اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کا خالق ومالک ہے۔اسی نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کی جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہت ہی احسن انداز میں بندوبست فرمایا۔انسانوں کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انواع واقسام کی فصلیں، سبزیاں ، پھل اور اسی طرح بہت سے حلال جانور بھی پیدا کیے تاکہ انسان کی خوراک کے بندوبست کے ساتھ ساتھ اس کے ذائقے کی حس کی تشنگی بھی باقی نہ رہے۔ اسی طرح انسان کے تن ڈھانپنے کے لیے مختلف قسم کے ملبوسات کی تیاری کے اسباب بھی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے میسر فرمائے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی رفاقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انسانوں کوجوڑوں کی شکل میں پیدا کیا اور انسانوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک دینے کے لیے اس کو اولاد جیسی نعمت سے نوازا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کی بنیادی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو انواع و اقسام کی سہولیات بھی عطا فرمائیں۔ اس کو عقل، غوروفکر، مشاہدے ، تجربے اور تجزیے کی ایسی صلاحیتیں عطا فرمائیں کہ وہ مختلف فنون میں ترقی کے ذریعے اپنی آمدورفت، رسل ورسائل اور ابلاغ میں وسعت کے ذرائع پیدا کر سکے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تمام نعمتوں کو عطا کرنے کے ساتھ ساتھ انسان سے اس بات کا تقاضا بھی کیا کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرے۔ سورہ الذاریات کی آیت نمبر 56 کے مطابق جنات اور انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی اور معرفت کے حصول کے لیے ہر زمانے میں انبیاء اور رسل اللہ کو بھیجا گیا اوران پر وحی کا نزول فرمایا گیا اور اُن احکامات کو ناز ل کیا گیا جو اللہ کے پسندیدہ تھے اور انسان کو ان امور سے روکا گیا جو اللہ کے یہاں ناپسندیدہ تھے۔ ہر عہد کے تقاضوں کے لحاظ سے احکامات شریعت کا نزول کیا گیا اور ان احکامات اور شرائع کے ذریعے سابقہ شریعتوں کو منسوخ کیا جاتا رہا یہاں تک کہ بنی نوع انسان کو ایک نقطے پر مرتکز کرنے ، ان کو ایک مرکز سے وابستہ رکھنے اور ان کو ایک ہی پسندیدہ دین کے راستے پر چلانے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسلام کو بطور دین پسند فرما لیا اور نبی کریمﷺ کے قلب اطہر پر قرآن مجید کا نزول فرما کر دین کو ہمیشہ کے لیے مکمل اور تمام کردیا اور بطو ر مثالی قائد و رہنما نبی کریم ﷺکو منتخب فرما دیا۔ نبی کریم ﷺ کی حیات مبارکہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسوہ کامل بنا دیا اور سورہ احزاب کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا کہ ''بلاشبہ یقینا تمہارے لیے رسول اللہ ﷺ میں بہترین نمونہ ہے۔‘‘
نبی کریم ﷺ نے ایک ہمہ گیر زندگی کو گزارا اور زندگی کی کسی بھی جہت میں خلا کو باقی نہیں چھوڑا۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے جہاں پر روحانی ترقی کے اسباب اور ذرائع کو اپنی امت کے لوگوں پر واضح فرما دیا وہیں پر آپﷺ نے عائلی زندگی، کاروبار،نکاح و طلاق ، والدین کی فرمانبرداری، اولاد کی تربیت، جہاد اور ریاست سے متعلقہ تمام امور کو بہترین انداز میں واضح فرما دیا۔
نبی کریمﷺ کے اسی عظیم اور غیر معمولی کردار کو دیکھتے ہوئے مشہور مؤرخ مائیکل ہارٹ نے نبی کریم ﷺ کا نام دنیا کے سو کامیاب ترین آدمیوں کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر درج کیا اس لیے کہ آپﷺ نے صرف روحانی اعتبار سے انسانوں کی رہنمائی نہیں فرمائی بلکہ عصری اور سیاسی معاملات میں بھی انسانوں کی کامل رہنمائی کی۔انسان حالات اور صحبت سے متاثر ہوتا ہے اور دیگر مختلف مذاہب، تہذیبوں اور تمدنوں سے پالا پڑنے کے بعد اس کے نظریات اور افکار میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ قرون اولیٰ کا مسلمان اس بات کو اچھی طرح سمجھتا تھا کہ حقیقی معنوں میں کامیابی اور فلاح اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تابعداری میں ہے۔ لیکن امتداد زمانہ اور گرد ش دوراں کے سبب جب مسلمان غیر مسلم مفکرین ، مغربی دانش گاہوں اور سیکولر تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوئے تو مسلمانوں کے مختلف طبقات کے اذہان میں مذہب کی حیثیت کے بارے میں مختلف طرح کے سوالات پیدا ہوئے۔ دین سے دوری ، قرآن وسنت سے لاعلمی اور غیر مذاہب کے اثرات کی وجہ سے رفتہ رفتہ دنیاوی تعلیم یافتہ مسلمانوں کے طبقات میں ایک فکر پیدا ہوئی کہ دین کا تعلق صرف اور صرف اخروی فلاح وبہبود کے ساتھ ہے ، دین کا تعلق صرف انسان اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے اور دینی تعلیمات انسانوں کے عقائد ، عبادات اور اخلاقی اصلاح سے متعلق ہیں اور سماج، معاش اور سیاسی امور کے بارے میں دین انسانوں پر کسی قسم کی ذمہ داریوں کو عائد نہیں کرتا۔ان تصورات کے نتیجے میں مسلمانوں کے اذہان و قلوب میں اس طرح کی کیفیات پیدا ہوئیں کہ انہوں نے دین کو فقط مسجد اور مدرسے تک محدود سمجھنا شروع کر دیا اور ان کے نزدیک دین کا دائرہ کار فقط نماز ، روزے ،دیگر ارکان اسلام کی ادائیگی اور بعض اخلاقی امور کی اصلاح کے ساتھ تھا۔ چنانچہ نماز پنجگانہ کی ادائیگی، جمعے اور عیدین کے روز غسل کرکے مسجد اور عید گاہ کی طرف جانا، جھوٹ نہ بولنا، گالی نہ دینا اور کسی کی غیبت نہ کرنا جیسے امور کو دین کا حصہ سمجھا گیالیکن اس کے بالمقابل بہت سے اہم امور کو دین سے علیحدہ کر دیا گیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب قرآن مجید غیر محرف کتاب ہے۔ اسی طرح خوش نصیبی سے نبی کریمﷺ کا اسوہ کامل بھی بالکل کامل اور محفوظ حالت میں ہمارے پاس موجود ہے۔ جس سے اس حقیقت کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں کہ دین کا تعلق صرف عقائد اور عبادات کے ساتھ نہیں بلکہ زندگی کے تمام شعبوں کے ساتھ ہے۔ بدقسمتی سے دور حاضر میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ارکان اسلام کی ادائیگی میں بھی تساہل کا مظاہرہ کرتی ہے لیکن ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو دین کی افادیت اور اہمیت کو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی دین سے متعلق کئی اہم امور میں عملاً دینی رہنمائی کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔ گو بہت سے امور میں اصلاح کی ضرورت ہے۔لیکن وہ تین امور جن میں مسلمان معاشروں کو اپنی اصلاح کی اشد ضرورت ہے درج ذیل ہیں:
(1)شادی بیاہ (2)کاروبار (3)سیاسی امور
شادی بیاہ کے موقع پر جن رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جس طرح بے پردگی، اختلاط ،اسراف اور تبذیر کا مظاہرہ ہوتا ہے وہ یقینا دینی تعلیمات سے صریحاً بغاوت ہے۔ شادی بیاہ کے حوالے سے شریعت کی تعلیمات بالکل واضح ہیں ۔شادی بیاہ کے موقع پر مباح امور کی انجام دہی میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن فضول خرچی اور آلات موسیقی کے بے دریغ استعمال ، بے پردگی اور ہندوانہ رسوم ورواج کی پیروی کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔
تجارت کے معاملات میں بھی مسلمانوں کو اپنی اصلاح کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ قوم مدین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے عذاب کے آنے کی وجہ کاروباری معاملات میں حد سے تجاوز کرنا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک چنگھاڑ کے نتیجے میں ان کو قصہ پارینہ بنا دیا۔ دور حاضر کا مسلمان یہ سمجھتا ہے کہ شاید کاروباری معاملات کا مسجد اور احکام دین سے کوئی تعلق نہیں ۔ یاد رکھیے کہ رشوت ستانی ، سود خوری، ملاوٹ ، یتیم کے مال کو کھانا، کم تولنا، کم ماپناایسے کام ہیںجن کے نتیجے میں انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن سکتا ہے۔
اسی طرح نظام اور امور ملکی کو فقط اپنی مرضی سے چلانا اور اللہ کے احکامات کو کلی طور پر نظر انداز کر دینا کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ سیاسیات کے حوالے سے اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے انسان اپنے حق کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے اور فرائض منصبی کو بھی انجام دے سکتا ہے۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے فرامین کو پامال کر کے جو انسان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں کلی طور پر آزاد ہے تو وہ بہت بڑی غلطی فہمی کا شکار ہے۔اس سلسلے میں مسلمانوں کو قرآن وسنت کی تعلیمات کو پڑھنے اور خلافت راشدہ کے ماڈل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام ایک ہمہ گیر دین ہے اور اس کے پیروکاروں کو زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر وہ دنیا اور آخرت کی کامیابیوں سے کبھی ہمکنار نہیں ہو سکتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو بصیرت اور غورو فکر کرنے کی صلاحیتوں سے نوازے۔ آمین !