"AIZ" (space) message & send to 7575

سرکاری ملازمین کی ذمہ داریاں

موٹر وے پولیس کے ڈی آئی جی مرزا فاران بیگ ایک نفیس اور علم دوست انسان ہیں۔ میری ان سے کئی برس سے شناسائی ہے اور ہم کئی مرتبہ مختلف مقامات پر اکٹھے بیٹھ کر مختلف علمی اور دینی مسائل پر سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں۔ مرزا فاران بیگ کے ساتھ وقفے وقفے سے ہونے والی ملاقاتوں کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ دینی مسائل کا بڑے خوبصورت انداز میں تجزیہ کرتے ہیں اور بڑے مدلل انداز میں تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ چند روز قبل ڈی ایس پی موٹر وے نے مجھ سے رابطہ کیا اور ڈی آئی جی صاحب کی طرف سے مجھے موٹر وے کے ہیڈ آفس کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ چنانچہ میں پیر کے روز ظہر کی نماز بعد فاران بیگ صاحب کے دفتر پہنچا جہاں پر انہوں نے بڑے پرتپاک انداز میں اپنے افسران کے ہمراہ استقبال بھی کیا اور باوقار ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ ضیافت کے بعد موٹر وے کے پولیس افسران کے سامنے میں نے سرکاری ملازمین کی ذمہ داریوں کے حوالے سے جو گفتگو کی اسے میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ 
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام دیگر مذاہب کی طرح اپنے سے وابستہ لوگوں کی صرف عبادات اور رسوم ورواج کے سلسلے میں رہنمائی نہیں کرتا بلکہ زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی رہنمائی قابل تحسین ہے۔ موٹر وے کے پولیس کے اہلکار پر بھی دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کی طرح ڈیوٹی کے دوران کچھ اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جو درج ذیل ہیں:
1۔ عدل وانصاف :کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عدل اور انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔ عدل وانصاف کے دو اہم تقاضوں میں سے پہلا اہم تقاضا یہ ہے کہ انسان اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے وقت اپنے اعزہ واقارب اور اپنے دوست احباب کی حمایت نہ کرے اور نہ ہی کسی سرکاری معاملے کی بجاآوری میں جانبداری کا مظاہرہ کرے۔ اس حوالے سے سورہ نساء کی آیت نمبر 135 انتہائی قابل توجہ ہے ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر قائم ہوتے ہوئے گواہی دینے والے بن جاؤ اللہ کی خاطر او ر اگرچہ اپنے آپ کے خلاف ہی ہو‘یا والدین اور قریبی رشتہ داروں کے (خلاف ہی کیوں نہ ہو) اگر ہو وہ امیر یا فقیر تو اللہ تعالیٰ (تم سے ) زیادہ خیر خواہ ہے اُن دونوں کا تو نہ پیروی کرو خواہش نفس کی کہ تم عدل (نہ) کرو اور اگر توڑ مروڑ کر بات کرو گے (گواہی دیتے ہوئے) یا منہ موڑو گے (گواہی دینے سے) تو بے شک اللہ (اُس) پر جو تم عمل کرتے ہو خوب خبردار ہے‘‘۔
اسی طرح انصاف کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ انسان اپنے کسی ـمخالف کو سرکاری اثرورسوخ کے ذریعے زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش نہ کرے۔ اس حوالے سے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 8 میں بہترین رہنمائی موجود ہے۔ ''اور ہرگز آمادہ نہ کرے تم کو کسی قوم کی دشمنی اس بات پر کہ تم عدل نہ کرو، عدل کیا کرو (کہ) وہ زیادہ قریب ہے تقویٰ کے اور اللہ تعالیٰ سے ڈر جاؤ، بے شک اللہ تعالیٰ خوب باخبر ہے اس سے جو تم عمل کرتے ہو۔‘‘ کسی بھی ذمہ دار افسر کے یہ شایان شان نہیں کہ اپنے عہدے اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اپنے دوست احباب اور اعزہ واقارب کو فائدہ دینے کی کوشش کرے اور اپنے مخالفین ، معاندین یا جن سے اس کی مخالفت ہو ان کو اپنے سرکاری عہدے کے ذریعے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے۔ سرکاری افسران کے لیے اس بات کو سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ عدل وانصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنی ذمہ داریوں کو بروقت صحیح طریقے سے ادا کیا جائے۔بعض افسران اپنے وقت اور ترجیحات کا صحیح استعمال اور تعین کیے بغیر سرکاری عہدوں سے فیض یاب ہوتے ہیں‘ یہ لوگ درحقیقت اپنی ملازمت کے ساتھ انصاف نہیں کرتے اور ایسے لوگوں کو اپنی غیر ذمہ داری کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں جواب دہ ہونا پڑے گا۔ 
