مولانا حنیف ربانی ایک جید عالم دین اور باعمل خطیب ہیں۔ وہ عرصۂ دراز سے قرآن وسنت کی تبلیغ اور نشر واشاعت میں مصروف ہیں‘ ان کا جوان بیٹا صفی الرحمن اکیس برس کی عمر میں روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا۔ صفی الرحمن کی دو دسمبر کو شادی طے کی جا چکی تھی لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ مولانا ربانی نے اپنے جوان بیٹے کی رحلت پر بے مثال صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ۔ مولانا صفی الرحمن کی وفات کے بعد مجھے اپنے عزیز دوست جمیل الرحمن کی بہن کی شادی کی تقریب میں نکاح پڑھانے کے لیے مدعو کیا گیا اس تقریب میں شرکت کے بعد میرے ذہن میں یہ خیال ابھرا کہ انسان کی زندگی خوشیوں اور غموں سے عبارت ہے۔ کہیں خوشی ہے تو کہیں غم ہے ، کہیں شادی ہے تو کہیں مرگ ہے ۔ ان سارے حالات کو دیکھ کر میرے ذہن کی سکرین پر مختلف طرح کے خیالات چلنا شروع ہو گئے۔ جن کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سے کئی مادی اور کئی روحانی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو پیار محبت کرنے والے اعزاء واقارب ،شفقت کرنے والے والدین، وفادار بیوی ،تابعدار اولاد ، مال ، دولت، گھر بار ،صحت ، عزت و وقار جیسی متعدد نعمتیں عطا فرمائی ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ کئی مرتبہ انسان کو مسلسل نعمتیں عطا فرما کر آزماتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے یا ان نعمتوں میں گم ہو کر اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناشکری کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سورہ روم کی آیت نمبر 7 اس امر کا اعلا ن فرمایا ''یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو )بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں
گا۔اور بے شک اگر تم نا شکری کرو گے (تو)بلاشبہ میرا عذاب یقینا بہت ہی سخت ہے۔‘‘چنانچہ بہت سے لوگ نعمتوں کی ناشکری کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عقوبت کا نشانہ بنے۔ فرعون، ہامان، شداد ، نمرود اور ابولہب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ فرعون کے پاس بادشاہت، ہامان کے پاس منصب ، شدادکے پاس جاگیر ، قارون کے پاس بہت زیادہ سرمایہ اور ابو لہب صاحب کنبہ وقبیلہ تھا۔ لیکن ان سب نا عاقبت اندیش لوگوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی عطاؤں کا شکر ادا کرنے کی بجائے ان کو اپنے ہاتھوں کی کمائی سمجھنا شروع کر دیا اور ان ظالموں نے زمین پر اللہ کی ناشکری اور کفر کے راستے کو اختیار کیا تو یہ تمام لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے عذابوں کا نشانہ بنے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرعون کو غرق ِ آب کر دیا، شداد کی جاگیر کو تباہ کر دیا، قارون کو اس کے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا، ابولہب کی مذمت میں قرآن مجید میں ایک مستقل سورت نازل فرما کر اس کو ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کی بددعاؤں کا مرکز بنا دیا۔ اس کے بالمقابل وہ لوگ جنہوں نے پروردگار عالم کی نعمتوںکو صحیح طور پر استعمال کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اخروی کامیابیوں کو ان کا مقدر بنا دیا اور رہتی دنیا تک ان کے کارہائے نمایاں اور داستانوں کو اہل ایمان کے لیے روشن مثال بنا دیا۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت یوسف ، جناب ذوالقرنین اور جناب طالوت علیہما السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر شکر گزاری کا راستہ اختیار کیا ۔ جناب داؤد اور سلیمان علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی رسالت اور حکومت کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو بہترین انداز میں انجام دیا اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا بھی نہایت احسن انداز میں شکر ادا کیا ، اسی طرح جناب طالوت ؑاور جناب ذوالقرنین ؑ نے بھی اپنے اقتدار کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی خوشنودی کے لیے استعمال کیا اور زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے منکروں اور فتنہ وفساد پھیلانے والوں کا قلع قمع کرنے میں مصروف رہے۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں کو بطریق احسن استعمال کیا اور اللہ کے شکر گزار بندوں میں شامل ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی داستانِ حیات کو قرآن مجید میں احسن قصص کے طور پر نازل فرما دیا جس میں اہل ایمان کے لیے بہت سی قابل عمل مثالوں کو بیان فرمایادیا کہ کس طرح انسان کو اپنی عفت وعصمت کا تحفظ کرنا چاہیے، کس طرح سچائی کے راستے پر کاربند رہنا چاہیے اور کس طرح وقت
