نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات اقدس پر نبوت اور رسالت کو تمام کر دیا۔ جو شخص آپﷺ کو اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری نبی تسلیم نہیں کرتا‘ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت کے حوالے سے مسلمانوں نے قرون اولیٰ سے لے کر آج تک کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور جب بھی کبھی نبی کریمﷺ کے بعد کسی شخص نے دعویٰ ٔنبوت کیا‘ مسلمان رہنما اور علماء نے فی الفور ایسے فتنوں کے خلاف بھر پور طریقے سے آواز کو اُٹھایااور ان فتنوں کو کیفر کردار تک پہنچا کر دم لیا۔ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، علی محمد باب، حسین علی مازندرانی، علیجاہ محمد، راشد الخلیفہ، غلام احمد قادیانی اور یوسف کذاب جیسے تمام جھوٹے مدعیان نبوت کے خلاف ہر دور میں امت مسلمہ کے رہنمااور علماء سینہ سپر رہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی قومی اسمبلی نے طویل بحث کے بعد ایک متفقہ فیصلے کے ذریعے منکرین ختم نبوت کو دائرئہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔اس مرحلے تک پہنچنے سے قبل ایک لمبی تحریک کو چلایا گیااور ہر مسلک کے اکابر اور جید علماء نے اپنے اپنے انداز میں چوکھٹِ ختم نبوت ﷺکی حفاظت کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ گزشتہ دنوں میں جب ختم نبوت ﷺ کے حلف نامے کو اقرار نامے میں تبدیل کیا گیا تو ملک بھر میں جس انداز میں علماء اور عوام نے مشترکہ طو ر پر اس غلط قدم کے خلاف آواز کو اُٹھایا‘ اس نے اس بات کو ثابت کر دیا کہ مسلمان کسی بھی طور پر نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ اسی طرح مختلف ادوار میں یہ بات بھی ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان حرمت رسول ﷺ اور ناموس رسالت پر ہونے والے کسی بھی حملے کو برداشت نہیں کر سکتے۔
دو دسمبر کو نماز مغرب کے بعد منصورہ میں جماعت اسلامی نے نبی کریمﷺ سے والہانہ وابستگی کے لیے ''سیرت خاتم الانبیائﷺ کانفرنس ‘‘ کا انعقاد کیا۔ منصورہ آڈیٹوریم میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق کی زیر صدارت ہونے والی اس کانفرنس سے تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں عوام کی کثیر تعداد نے بڑے جوش وخروش سے شرکت کی اور مقررین کی تقریروں کو انتہائی انہماک سے سنا۔ کانفرنس سے جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا امجد خاں، پیر ہارون گیلانی، معین الدین محمود گوریجہ اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنماؤں نے بھی خطاب کیا۔ اس کانفرنس میں برادر سراج الحق صاحب سے قبل میرا خطاب تھا۔ میں نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کیا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء اور رسل اللہ کے سلسلے کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر تمام کر دیا۔ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہو سکتااور اس بات کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورئہ احزاب کی آیت نمبر 40 میں یوں ذکر کیا '' اور نہیں ہیں محمدﷺتمہارے مردوں میں سے کسی ایک کے باپ اور اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں۔‘‘ اس موقع پر میں نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ نبی کریمﷺ کی ذات اقدس کے بعد کسی بھی اعتبار سے رسالت ونبوت کی تو کوئی گنجائش ہی نہیں لیکن یہ بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ کائنات میں آنے والا کوئی بھی شخص کسی بھی اعتبار سے آپ جیسا نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ کائنات کا کوئی باپ فاطمہ کے بابا ؐ، کوئی بیٹا عبداللہ کے لخت جگر ، کوئی بھائی شیما کے بھیا، کوئی تاجر بحرین کے خزینہ دار ، کوئی سپہ سالار بد ر واحد کے سپہ سالار ، کوئی فاتح فاتح مکہ ، کوئی اچھی خبر دینے والا سیدنا بشیر، کوئی ڈرانے والا سیدنانذیر ، کوئی چادر پہننے والا سیدنا مدثر اور کوئی کملی اوڑھنے والا سیدنا مزمل، کوئی سوار براق کے سوار ،کوئی مسافر معراج کے مسافر ، کوئی ساقی ساقیٔ کوثر اور کائنات کا کوئی امام آدم ؑوابراہیم ؑکے امام کی عظمت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ نبی کریمﷺ کی فضیلت ہر اعتبار سے مسلّم ہے۔ آپﷺ کی شجاعت کا مقابلہ کائنات کا کوئی بڑے سے بڑا بہادر،آپﷺ کی حیاء کا مقابلہ نو بیاہتا دلہن، آپ ﷺ سخاوت کا مقابلہ حاتم طائی جیسا سخی اور آپﷺ کی عدالت کا مقابلہ نوشیرواں عادل بھی نہیں کر سکتا۔ اس موقع پر میں نے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ ختم نبوت ﷺ کو ملک میں آئینی حیثیت دلوانے کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے اپنے فرقہ وارانہ اختلافات کو یکسر فراموش کرکے کئی عشروں تک طویل جدوجہد کی اور اکابر علماء اور اُمت مسلمہ نے اس حوالے سے کسی قسم کی لچک یا سمجھوتے کا مظاہرہ نہیں کیا۔ الحمدللہ حالیہ دنوں میں عوام نے جس یکجہتی اور اتفاق واتحاد کا اظہار کیا اس سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ اس ختم نبوت ﷺ اور حرمت رسول ﷺ پر علماء ، عوام اور امت مسلمہ کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہیں ہو گی۔
اس موقع پر میں نے اس بات کو بھی سامعین اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے سامنے رکھنے کی کوشش کی کہ ملک میں علماء اور عوام کی محنت کے ساتھ ختم نبوت کا معاملہ پوری شدو مد سے ابھر کر سامنے آچکا ہے اور یہ بات حکمران طبقے اور اشرافیہ پر واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کے ختم نبوت ﷺ کے قانون کے خلاف کسی بھی سازش کو قبول نہیں کریں گے۔ لیکن تاحال نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کا مرحلہ باقی ہے ۔ گو دینی جماعتیں اور ان سے وابستہ لوگ اس بات پر ذہنی اور فکری طور پر متفق ہیں کہ نظام مصطفیﷺکے نفاذ کے بغیر ملک کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ لیکن پاکستان کے قیام کو 70سال سے زیادہ عرصہ ہونے کے باوجود تاحال پاکستان میں سرمایہ دارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں اور نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کی برکات سے محروم ہیں۔ اس موقع پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے بھی بڑے پر جوش انداز میں سامعین سے خطاب کیا اور ان کے سامنے اس بات کو رکھا کہ پاکستان کے عوام نے حالیہ دنوں میں ختم نبوت کے ساتھ جس وابستگی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ امت مسلمہ نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے زیادہ کسی سے محبت اور والہانہ وابستگی نہیں رکھتی۔ انہوں اس موقع پر اس بات کا ذکر کیا کہ پاکستان کے عوام کسی بھی سیاسی ،علاقائی اور قبائلی لیڈر کی قیادت پر متفق نہیں ہو سکتے بلکہ پاکستان کی قوم فقط نبی کریمﷺ کی ذات اقدس پر متفق اور متحد ہو گی۔ انہوں نے اس بات کو بھی بیان کیا کہ پاکستان نے طویل عرصے تک جاگیردارنہ، سرمایہ دارانہ اور فوجی اقتدار کے زیر سایہ زندگی گزاری ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ ایک دن کے لیے بھی نظام مصطفی ﷺ کے عظیم نظام کے تحت زندگی کو نہیں گزارا گیا۔ انہوںنے اس موقع پر نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے حوالے سے میری تقریر میںبیان کردہ نکتے کا بھی ذکر کیااور اس امر کا اظہار کیا کہ پاکستان کے تمام مذہبی ،سیاسی رہنما اس بات کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور اس مشترکہ کاز کے لیے اپنی توانائیوں کو مرتکز کرنے کی ضرورت ہے۔
خاتم الانبیاء ﷺ کانفرنس کے اختتام پر سامعین اور مہمانوں کے لیے باوقار ضیافت کا اہتمام کیا گیا تھا اس موقع پر امیر جماعت اسلامی برادر سراج الحق کے ساتھ ملک کے سیاسی اور مذہبی حالات کے تناظر میں سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ شعائر اسلام، ناموس رسالتﷺ، ختم نبوتﷺ اور دینی اقدار کے فروغ کے لیے تمام دینی جماعتوں کو مشترکہ لائحہ عمل اپنانا چاہیے۔ باہمی محبت اور گرمجوشی کے اس ماحول میں‘ میں نے اس بات کو محسوس کیا کہ گو پاکستان کے دینی طبقات مختلف جماعتوں میں تقسیم ہیں لیکن اُمت مسلمہ کے مشترکہ مفادات حرمت رسول اللہﷺ اور ناموس رسالتﷺ جیسے مسائل پر جب ہم آواز ہوتے ہیں تو جماعتی، گروہی اورفرقہ وارانہ وابستگیاں کمزور پڑھ جاتی ہیں اور اتحاد اُمت کا تصور ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