پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے جس میں بسنے والوں کی غالب اکثریت مسلمان ہے لیکن دیگر مذاہب کے پیروکار بھی لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ آئین پاکستان کے مطابق پاکستان میں بسنے والے تمام افراد کو تمام انسانی بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ یہاں پر بسنے والے تمام شہریوں کی جان، مال، عزت اور آبرو کا تحفظ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست اور حکومت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ اگر اسلام اور شعائر اسلام کے حوالے سے کوئی سازش یا منصوبہ بندی کی جائے تو اس کے سدِ باب کے لیے وہ اپنے اختیارات استعمال کرے۔ دنیا بھر میں انسانوں کی عزت کے تحفظ کے لیے ہتک عزت اور عدالتوں کے تحفظ کے لیے توہین عدالت جیسے قوانین موجود ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ذمہ دار، سمجھدار اور باشعور افراد پیغمبران برحق کی عزت و آبرو کے تحفظ کو بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں‘ اس لیے کہ انسانوں اور اداروں کی اجتماعی حرمت بھی پیغمبروں کی عزت و ناموس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے جس میں نبی کریمﷺ کی عزت، وقار اور حرمت کے تحفظ کے لیے 295-C کا قانون موجود ہے۔ اندرون اور بیرون ملک موجود لبرل طبقات سے وابستہ بہت سے افراد اور این جی اوز کے کئی نمائندگان اس قانون کو حقوقِ انسانی کے خلاف گردانتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت یہ ہے یہ قانون کسی بھی اعتبار سے انسانی حقوق سے متصادم نہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ لبرل طبقات اور این جی اوز کے نمائندگان اپنے بارے میں تو بات نہیں سننا چاہیے لیکن شمع رسالتﷺ کے پروانوں کو امامِ کائنات حضرت رسول اللہﷺ کی عزت اور وقار پر سمجھوتے کا درس دینا چاہتے ہیں۔ اگر ایک عام انسان اپنی ذات کے بارے میں غلط الفاظ اور ریمارکس کو گوارہ نہیں کر سکتا تو اس بات کو کیونکر گوارہ کیا جا سکتا ہے کہ نبی آخرالزماں حضرت رسول اللہﷺ کی عزت پر سمجھوتہ کیا جائے۔ چنانچہ جب بھی اس قانون میں ترمیم کے حوالے سے بات کی گئی تو علمائے دین اور مذہبی جماعتوں نے ڈٹ کر اس کی مخالفت کی اور وہ تمام طبقات جو اس قانون کے خلاف سازشیںکرنے والے تھے ان کے تار و پود کو بکھیر کر رکھ دیا۔ حرمت رسولﷺ کے حوالے سے مغربی ممالک اور ان کی حکومتوں کا رویہ بھی انتہائی جانب دارانہ اور معاندانہ ہے۔ وہ ممالک‘ جو اپنی سرزمین پر جاری سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف کسی سوشلسٹ جماعت کے وجود کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے‘ نبی کریمﷺ کی ذات اور عصمت پر ہونے والے حملوں کو انسانی حقوق کی آڑ میں فی الفور قبول کرنے پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں۔ اہل مغرب کا یہ رویہ اہل اسلام کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ اس امر کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا جا چکا ہے کہ حرمت رسولﷺ کے حوالے سے پائی جانے والی بے اعتدالیوں کے نتیجے میں کئی مرتبہ مغربی ممالک میں کشیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ حریت فکر اور آزادی ٔ اظہار کی آڑ میں جب بھی کبھی نبی کریمﷺ کی حرمت پر حملہ کرنے کی ناپاک جسارت کی جاتی ہے‘ تو اس کے نتیجے میں تصادم اور کشمکش کی ایک فضا پیدا ہو جاتی ہے اور کئی مرتبہ اس حوالے سے تہذیبوں کے تصادم جیسے امکانات کی باتیں بھی سننے کو ملتی ہیں۔
مسئلہ ناموس رسالتﷺ کے ساتھ ساتھ مسئلہ ختم نبوت کا مسئلہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے کتاب و سنت اور اجماع امت کی بنیاد پر اس بات کا فیصلہ دیا ہے کہ جو شخص بھی نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس پر کسی قسم کے سمجھوتے کی گنجائش نہیں۔ قادیانی اور مرزائی اس حوالے سے مسلمانوں کے اجتماعی موقف کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے‘ اور اپنے خود ساختہ ''اسلام‘‘ پر اصرار کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف مکاتب فکر کے جید علماء نے طویل عرصے تک علمی اور تحقیقی کام کیا۔ اِن اکابر علماء میں محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی، حافظ محمد گوندلوی، مولانا انور شاہ کاشمیری، پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف ، پیر جماعت علی شاہ جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان علماء کے تحقیقی کام میں اس بات پر اجماع نظر آتا ہے کہ ختم نبوت کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد اس حوالے سے کئی مرتبہ تحریکوں کو چلایا گیا۔ 1953ء کی تحریک ختمِ نبوت کے دوران بڑی تعداد میں عقیدہ ختم نبوت کے پروانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ختمِ نبوت کا انکار کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے‘ لیکن اس مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس مطالبے کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تصادم بھی ہوا جس میں بہت سے لوگ جام شہادت نوش کر گئے۔ بعد ازاں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ مسئلہ ختم نبوت کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنایا جائے۔ اس مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، آغا شورش کاشمیری، چوہدری ظہور الٰہی اور دیگر اکابرین نے شبانہ روز جدوجہد کی۔ بالآخر پارلیمنٹ کے فلور پر اس حوالے سے تفصیلی بحث کے بعد ختم نبوت کے مسئلے پر اجتماعی موقف سامنے آیا اور 7 ستمبر 1974ء کو ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا گیا۔ اس مسئلے پر اتفاق اور ہم آہنگی ہونے کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان قائم ہوا اور بعد ازاں تصادم اور کشمکش کی کوئی کیفیت دیکھنے میں نہ آئی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو نکالا گیا تو ایک مرتبہ پھر مذہبی جماعتوں کے اتفاق اور اتحاد کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ختم نبوت کے حوالے سے ملک میں غیر معمولی کشمکش دیکھنے میں آئی ہے۔ ختم نبوت کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کرنے کی وجہ سے دینی جماعتوں اور طبقات نے حکومت کے بارے میں شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ عوام الناس کے اجماعی موقف کے سامنے آنے کی وجہ سے حکومت کو اپنی ترمیم کو واپس لینا پڑا۔ بعد ازاں مسلم لیگ نون کے رہنما کیپٹن صفدر نے اس حوالے سے پارلیمنٹ میں ایک زوردار تقریر بھی کر دی۔ اس تقریر کو مذہبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہوئی اور اس تقریر کے بعد ختم نبوت تحریک کا مطالبہ از سر نو منظر پر آیا کہ جو لوگ ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے ان کو ملک کے تمام کلیدی عہدوں سے ہٹایا جائے۔ کیپٹن صفدر کے اس بیان کے بعد ملک میں افہام و تفہیم کی ایک کیفیت پیدا ہو گئی۔ لیکن پھر صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ کے ایک غیر ذمہ دارانہ بیان کے بعد ملک میں دوبارہ ہلچل کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ علمائے دین نے اس بیان کو انتہائی نا پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اس رد عمل کی وجہ سے رانا ثناء اللہ نے اپنے بیان کو واپس لے لیا اور ختم نبوت کا انکار کرنے والوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ اس حوالے سے یہ سوال ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آیا کہ اس قسم کے بیانات کی وجہ سے اس بات پر غور و فکر کرنا پڑتا ہے کہ آیا واقعی ختم نبوت کے حلف نامے میں کی جانے والی ترمیم کلیریکل غلطی تھی یا سوچا سمجھا اور دانستہ عمل ؟
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی کیپٹن صفدر کے بیان سے اتفاق نہیں کیا اور یوں باور کروایا کہ جیسے یہ ان کی ذاتی رائے ہے۔ اس قسم کے ماحول میں ملک میں ایک کشیدگی اور کشمکش کی فضا پائی جا رہی ہے۔ اس تناؤ کو دور کرنا حکومت وقت کی ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے کسی قسم کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں افراتفری پھیلنے کا احتمال ہے ۔ حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنا دو ٹوک موقف پیش کرنا چاہیے کہ آئین اور اُمت کے اتفاقی مسئلے پر کسی قسم کی نئی بحث اور نئی رائے کا اظہار نہیں کیا جائے گا اور آئندہ اس قسم کے اقدامات یا غیر ذمہ دارانہ بیان دینے والوں کا سختی سے احتساب کیا جائے گا۔ رانا ثناء اللہ گو اپنا بیان واپس لے چکے ہیں لیکن ان کا وہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے۔ چنانچہ حکومت کو ایسے لوگوں کے خلاف انضباطی کارروائی کرتے ہوئے ان کو برطرف کرنا چاہیے اور ختم نبوت کے ساتھ اپنی والہانہ اور غیر مشروط وابستگی کا اظہار کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں حضرت رسول اللہﷺ کی ذات اقدس اور آپ کی حرمت کے حوالے سے پائی جانے والی بے چینی کا ازالہ ہو سکے۔