ہمارا معاشرہ ایک عرصے سے مختلف حوالوں سے اقتصادی ، معاشرتی، سیاسی اور اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے۔ مختلف طبقات ِزندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی اپنی بساط کے مطابق معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو استعمال کررہے ہیں۔ ملک کے بہت سے سیاسی رہنما بھی ملک میں تبدیلی لانے کے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی ، سماجی ، سیاسی اور اخلاقی سطح پر جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ تاحال رونما نہیں ہو سکی۔ جب اس بگاڑ کی وجوہات اور اسباب پر غور کیا جاتا ہے تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نظر نہیں آتا کہ ہم نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس عظیم کتاب سے اپنے تعلق کو کمزور کر لیا ہے کہ جس نے آج سے چودہ سو برس قبل تمام اعتقادی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی بحرانوں کو حل کر دیا تھا۔ جزیرۃ العرب کے لوگ کئی اعتبار سے گناہوں ، برائیوں ، بداعمالیوں اور مختلف قسم کے جرائم میں مبتلا ہو چکے تھے۔ لیکن جب نبی کریمﷺ کے قلب اطہر پر قرآن مجید نازل ہوا تو بتدریج جزیرۃ العرب کے لوگ ہر قسم کی برائیوں سے پاک ہو گئے ۔ کفر کے راستے کو چھوڑ ے حلقہ بگوش اسلام ہو کر قرآن مجید سے تعلق کو اختیار کرنے والے لوگ دنیا کے بہترین انسان ثابت ہوئے۔ہمارے معاشرے میں عام طور پر شادی بیاہ کے موقع قرآن مجید کو بیٹی کے سر پر بلند کرکے بیٹی کو اس کے نیچے سے گزارا جاتا ہے۔ اسی طرح جھگڑے اور تنازعات کی صورت میں قرآن مجید پر حلف لیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ قرآن مجید کو ایصال ثواب کے لیے تلاوت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجیدکے جس ہمہ گیر انقلاب کی معاشرے کو اشد ضرورت ہے اس طرف ہم توجہ نہیں دیتے۔
جب ہم قرون اولیٰ میں قرآن مجید کے ہمہ گیر اثرات کا جائزہ لیتے ہیں تو انسانی زندگی پر اس کے اثرات کچھ یوں نظر آتے ہیں۔
1۔بداعتقادی کا خاتمہ: نبی کریمﷺ جس معاشرے میں مبعوث ہوئے وہاں کے لوگوں کی غالب اکثریت اعتقادی اعتبار سے مختلف طرح کی قباحتوں کا شکار تھی۔ کوئی بتوں کی پوجا کر رہا تھا تو کوئی دو خداؤں کے تصورات کو پیش کر رہا تھا۔ کوئی حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں غلو کرتے ہوئے انہیں مقام الوہیت پر فائز کر رہا تھا۔ کچھ گمراہ قسم کے لوگ فرشتوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بیٹیاں قرار دے رہے تھے۔ اسی طرح بہت سے لوگ مظاہر فطرت کی پوجا کرتے ہوئے نظر آتے تھے ، کوئی سورج اور چاند کو اپنا معبود حقیقی سمجھ رہا تھا۔آتش پرست آگ کی پوجا کے ساتھ ساتھ نیکی اور بدی کے دو خداؤں کا تصور پیش کررہے تھے۔ قرآن مجید نے ان تمام اعتقادات کی کمزوری کو واضح کیا اور انسانوں کو پتھروں، درختوں، سورج ، چاند ، ستاروں، فرشتوں ، حضرت مریم ،حضرت عیسیٰ ؑاوردیگر برگزیدہ ہستیوں کی پوجا سے ہٹا کر ایک اللہ تبارک وتعالیٰ کے آستانے پر جھکنے کا راستہ دکھایا۔ بنی نوع انسان کو شرک کی قباحتوں سے آگاہ کرکے ان کی توحید کے نور کی سمت رہنمائی فرمائی۔
2۔ معاشی بے اعتدالیوں کا خاتمہ: جزیرۃ العرب کے لوگ بدترین معاشی ناانصافیوں اور بے اعتدالیوں کا شکار ہو چکے تھے۔ کم ماپنا، کم تولنا، لوگوں کا دھوکہ دینا، ملاوٹ کرنا اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ سود کے ذریعے لوگوں کی آزادی کو سلب کرکے ان کو معاشی غلامی کی دلدل میں دھکیلنے جیسے قبیح ترین افعال ان کے اندر موجودتھے۔ نبی کریمﷺ پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کا نزول فرمایا اور اس میں تمام معاشی بے اعتدالیوں کی بھر پور انداز میں مذمت کی۔ قوم مدین کے گمر اہ لوگوں کے احوال کو قرآن مجید میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا۔ یہ لوگ کم ماپتے اور کم تولا کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام ان کو پورا ماپنے اور تولنے کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن قوم مدین کے لوگوں نے آپؑ کی نصیحتوں پر عمل کا نتیجہ خسارے کو قرار دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر چنگھاڑ کو مسلط کیا اور انہیں تباہی اور بربادی کا نشانہ بنا دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر سود کی بھرپور انداز میں مذمت کی اور سورہ بقرہ میں اہل ایمان کو تقویٰ اختیار کرنے اور سود کو چھوڑنے کا حکم دیا اور اس کے حکم کے باوجود سود کا کاروبار کرنے والے لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے جنگ کے اعلان سے خبردار کیا۔ اور اس طریقے سے لوگوں کو معاشی بے اعتدالیوں سے دور رہنے کا سبق پڑھایا۔ باہمی رضامندی سے کی جانے والی تجارت کو کاروبار کی اصل قرار دے کر لوگوں کو استحصال کے راستے سے بچنے کی تلقین کی۔ سورہ المطففین میں ان لوگوں کو تباہی کی وعید سنائی گئی جو اپنے حق میں اضافی تول اور دوسروں کے حق میں کم تول کی بد عملی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طریقے سے قرآن مجید کی ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہو کر اہل ایمان میں اللہ کی ایسی خشیت پیدا ہوئی کہ وہ کسی کا ایک درہم یا اضافی دینار بھی اپنے پاس رکھنے پر آمادہ وتیار نہ ہوتے تھے۔
3۔سماجی برائیوں کا خاتمہ:قرآن مجید کے نزول سے قبل جزیرۃ العرب کے لوگ شراب نوشی، بدکرداری، بے حیائی کی قباحتوں میں بری طرح ملوث تھے اور ایک دوسرے کی جان کو ضائع کردینا ان کے لیے معمولی بات تھی۔ معمولی معمولی جھگڑوں پر ایک دوسرے کی گردن کاٹنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان تمام برے اعمال کی بھر پور انداز میں مذمت کی۔ نفس انسانی کو اس قدر محترم قرار دیا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل جب کہ ایک کو زندہ کرنے کو پوری انسانیت کو زندہ کرنے کے برابر قرادیا۔ اسی طرح بدکرداری کا ارتکاب کرنا تو دور کی بات ہے برائی کے قریب جانے سے بھی روک دیا گیا۔ شراب اور جوئے جیسی قباحتوں کو شیطانی عمل قرار دے کر ان سے بچنے کی تلقین کی اور معاشرے میں جاری پانسے اور بت گری جیسے اعمال سے مکمل طور پر اجتناب کی تلقین کی گئی ۔قرآن مجید کی اس تعلیم کا اثر یہ ہوا کہ لوگ انسانی جان کی حرمت سے صحیح طور پر آگاہ ہو ئے اور ایک دوسرے کی عزت، احترام اور توقیر کا حقیقی جذبہ ان کے دلوں میں بیدا ہو ا۔
4۔عورت کے احترام کی بحالی: جاہلیت کے معاشروں میں عورت کا کوئی احترام نہ تھا اور بعض لوگ اس حد تک جا چکے تھے کہ عورت کو فقط لذت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے تھے۔ قرآن مجید نے عورتوں کی عصمت دری کی مذمت کی اور معاشرے میں پردے اور شرم حیاء کا ایسا تمدن عام ہوا کہ جس نے معاشرے میں بسنے والے لوگوں کی نگاہوں کو جھکا دیا اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان کسی عورت کے ساتھ برائی کرنا تو بڑی دور کی بات ہے کسی غیر محرم کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتا تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں لوگ بیٹی کی ولادت پر اس قدر غمگین ہوتے کہ اس کو زندہ زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ اسی طرح اپنے باپ کی منکوحہ یعنی اپنی سوتیلی ماؤں کے ساتھ بھی نکاح کر لیا کرتے تھے اوربیک وقت ایک آدمی دو دو بہنوں کو اپنے نکاح میں لے آیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ان تمام برے اعمال کی بھر پور انداز میں مذمت کی اور باپ کی بیویوں سے نکاح کو حرام قرار دے دیا۔ اسی طرح ایک شخص کے عقد میں بیک وقت دو بہنوں کے نکاح کو باقی رہنے کی بھی اجازت نہ دی۔ سورہ التکویر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کو بھی واضح فر ما دیا کہ آخرت میں زندہ درگور کی جانے والی بیٹی کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا۔
اس ہمہ گیر تبدیلی کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے سے ظلم کی تمام اقسام اور بے اعتدالیوں کا خاتمہ ہو گیا اور معاشرہ امن وسکون اور اعتدال کا گہوارہ بن گیا۔ وہ کتاب جس نے چودہ سو برس قبل ایک تاریک معاشرے میں ہمہ گیر انقلاب کو پیدا کر دیا تھا۔ بدقسمتی سے آج مسلمان اس سے تمسک اختیار کر نے کے لیے تیار نہیں۔ حقیقی بات یہ ہے کہ بداعتقادی، معاشی بے اعتدالیوں، سماجی برائیوں اور محروم طبقوں کے استحصال کی حقیقی ا ور حتمی صورت یہی ہے کہ ہم قرآن کی طرف واپس لوٹ آئیں اور اس کی روشنی میں اپنے معاشرتی بگاڑ کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے بجا طور پر کہا تھا ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآن ہو کر