نبی کریمﷺ اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری رسول ہیں اور ہر کلمہ گو مسلمان آپﷺ سے والہانہ وابستگی رکھتا ہے۔ بہت سے لوگ اس بات کو بھی جاننا چاہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے اس وابستگی کا اظہار کس طرح ہونا چاہیے؟کتاب وسنت میں اس حوالے سے بہت ہی شاندار رہنمائی موجود ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم نکات قارئین کے سامنے رکھ رہا ہوں:
1۔ عظمت کا احساس: نبی کریمﷺ سے وابستگی کے اظہار کا پہلا اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریمﷺ کی عظمت کا احساس انسان کے دل میں راسخ ہواور انسان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی جمیع مخلوقات میں سے کسی بھی شخص کا مقام اور رتبہ نبی کریمﷺ جیسا نہیں ہو سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ سے پہلے بھی انبیاء اور رسل اللہ کو مبعوث کیا لیکن آپ ﷺ کی ذات پر نبوت ورسالت کو تمام کر دیا۔ نبی کریمﷺ سے پہلے آنے والے رسول اپنے اپنے علاقے اور مخصوص وقت کے لیے مبعوث کیے گئے جب کہ نبی کریم ﷺ کی رسالت عالمگیراور قیامت کی دیواروں تک کے لیے اس کو دوام حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺ سے پہلے آنے والے کتابیں بعد میں آنے والے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے منسوخ ہو گئیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کی ذات اقدس پر اپنی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن اور آپﷺ کی سنت مطہرہ کو رہتی دنیا تک کے لیے حجت ،دلیل ، ضابطہ حیات اور دستور عمل بنا دیا ۔ آپﷺ کی بعثت کے بعد کسی بھی علاقے اور عہد کا انسان اگر ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو آپﷺ کے قلب اطہر پر اترنے والے قرآن مجید اور آپ کی سنت سے رہنمائی حاصل کرکے ہی ہدایت کا راستہ مل سکتا ہے۔
2۔ نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت: نبی کریمﷺ سے وابستگی کے اظہار کے لیے آپﷺ سے والہانہ محبت کرنا انتہائی ضروری ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص بھی ایمان والا نہیں ہو گا جب تک میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔ قرآن مجید کی سورہ توبہ کی آیت نمبر 24میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرمایا : ''کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (جو ) تم نے کمایا ہے اور (وہ )تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو جس کے مندا پڑجانے سے، اور وہ گھر جو تم پسند کرتے ہو زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ ، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے توتم انتظار کرویہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو لے آئے اور اللہ ہدایت نہیں دیتا(ایسے) فاسقوں کو۔‘‘ یہ آیت مبارکہ اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ ہمیں دنیا میں رہتے ہوئے اللہ ، اس کے رسول اور اللہ کے راستے میں جدوجہد کرنے سے باقی تمام چیزوں سے زیادہ محبت ہونی چاہیے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت کیا کرتے تھے۔ آپ کے ادنیٰ اشارئہ ابرو پر وہ اپنے تن، من ، دھن کو نچھاور کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے تھے۔ آپﷺ کے ہر حکم کو ماننے کے لیے ہمہ وقت آمادہ وتیار رہا کرتے تھے۔ نبی کریمﷺ سے صحابہ کرامؓ کی وابستگی کا عالم یہ تھا کہ میدان جہاد میں جب وہ کفار کے ساتھ مقابلے کے لیے موجودہوتے تو ان کی نگاہیں جہاں کافروں کی صفوں کی طرف ہوتی تھیں‘ وہیں پر وہ نبی کریمﷺ کے دفاع کے لیے بھی پوری طرح مستعد اور چاق چوبند رہا کرتے تھے اور آپﷺ کی ذات اقدس کے دفاع کو ہر چیز پر مقدم جانا کرتے تھے۔ تاریخ اسلام کے دامن میں ایسے واقعات بھی محفوظ ہیں کہ غزوات کے دوران صحابہ کرام ؓ نے نبی کریمﷺ کی طرف آنے والے تیروں کو اپنے وجوودوں پر روکنا گوارا کر لیا لیکن نبی کریمﷺ کی ذات پر معمولی سی آنچ کو بھی نہیں آنے دیا۔
3۔ آپﷺ کی غیر مشروط پیروی: نبی کریم ﷺ سے وابستگی کے اظہار کے لیے آپﷺ کی غیر مشروط پیروی کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ کوئی بھی شخص جس نے نبی کریمﷺ کا کلمہ پڑھا ہے اس کے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ رسول کو بھیجنے کابڑا مقصد یہ تھا کہ اس کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانا جائے چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نساء کی آیت نمبر 64 میں اعلان فرماتے ہیں : ''اور نہیں بھیجا ہم نے کوئی رسول مگر (اس لیے ) تاکہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں اس امر کا اعلان فرما دیا کہ : ''آپ کہہ دیجئے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تبارک وتعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔‘‘ گویا کہ جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی محبت کا متلاشی ہے اگر وہ نبی کریمﷺ کے نقش قدم پر چلتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس سے محبت کرنے لگیں گے۔نبی کریم ﷺ کی بات کو ہر غیر کی بات پر ترجیح دینا آپﷺکی وابستگی کا اہم تقاضا ہے۔نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام ؓ آپﷺ کی ہر بات کو بلا چوں چراں تسلیم کرلیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کے تساہل اور لچک کا مظاہرہ نہیں ہوتے تھے۔ قرآن مجید میں تحویل قبلہ کے واقعے کا ذکر موجود ہے۔ کہ جس وقت بیت المقدس سے قبلے کو تبدیل کرکے بیت اللہ کی طرف کر دیا گیا تو حضرات صحابہ کرام ؓ نے لمحہ بھر کے لیے بھی اس حکم کو ماننے میں دیر نہ کی۔ بلکہ بعض صحابہ کرامؓ کو جب حالت نماز میں اس بات کی اطلاع ملی کہ قبلہ تبدیل ہو چکا ہے تو انہوں دوران ِنماز ہی میں اپنے قبلے کو تبدیل کرکے اس بات کو ثابت کر دیا کہ مومن ومسلمان کا کام فی الفور نبی کریمﷺ کے حکموں کی تعمیل کرنا ہے اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی کوتاہی اور تاخیر کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ جب ہم ارکان دین پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جملہ عبادات کو بجا لانے کے دوران اِتباع رسولﷺ کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ چنانچہ نماز ، روزہ، زکوٰۃ اور حج وہی قبول ہیں جو اسوۂ رسولﷺ کے مطابق ہوں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نساء کی آیت نمبر 103 میں اس بات کا حکم دیا بے شک نماز فرض ہے مومنوںـپر مقررہ اوقات میں۔ لیکن ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ عرفات میں سورج ڈوب رہا ہوتا ہے لیکن مسلمان نمازوں کو ادا کرنے کی بجائے عرفات سے اس لیے کوچ کر رہے ہوتے ہیں کہ اس دن نبی کریمﷺ نے عرفات میں نماز ادا کرنے کی بجائے وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا۔ نبی کریمﷺ کی پیروی کرنے کے دوران ہمیں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ نبی کریمﷺ کی پیروی زندگی کے ہر شعبے میں کرنی چاہیے ۔بعض لوگ دینی امور یا عبادات کو تو نبی کریمﷺ کی سنت کے مطابق ادا کرتے ہیں لیکن کار وبار ، شادی بیاہ اور ریاستی امور کو نبی کریمﷺ کی سیرت سے الگ کر دیتے ہیں۔ حالانکہ مومن ومسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام معاملات کو آپﷺ کے اسوہ کامل کی روشنی میں بجا لانے کی کوشش کرتا ہے۔
4۔ نبی کریمﷺ کے احکامات کی تنفیذ: نبی کریم ﷺ سے والہانہ وابستگی کے تقاضوں میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان کو اپنی بساط کے مطابق نبی کریمﷺ کے احکامات کی اپنی ذات اور ماتحت افراد پر تنفیذکی کوشش کرنی چاہیے۔ایک باپ کو اپنے گھر میں نبی کریمﷺ کے احکامات کی عملداری کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں، کسی ادارے کے سربراہ کو اپنے ادارے میں، اسی طرح کسی علاقے کے سرکردہ رہنماکو اپنے علاقے میں اور ملک کے ذمہ داران کو ملک میں نبی کریمﷺ کے احکامات کی عملداری کے لیے تگ ودو کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے خلفاء راشدین کوجو مقام بلند عطا کیا اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کے احکامات کی تنفیذکے لیے اپنی پوری کی پوری زندگی کو وقف کیے رکھا۔ چنانچہ تاریخ میں ان کے نام ہمیشہ کے لیے سنہری حروف سے درج ہو گئے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ جس حد تک ممکن ہو نبی کریمﷺ کے احکامات و فرامین کی تنفیذکے لیے کوشاں رہیں۔
5۔ نبی کریمﷺ پر درود بھیجنا: نبی کریمﷺ کی ذات سے وابستگی کا ایک تقاضایہ بھی ہے کہ آپﷺ کی ذات اقدس پر درود بھیجا جائے۔ جو شخص آپﷺکی ذات پر مسلسل درود بھیجتا رہتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں اور اس کے غموں کو دور فرما دیتے ہیں۔
مندرجہ بالا نکات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم صحیح معنوں میں نبی کریمﷺ سے وابستگی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں نبی کریمﷺ سے وابستہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!