2۔ سچائی: سرکاری عہدے داروں کے لیے یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ وہ اپنے امور کی انجام دہی میں جھوٹ کی بجائے سچائی کا راستہ اختیار کریں۔ بسا اوقات انسان اپنے دنیاوی مفادات کے لیے کسی بڑے افسر کی بے جا تعریف کرتے ہوئے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے کام لیتے ہیں۔ اسی طرح بسا اوقات جذبہ رقابت اور حسد کی وجہ سے وہ اپنے کسی ہم منصب کے خلاف جھوٹ بھی بول جاتا ہے۔ یہ عمل کسی بھی اعتبار سے درست اور قابل قبول نہیں ہے۔ انسان کو ذاتی نا پسند اور نا پسندیدگی سے بالاتر ہو کر اور اپنے شخصی مفادات کو اپنی ذمہ داریوں کے مقابلے میں غیر اہم سمجھتے ہوئے ہمیشہ سچائی سے کام لینا چاہیے۔ اگر ہم جھوٹ کی بجائے سچائی کا راستہ اختیار کریں گے تو اس سے ہمارے امور کی اصلاح ہو جائے گی۔ اس حوالے سے سورہ احزاب کی آیت نمبر71 بہترین انداز میں رہنمائی کرتی ہے۔ ''اے لوگو جو ایمان لائے ہو ‘ اللہ سے ڈرو اور بالکل سیدھی بات کہو۔ وہ درست کر دے گا تمہارے لیے تمہارے اعمال اور وہ بخش دے گا تمہارے لیے تمہارے گناہ اور جو کوئی اطاعت کرے اللہ اور اس کے رسول کی تو یقینا اس نے کامیابی حاصل کی بہت بڑی کامیابی۔‘‘
3۔لالچ سے دور رہنا: انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے بہت سی ضررویات اور سہولیات کا طلب گار ہے‘ ان ضروریات اور سہولیات کی طلب میں کئی مرتبہ انسان لالچ کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ لالچ جہاں پر سودا گروں اور پیشہ ور افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے وہیں پر کئی مرتبہ سرکاری اور حکومتی عہدے دار بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔نتیجتاً اپنی تنخواہ اور سرکاری مراعات کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی آمدنی کو حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ رویہ کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ ایک سرکاری افسر کا اس بات پر پختہ ایمان ہونا چاہیے کہ رزق کا مالک اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور جتنا رزق اُس نے کسی اِنسان کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اُس کو مل کر رہے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر3 میں اِرشاد فرمایا: ''جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرے تو وہ کافی ہے اسے۔‘‘ انسان کو مادی حوالے سے اپنے سے بالاتر لوگوں کی بجائے اپنے سے کم حیثیت لوگوں پر غوروخوض کرنا چاہیے اور جو کچھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے عطاکیا ہے اس پر قناعت اور شکر گزاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ 
4۔جواں مردی سے چیلنجز کا سامنا: سرکاری افسران بالخصوص پولیس سے وابستہ افراد کو اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران چینلجز کا مقابلہ پوری جرأت کے ساتھ کرنا چاہیے اور اس حوالے سے کسی بھی صاحب اثر اور جرائم پیشہ شخص سے مرعوب ہونے کی بجائے جو ذمہ داریاں اسے دی گئی ہیں ان کو احسن انداز میں انجام دینا چاہیے ۔ نبی کریمﷺ کی سیرت مطہرہ سے جو خوبصورت تعلیمات حاصل ہوتی ہیں ان میں سے ایک جرأت اور بہادری بھی ہے۔ نبی کریمﷺ کے تیار کردہ سپاہیوں نے اللہ کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے پوری جرأت اور دلیری کے ساتھ دنیا بھر میں دین کے جھنڈوں کو گاڑ دیا۔ جزیرۃ العرب میں اللہ کے دین کو غالب کرنے کے ساتھ ساتھ قیصر وکسریٰ کی پیشہ ورانہ مہارت کی حامل افواج بھی نبی کریمﷺ کے تیار کردہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلے میں اس لیے بے بس ہو گئیں کہ صحابہ کرام کے عزائم انتہائی بلند تھے اور وہ تمام چیلنجز کا مقابلہ بڑی دلیری کے ساتھ کرتے رہے اور انہوں نے کسی بھی موقع پر مداہنت اور بزدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ چنانچہ سرکاری افسران اور بالخصوص پولیس سے وابستہ افراد کو بھی اپنی ذ مہ داریوں کی ادائیگی کے دوران پوری جرأت، ہمت اور عزم کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 
5۔ تقویٰ :انسان جہاں پر اپنے معاملات کے حوالے سے دنیا میں اپنے سے بڑے افسران اور ذمہ داران کے سامنے جواب دہ ہے۔ وہیں پر اس کو اپنے اعمال کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بھی جواب دہ ہونا پڑے گا۔جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو متقی بنا لیا توجہاں اسے آخرت میں جنت اور اللہ کی رضا مندی حاصل ہو گی وہیں قرآن مجید کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تنگیوں کو دور کر دیں گے۔ اس کے معاملات کو آسان کر دیں گے اوراس کو رزق وہاں سے دیں گے جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کرے گا۔ اپنے پاس اس کا شمار صاحبِ عزت و تکریم لوگوں میں کریں گے۔ اس کے گناہوں کو معاف کر دیں گے اور اس کے اجر کو دو چند کر دیں گے۔ موٹر وے پولیس کے افسران نے میرا درس بڑی توجہ سے سنا اور اس پُروقار مجلس کے اختتام پر مجھے بڑے پیار اور محبت سے الوداع کیا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں