"AIZ" (space) message & send to 7575

ٹرمپ اور اسرائیل

قرآن مجید کی سورہ بقرہ کی آیت نمبر 120 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرما دیا ''اور تم سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے یہود و نصاریٰ‘ یہاں تک کہ آپ پیروی (نہ) کریں ان کی ملّت کی‘‘۔ تاریخ انسانیت اس بات پر شاہد ہے کہ یہود و نصاریٰ قرآن مجید کی اس آیت کی کئی مرتبہ اپنے عمل سے تصدیق کر چکے ہیں۔ مسلمانوں نے ان کے بارے میں خواہ کتنی ہی لچک کا مظاہرہ کیوں نہ کیا لیکن اہل اسلام کے خلاف ان کی خفیہ اور علانیہ سازشیں اور منظم جدوجہد جاری وساری رہیں۔ یہ بات درست ہے کہ دنیا میں انصاف پسند اور انسانیت دوست مسیحی موجود ہیں لیکن جب ہم یہود ونصاریٰ کی سیاسی قیادتوں کو دیکھتے ہیں تو وہ اس آیت کا سو فیصد مصداق نظر آتے ہیں۔
مسلمانوں کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر گزشتہ چند سالوں کے دوران جتنے چرکے لگائے گئے اور جتنی اذیتیں پہنچائی گئیں‘ اس سے قبل اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ ماضی قریب میں امریکی پادری ٹیری جونز نے قرآن مجید کے اوراق کو نذر آتش کرنے کی ناپاک جسارت کی۔ گوانتا ناموبے کی جیلوں میں قرآن مجید کے مقدس اوراق (نعوذباللہ) کی توہین کی گئی۔ اسی طرح کئی یورپی ممالک میں گستاخانہ خاکے بنائے گئے اور بداخلاقی اور بدتہذیبی پر مبنی اس غیر انسانی رویے پر امریکہ اور یورپ کے رہنما چپ سادھے رہے۔ دنیا کے مختلف مقامات پر وقفے وقفے سے مسلمانوں کا بلاجواز قتل عام کیا گیا۔ وہی مغربی طاقتیں جو انڈونیشیا اور سوڈان میں مسیحیوں کے حقوق کے لیے فوراً سے پہلے آواز اُٹھانا شروع کر دیتی ہیں‘ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنی رہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی مسلسل ظلم و بربریت اور قتل عام کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے لیے اقوامِ متحدہ کی قرارداد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوئی کردار ادا نہ کیا گیا۔
فلسطینی ایک عرصے سے یہود کے ظلم و بربریت کا شکار ہیں اور ان کے بنیادی انسانی حقوق بھی تسلیم نہیں کیے جا رہے۔ بوڑھوں، بچوں ، نوجوانوں کا قتل عام اور عورتوں کی بے حرمتی کے واقعات آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ مسلمان ممالک کے حکمران اور عوام اس حوالے سے‘ گزشتہ کئی عشروں سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے آ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود مجال ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور اسرائیل کے کانوں پر جوں تک بھی رینگی ہو۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کے بارے میں منفی عزائم کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ امریکہ میں آباد مسلمانوں کو امریکہ سے نکالنے عزم کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کے خلاف حملے کی دھمکی دے کر براعظم ایشیا کے ایک نمایاں مسلمان ملک کے خلاف اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کیا تھا اور حالیہ دنوں میں حضرت داؤد اور سلیمان علیہم السلام کے شہر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے‘ وہاں پر سفارتخانہ قائم کرنے کا اعلان کرکے ایک مرتبہ پھر انہوں نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی ہے۔
مسلمانوں کی بیت اللہ اور مسجد نبوی شریف کے بعد‘ جس مقام سے سب سے زیادہ روحانی وابستگی ہے، وہ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل‘ بیت المقدس ہے۔ بیت المقدس یا مسجد اقصیٰ وہ عظیم مقام ہے جس میں معراج کی رات اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو آسمانوں کے سفر سے قبل پہنچایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 1 میں ارشاد فرماتے ہیں ''پاک ہے وہ ذات جو لے گئی راتوں رات‘ اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، جس کے اردگرد ہم نے برکت رکھی تاکہ ہم دکھائیں انہیں اپنی نشانیوں سے‘‘۔ نبی کریم حضرت رسول اللہﷺ کو بیت اللہ سے بیت المقدس پہنچا کر اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں نبی کریمﷺ کو اپنی نشانیاں دکھلائیں وہیں پر یہ بھی واضح فرما دیا کہ نبی کریمﷺ ایک قبلے کے امام بن کر نہیں بلکہ دونوں قبلوں کے مقتدیٰ بن کر آئے ہیں۔ نبی کریمﷺ کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد‘ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں بیت المقدس مسلمان سلطنت کا حصہ بن گیا اور کئی صدیوں تک مسلمانوں کے زیرِ انتظام رہا۔ بعد ازاں یورپی مسیحیوں کی منظم جدوجہد کے بعد ایک مرتبہ پھر بیت المقدس مسیحیوں کے ہاتھ چلا گیا۔ لیکن 1187ء میں سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے ایک مرتبہ پھر اس کو مسیحیوں کے تصرف سے بازیاب کروا لیا۔ نتیجتاً دوبارہ مسلمان بیت المقدس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت کو بجا لاتے رہے۔
یہود جو ایک عرصے سے مسلمان اُمت کے انداز و اطوار پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے‘ جب انہوں نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ گردشِ دوراں اور امتدادِ زمانہ کے ساتھ مسلمانوں کے عقائد اور معاملات میں خاطر خواہ کمزوری پیدا ہو چکی ہے تو انہوں نے مسلمانوں کی اسلام سے روگردانی اور دنیاوی معاملات سے غفلت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انیسویں صدی کے اواخر میں اسرائیل کی ریاست کے قیام کے لیے دنیا بھر سے بیت المقدس کے گرد و نواح نقل مکانی شروع کر دی۔ بالآخر کئی عشروں کی منظم جدوجہد کے بعد وہ مسلمانوں پر سیاسی اور عسکری اعتبار سے حاوی ہونے میں کامیاب ہوتے چلے گئے۔1948ء اور 1967ء کی جنگوں میں عرب اتحاد کو یہودیوں کے ہاتھوں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور 1967ء میں سقوط بیت المقدس کا المناک سانحہ رونما ہوا۔
یہ سانحہ مسلمان اُمت کے لیے سقوطِ بغداد کے بعد انتہائی غم اور کرب کے اعتبار سے دوسرا بڑا سانحہ تھا۔ پوری دنیا کے مسلمانوں نے یوں محسوس کیا جیسے ان کی بہت بڑی متاع عزیز کو ان سے چھین لیا گیا ہو۔ 1967ء کے بعد بتدریج اسرائیل کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہو تا چلا گیا اور مسلمان رقبے اور عددی اعتبار سے زیادہ ہونے کے باوجود باہمی انتشار اور ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسرائیل کی پیش قدمی کا مقابلہ نہ کر سکے۔ حالیہ دنوں میں اسرائیل نے بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی مجموعی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تو امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی روایتی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوراً اسرائیل کے اس اعلان کی تائید کرتے ہوئے‘ اسے قبول کرکے اپنا سفارتخانہ یروشلم میں کھولنے کا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر بحیثیت مجموعی مسلمان حکمرانوں کا مضبوط اور طاقتور ردعمل سامنے نہیں آیا۔ گو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اسرائیل کے بیان اور امریکہ کے عاقبت نا اندیشانہ اقدام کو چیلنج کیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی اور وزارتِ خارجہ نے صدر ٹرمپ کے بیان کی مذمت کی‘ لیکن بحیثیت مجموعی‘ مسلمان اُمت اس پوزیشن میں نظر نہیں آ رہی کہ اسرائیل کے اس اقدام اور امریکہ کی جانب سے اس کی حوصلہ افزائی پر کوئی فیصلہ کن کردار ادا کر سکے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر مسلمان اُمت کو ایک اجتماعی موقف کو اپناتے ہوئے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کے ساتھ ساتھ‘ اپنے مقدس مذہبی مقام کو پنجۂ یہود سے نکالنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی کو اپنانا چاہیے۔
اس وقت مسلمانوں کے پاس کئی ایسے فورم موجود ہیں جن کے توسط سے مسلمان اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے ازالے کے لیے‘ اپنی آواز مؤثر انداز میں اُٹھا سکتے ہیں۔ کئی ممالک کا فوجی اتحاد بھی ماضی قریب میں معرض وجود میں آ چکا ہے۔ رابطہ عالم اسلامی اوراو آئی سی کی انجمنیں دنیا بھر کے مسلمانوں کو یکجا کرنے کے اپنا نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس موقع پر اگر عالم اسلام کوئی مثبت اور ٹھوس لائحہ عمل نہیں اپناتا تو یہود اور جارحانہ عزائم رکھنے والے صلیبی‘ مسلمانوں کے خلاف کئی نئی سازشوں کے تانے بانے بننے کی کوشش کریں گے۔ یہود کے بارے میں قرآن مجید کا بیان واضح ہے کہ یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہرزہ سرائی کرنے والے جبرائیل امین سے عداوت کا اظہار کرنے والے، نبی کریمﷺ کو پہچاننے کے باوجود آپﷺ کی نبوت و رسالت کا انکار کرنے والے اور مسلمانوں کے خلاف شدید بغض اور عداوت رکھنے والے ہیں۔ ان سے کسی بھی جارحیت اور سازش کی توقع کی جا سکتی ہے؛ چنانچہ مسلمان حکمرانوں کو حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے‘ کسی مؤثر حکمت عملی کو اپنانا چاہیے تاکہ مستقبل میں امت مسلمہ کے تشخص کو برقرار رکھا جا سکے اور اُمت کو کسی نئے بحران سے دو چار ہونے سے محفوظ رکھا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں