتھ ہے ۔ہم سب مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کائنات میں سب سے افضل ہیں ۔کوئی فرشتہ ، جن اور انسان آپ کی عظمت اور مقام کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔گروہ انبیاء میں آپ سب سے زیادہ ممتاز ہستی ہیں ۔سابق انبیاء مخصوص وقت اور محدود علاقے کے راہنما تھے جبکہ آپ جمیع انسانیت اور ہر عہد کے لیے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ آپ ؐسے پہلے آنے والے انبیاء کی جانشینی کا فریضہ ان کے بعد آنے والے نبی اور رسول انجام دیتے رہے جبکہ آپ کی ذاتِ والاصفات پر اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کو تمام کر دیا اور آپ ؐکے بعد کسی شخص کو بھی نبوت اور رسالت کا مقام نہیں مل سکتا ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب مقام محمود‘ساقی حوضِ کوثر، شافع روزمحشر اورامام الانبیاء ہیں ۔متعدد دلائل سے ثابت ہے کہ آپ ؐجیسا نہ تو آپ ؐسے پہلے کوئی آیا اورآپ ؐکے بعد کسی اور کے بارے میں آپ ﷺ کے جیسا ہونے کا تصور بھی نہیںکیا جا سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے حق کا تعلق ہمارے دلی جذبات کے ساتھ ہے۔ ہمیں بطور مسلمان آپ کی ذات کے ساتھ والہانہ اور بے پناہ محبت ہونی چاہیے اور کسی بھی شخص کی محبت آپ ؐ کی محبت کے مقابلے میں کم تر ہونی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں حضور ؐ کی محبت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے ارشاد فرمایا :''اے نبی کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ ،تمہارے بیٹے،تمہارے بھائی ،تمہاری بیویاں ، تمہارے خاندان ،وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، وہ تجارت جس کے ماندپڑ جانے سے تم ڈرتے ہو اور وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں تمہیں اللہ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ لے آئے اور اللہ تعالیٰ نافرمان لوگوں کوہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ والہانہ محبت تھی اور وہ آپ ؐکے ادنیٰ اشارۂ ابروپر اپنا تن ‘ من‘ دھن نچھاور کرنے کے لیے تیارہوجاتے تھے ۔آج کے اس مادیت زدہ دور میںنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کرنے والوں کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت موجود ہے کہ آدمی کل قیامت کے دن اپنے محبوب کے ساتھ ہو گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیسرے حق کا تعلق ہمارے جذبۂ اطاعت اور افعال کے ساتھ ہے ۔ ہر مسلمان کو زندگی کے تمام مراحل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیر مشروط پیروی اور اتباع کرنی چاہیے ۔نبی ﷺ کے فرمان کے آجانے کے بعد ہر مسلمان کو بلا چون و چرا فوراً آپ کے فرمان پر لبیک کہنا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 80میں ارشاد فرمایا : ''جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ‘پس تحقیق اس نے اللہ کی اطاعت کی ‘‘ اسی طرح سورہ اٰل عمران کی آیت نمبر 31میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ''کہہ دیجئے کہ اگر تم کو اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو میری پیروی کرواللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیں گے ‘‘۔مذکورہ آیات اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا واحد راستہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے اور آپ ؐکے فرمان کے مقابلے میں ہمیں اپنے عزیزواقارب،والدین ، اساتذہ ،برادری اور سماج کی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہیے اور زندگی کے تمام مراحل میں آپ ؐکے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد فرما یا کہ ہر شخص جنت میں جائے گا سوائے اس شخص کے کہ جس نے خود جنت میں جانے سے انکار کر دیا۔ آپؐ سے پوچھا گیا جنت میں جانے سے انکار کیا ہے تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا ‘جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے نافرمانی کی گویا اس نے خود جنت میں جانے سے انکار کر دیا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چوتھے حق کا تعلق ہماری دعاؤں کے ساتھ ہے۔ اگر ہم عہد رسالت میں ہوتے تو آپ ؐ کے چہرے کا دیدار کرنا ،آپؐ کے دروازے کی چوکیداری کرنا اور آپؐ کی سواری کی مہار تھامنا ہمارے لیے باعث صد عزت و افتخار ہوتا لیکن ہم ان خوش نصیب لوگوں میں شامل نہ ہو سکے کہ جنہوں نے والضحیٰ کے چہرے ، والیل کی زلفوں اورالم نشرح کے سینے کو دیکھا ۔ لیکن ہم ایک کام تو کر سکتے ہیں کہ آپ ؐکی ذات پر درود بھیجیں ۔جو آپ ؐکی ذات پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود بھیجتے ہیں اور جو بھیجتا ہی رہتا ہے حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کے غم دور اور اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچویں حق کا تعلق ہماری غیرت کے ساتھ ہے ۔جو شخص بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کی توہین کرے‘اس کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے ۔تاریخ اسلام ان غیور مسلمانوں کے کردار کی گواہ ہے کہ جنہوں نے گستاخان ِرسول کو واصل جہنم کیا۔ محمد بن مسلمہ ؓنے کعب بن اشرف ،عمیر بن عدیؓ نے اسماء بنت مروان ،عبداللہ بن عتیکؓ نے ابو رافع یہودی اور غازی علم دین شہید نے راجپال جیسے گستاخان کا خاتمہ کر کے اُمت کو یہ سبق پڑھا دیا کہ گستاخِ رسول کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چھٹے حق کا تعلق ہماری شاعرانہ اور لطیف حسوں کے ساتھ ہے ۔ہر دور میں نامورشعراء اور ادیب آپ ؐ کی سیرت نگاری میں مصروف رہے ۔نعتیہ کلام اگر غلو ، گاجے، باجے ،طبلے،سرنگی اور ساز سے پاک ہو تو اس کلا م کو کہنے والا اجروثواب کا مستحق ہے ۔حضرت حسان ؓبن ثابت نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اشعار کہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جنت کی نوید سنائی تھی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاآخری اہم حق ہم پر یہ ہے کہ ہم آپ ؐکے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کریں۔ فرد سے لے کر سماج ،عدلیہ سے لے کر آئین ،رسم ورواج سے لے کر تہواروں ،تہذیب سے لے کر ثقافت اور سیاست سے لے کر ریاست تک زندگی کے تمام شعبوں کو آپ ؐکی مرضی اور شریعت کے تابع کیا جائے ۔ ان تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے پر خلوص جدوجہد کے بعد بھی گو ہم اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ تو نہیں چکاسکتے لیکن ان سے اپنی نسبت کا اظہار ضرورکرسکتے ہیں ۔