کے اتار اورچڑھاؤ کے دوران اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف رجوع کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کو ان تمام ہستیوں پر سایہ فگن فرما دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ جس طرح کئی مرتبہ نعمتیں عطا فرما کر آزماتے ہیں‘ اسی طرح کئی مرتبہ نعمتیں چھین کر بھی آزماتے ہیں۔ جس طرح نعمتوں کے عطا کرنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ شکر کو طلب کرتے ہیں‘ اسی طرح نعمتوں کو واپس لے کر اللہ تبارک وتعالیٰ صبر کا تقاضا کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کے چھن جانے کی صورت میں کئی مرتبہ لوگ گلے شکوے اور مایوسی کا اظہار کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کو ناراض کر بیٹھتے ہیں۔ اس کے مدمقابل بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی آزمائش کے بعد اللہ کے ساتھ اپنا رابطہ مزید مضبوط کرکے اور صبر کا راستہ اختیار کرکے اللہ کی خوشنودی حاصل کر لیتے ہیں اور ان لوگوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے فضل بے پایاں کا نزول فرما دیتے ہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام اور حضرت ایوب علیہ السلام کی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ان دو جلیل القدر انبیاء پر تکالیف اور مشکلات آئیں۔ حضرت یونس علیہ السلام نے مچھلی کے پیٹ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تسبیح کی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو پکارا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کے غم کو دور فرما دیا۔ اسی طرح حضرت ایوب علیہ السلام نے طویل بیماری کے دوران لمحہ بھر کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں شکوہ نہیں کیا۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپؑ کی بیماری کو دور فرما کر جو کچھ آپؑ سے لیا تھا وہ بھی آپ کو عطا فرما دیا اور ساتھ مزید نعمتوں کے دروازے بھی کھول دیے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی زندگی کے طویل روز وشب کے دوران بہت زیادہ صعوبتوں اور تکالیف کو برداشت کیا لیکن ہر لمحہ اور ہر مقام پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے شکر گزار رہے اور آنے والی تکالیف کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ دعوت دین کے دوران آپ کو جن ابتلاؤں کا نشانہ بننا پڑا ‘ آپﷺ ان ابتلاؤں سے لمحہ بھر کے لیے بھی متاثر نہ ہوئے حتیٰ کہ طائف کی وادی میں آپﷺ کو لہو رنگ بنا دیا گیا تو اس موقع پر بھی آپﷺ نے بہت پُراثر دعا فرمائی کہ اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے‘ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ آپﷺ کی نجی زندگی میں بہت سے دکھ آئے۔ آپ کی غم خوار رفیقِ حیات حضرت خدیجۃالکبریٰ ؓان ایام میں دنیا سے رخصت ہوئیں کہ جن میں آپ کی رفاقت کی شکل میں نبی کریمﷺ کے پاس ایک مضبوط سہارا موجود تھا۔ آپ ﷺ کی تین نوجوان بیٹیوں کا انتقال پُر ملال آپﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں ہوا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بڑھاپے میں آپﷺ کو ایک خوبصورت بیٹا عطا فرمایا۔ نبی کریمﷺ نے اس کا نام ابراہیم رکھا۔ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے جلد ہی اس کو اپنے پاس بلایا لیا۔ نبی کریمﷺ نے اپنے پیارے بیٹے کی جدائی پر الفاظ کہے: اے ابراہیمؓ !آپ کی جدائی نے مجھے غم زدہ کر دیاہے لیکن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تقدیر پر راضی ہوں۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ سے ہمیں اس بات کا سبق ملتا ہے کہ انسان کو زندگی کے اتار چڑھاؤ کے دوران ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نعمتوں پر شکر اور تکلیف کی صورت میں صبر کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔
ہم جب اپنے گردوپیش پر نگاہ ڈالتے ہیں تو جہاں پر ہمیں بہت سے ناشکرے اور بے صبرے لوگ نظرآتے ہیںتو وہیں پر کئی ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو یقینا انبیاء اور صلحاء کے راستے پر چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے اپنے تلامذہ اور اپنے اصحاب میں سے حضرت بلالؓ، حضرت زنیرہؓ، حضرت سمیہؓ، حضرت خبابؓ ، حضرت صہیب ؓرومی اور دیگر کئی صحابہؓ نے دین کے راستے میں آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور شدید ابتلاؤں کے باوجود ثابت قدمی سے دین کے راستے پر کاربند رہے۔ جو لوگ نعمتوں پر شکر اور تکالیف پر صبر کرنے والے ہوتے ہیں‘ وہ انسان کے ایمان کو جلا ء دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یقینا مسلمان کو اللہ کی طرف سے آنے والی آزمائش پر صبر کرنا چاہیے ا ور نعمتوں پر شکرگزاری والا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو جائے اور ہمارے جمیع امور کوسنوار دے۔ آمین ۔