"AIZ" (space) message & send to 7575

چند اہم واقعات

گزشتہ چند دنوں کے دوران ملک بھر میں بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں سے ہر واقعہ اپنی حیثیت میں انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ قرار دینے کے حوالے سے مذہبی جماعتیں جہاں اپنے اپنے دائرے میں احتجاج میں مصروف رہیں‘ وہیں پر 20دسمبر کو ملی یکجہتی کونسل کے زیر اہتمام اسلام آباد میں ایک پر وقار کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے شرکت کی۔ بیت المقدس کو پنجہ ٔ یہود سے آزاد کروانے کے لیے مختلف تجاویز پیش کی گئیں۔ ملی یکجہتی کونسل کے صدر ڈاکٹر ابو الخیر زبیر ،جماعت اسلامی کے سینئر رہنما پروفیسر ابراہیم،جماعۃ الدعوہ کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمن مکی، ملی یکجہتی کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ثاقب اکبر ،ممتاز کشمیری رہنما عبدالرشید ترابی اور دیگر رہنماؤں نے کانفرنس سے خطاب کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں شمولیت کا موقع ملا اور میں نے بھی بعض تجاویز کو قائدین اور سامعین کے سامنے رکھنا۔ اس موقع پر میں نے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں میں قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
اسلامی تاریخ میں یہود اور بیت المقدس کے حوالے سے مختلف مناظر دیکھنے کو ملے۔ پہلے منظر میں خیبر کے قلعے کو فتح کرنے کے لیے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا دیا گیا۔ اس جنگ میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سامنایہود کے سرکردہ رہنما مرحب سے ہوا۔جسے اپنی طاقت فنون سپہ گری پر بہت زیادہ ناز تھا۔ اس کو اس بات کا علم نہ تھاکہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شکل میں اس کا مقابلہ ایمان اور جذبہ جہاد سے سرشار ایک عظیم بہادر اور مرد میدان سے ہونے والا ہے جن کے پیچھے پوری شمع رسالت ﷺکے پروا نے متحد حیثیت میں موجود ہیں۔چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ ؓنے ولولہ ایمانی، جذبہ جہاد اور اتحاد کے ذریعے مرحب اور اس کی فوجوں کو گرا کر خیبر کے قلعے کو فتح کر لیا۔ 
جہاں تک تعلق ہے بیت المقدس کا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد مبارک میں بیت المقدس نصرانیوں کی تحویل میں تھا لیکن جذبہ ایمانی اور جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں نے جب متحد ہو کر بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کی تو نصرانی بیت المقدس مسلمانوں کو دینے پر آمادہ وتیار ہو گئے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں بیت المقدس کی چابیوں کو دے دیا گیا اور بیت المقدس حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلاح کی صداؤں سے گونج اُٹھا۔کچھ صدیوں کے بعد دوبارہ بیت المقدس نصرانیوں کی تحویل میں چلا گیا۔ اس مرتبہ بھی مسلمانوں نے ایمان اور جذبہ جہاد سے سرشار ہوکر صلاح الدین ایوبی ؒکی قیادت میں جب متحد ہو کر بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کی تو 1187ء میں بیت المقدس دوبارہ بازیاب ہو گیا۔انیسویں صدی کے اواخر سے یہود نے ایک منظم طریقے سے پوری دنیا سے بیت المقدس کے گردونواح میں نقل مکانی کرنا شروع کی اور 1967ء میں وہ اپنی سازشوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔ 1967ء لے کر اب تک مسلمان بیت المقدس کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابیوں کو اس لیے حاصل نہیں کر سکے کہ ایمان اور جذبہ جہاد میں زوال کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد بھی نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں جہاں پر اُمت مسلمہ کو متحد ہو کر ایک ولولہ تازہ کے ساتھ اس مسئلے پر یکسو ہونے کی ضرورت ہے‘ وہیں مسلمان ریاستوں کو بھی باہمی اختلافات کو فراموش کرکے بیت المقدس کی بازیابی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
17دسمبر کو کوئٹہ چرچ پر ہونے والے حملے کے نتیجے میں ملک بھر میں شدید اضطراب محسوس کیا گیا۔ پاکستان ہمارا دیس ہے جس میں بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے پیروکار بھی اس ملک کے باشندے ہیں۔ ان کی جان، مال، عزت اور آبرو کا تحفظ کرنا اہل اسلام کی ذمہ داری ہے۔ مسلمان حکمرانوں کو اقلیتوں کے حقوق کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے اور ان میں کسی بھی قسم کے احساس محرومی کو پیدا نہیں ہونے دینا چاہیے۔ اسی طرح مسلمان عوام کو بھی ان کے جائز حقوق کے حوالے سے کسی بھی قسم کی منفی سوچ اور عزائم کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔ چرچ پر ہونے والے اس حملے کے حوالے سے مذہبی جماعتوں نے متفقہ طور پر ان عناصر کی بیخ کنی کرنے کا مطالبہ کیا جنہوں نے چرچ پر حملہ کیا اور ان کو انسانیت کے ساتھ ساتھ مذہب کا بھی دشمن قرار دیا۔ 
حالیہ دنوں میں حکمرانوں کے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے حوالے سے نرم رویے پر بھی ملک میں اضطراب کی ایک لہر دیکھنے کو ملی۔ کلبھوشن کا دہشت گرد ہونا ایک بدیہی حقیقت ہے اور اس حوالے سے جو سلوک کسی بھی مجرم کے ساتھ ہونا چاہیے اسی سلوک کا مستحق کلبھوشن بھی ہے۔ لیکن دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ حکومت نے ممتاز قادری کی مرتبہ رائے عامہ کو نظر انداز کرکے انہیں سزائے موت دے دی لیکن کلبھوشن کے مسئلے میں اس رویے کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی قوم توقع کر رہی تھی۔ کلبھوشن کے ساتھ نرم سلوک نے ماضی کی بہت سی تلخ یادیں بھی تازہ کر دیں۔ریمنڈ ڈیوس نے قرطبہ چوک میں جس انداز میں پاکستانی شہریوں کا قتل عام کیا اس پر یقینا وہ کڑی سزا کامستحق تھا لیکن حکومت نے اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ورثاء کو جبراً ادیت لینے پر مجبور کر دیا اور بے گناہ مسلمانوں کا قاتل بحفاظت امریکہ منتقل ہو گیا۔ اس کے بالمقابل قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی عرصہ دراز سے امریکہ کی تحویل میں ہے۔ گو اس حوالے سے حکمران عوامی جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے عوامی سطح پر ردعمل کا اظہار کر چکے ہیں لیکن سفارتی اور حکومتی سطح پر کسی قسم کی کوئی پیش قدمی نہیں کی گئی۔ حکومت کواس حوالے سے اپنے طرز عمل پر ازسر نو غوروغوض کرنے کی ضرورت ہے اور اس قسم کے اقدامات سے گریز کی ضرورت ہے جن سے قومی وقار میں کمی اور عوام الناس میں نفرت پیدا ہو۔
بعض اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے بھی مسلمانوں میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی کہ پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو باہر نکالا جا رہا ہے۔ اس خبر سے ان شبہات کو تقویت ملی کہ حکومت حرمت رسولﷺ اور ناموس رسالت ﷺ جیسے مسئلوں پر دیدہ دانستہ مداہنت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ پاسپورٹ ایک سفری دستاویز ہے اور کسی بھی مذہب کا پیروکار حجاز مقدس کے علاوہ اس دستاویز کے ذریعے دنیا بھر میں سفر کر سکتا ہے۔ تاہم حجاز میں چونکہ صرف مسلمانوں کے داخلے کی اجازت ہے اس لیے مذہب کا خانہ غیر مسلموں کے حجاز کے سفر کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ منکرین ختم نبوتﷺ ایک عرصہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہلوا کر سرزمین حجاز میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس قسم کے اقدامات سے ان کی مذہبی شناخت معدوم ہونے کے سبب ان کو حجاز مقدس میں داخل ہونے کا موقع ملے گا۔ اس سے قبل جب یہی قدم جنرل پرویز مشرف کے دور میں اُٹھایا گیا تو تمام مذہبی جماعتوں اور رہنماؤں نے متحد ہو کر انہیں اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے حکمران دوبارہ اسی قسم کی غلطی کرکے عوام الناس کو ایک مرتبہ پھر پریشانی اور اضطراب میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں۔ حکمرانوں کو اس حوالے سے اپنے فیصلوں پر غور وغوض کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے اقدامات سے بچنے کی ضرورت ہے جن سے اُمت مسلمہ میں بے چینی اور تشویش پیدا ہو اور معاشرے کا سکون تہہ وبالا ہو جائے۔
کچھ سال قبل ایک صاحب اثر گھرانے کے نوجوان نے ایک پولیس افسر کے بیٹے کو معمولی تنازعے پر قتل کر دیا۔ جس پر ملک کے تمام طبقات نے بااثر خاندان کے اس نوجوان کے احتساب کا مطالبہ کیا۔ لیکن حالیہ دنوں میں شائع ہونے والی خبروں نے اس حوالے سے ملک بھر میں تشویش کی ایک لہر کو پیدا کر دیا کہ وہ لڑکا اپنے اثرورسوخ کی وجہ سے رہا ہو چکا ہے۔ اصلاحی معاشرے میں قتل وقتال کو روکنے کے لیے قانون قصاص کا ہونا ضروری ہے تاکہ ہر قاتل کو اس کے کیے کی سزا مل سکے۔ تاہم باہمی رضامندی کے ساتھ دیت کی ادائیگی کے ذریعے بھی مقتول کے لواحقین کو راضی کرکے قاتل کو سزائے موت سے بچایا جاسکتا ہے لیکن اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دیت کو مقتولین پر مسلط نہ کیا جائے بلکہ وہ اپنی مرضی سے دیت لینے پر آمادہ ہوں ۔ سرمائے اور اقتدار یا اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرکے کسی کو جبراً دیت لینے پر مجبور کرنا کسی بھی طور پر اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمارے معاشرے کو ہر قسم کے حادثات سے محفوظ ومامون فرما کرامن وامان کا گہوارابنادے ۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں