"AIZ" (space) message & send to 7575

کشمیر ہمارا ہے

مملکت خداداد پاکستان مسلمانان ہند کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ اس مملکت کے حصول کے لیے مسلمانان ہند نے اپنے قائدین حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال ، حضرت مولانا ظفر علی خان اور حضرت مولانا محمد علی جوہر اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں کئی عشروں تک مسلسل جدوجہد کی‘ بالآخر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان بنگال، پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد کے مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ کشمیر کے رہنے والوں کی اکثریت بھی مسلمان تھی اور یہ لوگ بھی نظریاتی اعتبار سے ہندوستان کی غلامی میں رہنے پر آمادہ وتیار نہ تھے۔ لیکن ایک سازش کے تحت اہل کشمیر کو پاکستان سے جدا کر دیا گیا۔ اہل کشمیر پاکستان سے ملحق ہونا چاہتے تھے ‘استصواب رائے کی بنیاد پر انہیں ان کے سیاسی مستقبل کی یقین دہانی بھی کروائی گئی۔ لیکن دکھ اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ کئی عشرے بیت جانے کے باوجود اہل کشمیر کو استصوابِ رائے کے بنیادی حق سے محروم رکھا گیا اور کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ اہل کشمیر نے بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف سات دہائیوں کے دوران بے مثال جدوجہد کی۔ کئی مرتبہ کشمیر کی تحریک آزادی کو جبر اور استبداد کے ذریعے روکا گیا۔ لیکن اہل کشمیر نے تمام تر ریاستی جبر کے باوجود جدوجہد آزادی کو جاری رکھا۔ تحریک آزادیٔ کشمیر تین وجوہ کی بنیاد پر اقوام عالم کی توجہ کی طلب گار رہی:
1۔ انسانی بنیاد: انسانی بنیاد پر کرئہ ارض پر رہنے والے تمام ذی شعور اہل کشمیرپر ہونے والے مظالم پر اضطراب اور تشویش کا شکار رہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام عالم نے اس مسئلے پر جس سنجیدگی کی ضرورت تھی اس کا مظاہرہ نہیں کیا۔ مذہبی تعصبات کی بنیاد پر اہل کشمیر کے جائز مطالبے کو نظر انداز کر دیا گیا۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی کسی غیر مسلم طبقے کے سیاسی استحصال کی بات منظر عام پر آئی۔ اقوام مغرب نے فوراً سے پہلے ان کے حقوق کی بحالی کی آواز کو اٹھایا۔ چنانچہ سوڈان اور انڈونیشیا کے علاقوں میں مسیحیوں نے جب آزادی کی بات کی توا قوام عالم نے ان کے اس مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فی الفور اپنے اثر روسوخ کو استعمال کیا۔ مغربی حکومتوں نے اپنے زیر سایہ زندگی گزارنے والے عوام کے آزادی کے مطالبے کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ چنانچہ سکاٹ لینڈ کے عوام نے جب برطانیہ سے علیحدہ ہونے کی بات کی تو ان کو فوراً سے پہلے استصوابِ رائے کا حق فراہم کیا گیا۔ لیکن تاسف کا مقام یہ ہے کہ کشمیر ، فلسطین اور برما میں بہنے والے لہو پر اقوام عالم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ وہ ممالک جو جانوروں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور جانوروں کو گزند پہنچنے کی صورت میں فوراً سے پہلے آواز اُٹھانے پر تیار ہو جاتے ہیں انہوں نے مسئلہ کشمیر پر تاحال کسی قسم کے مثبت ردّعمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ 
2۔ مذہبی بنیاد: مسئلہ کشمیر کا دوسرا پہلو مذہبی ہے۔ مسلمان اقوام کا اہل کشمیر سے مذہب کی بنیاد پر گہرا تعلق ہے۔ عرب اور غیر عرب ممالک کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری پاکستان تشریف لائے تو انہوں نے جہاں پر دیگر معاملات پر اظہار خیال کیا‘ وہیں پر مسئلہ کشمیر پر بھی خاطر خواہ توجہ دی۔ سردار عتیق احمد کے ظہرانے پر دیگر پروگراموں میں رابطہ عالم اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے مسئلہ کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ او آئی سی بھی اس مسئلے میں اپنے ردعمل کا اظہار کر چکی ہے۔ لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ مذہبی بنیادوں پر یہ مسئلہ جس قدر توجہ کا طلب گار ہے مسلمان اقوام نے بھی اس پر اس قدر توجہ نہیں دی اور بیت المقدس اور برما کی طرح یہ مسئلہ بھی تاحال معلق ہے۔ مسلمان ممالک کو اس حوالے سے اس مسئلے پر گہری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
3۔ قومی بنیاد : قومی بنیادوں پر بھی مسئلہ کشمیر انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور پاکستان جہاں پر انسانی اور مذہبی بنیادوں پر اہل کشمیر کے حقوق کے لیے آواز اُٹھانے کا پابند ہے وہیں پر قومی بنیاد پر اہل پاکستان پر اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اُٹھائیں۔ 
پاکستان میں ہر سال 5 فروری کو اہل کشمیر کے ساتھ بھر پور انداز میں یکجہتی کے اظہار کے لیے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ اس سال بھی ملک کے مختلف حصوں میں اہل کشمیر سے وابستگی کے لیے بڑے پیمانوں پر کانفرنسوں، اجتماعات اور جلسوں کا انعقاد کیا گیا جن میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی گئی۔ لاہور میں مجھے بھی جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ کے پروگراموں میںشرکت کرنے کا موقع ملاجن میں عوام الناس کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر مقررین نے مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ حافظ محمد سعید نے اپنے کلیدی خطاب میں اہل کشمیر کے ساتھ ہونے والے ظلم وبربریت اور اقوام عالم کی بے حسی اور غفلت پر خصوصی توجہ دلائی۔ جناب لیاقت بلوچ نے بھی جماعت اسلامی کے اجتماع میں مؤثر خطاب کیا اور حکمرانوں اور حقوق انسانی کے بین الاقوامی اداروں کی توجہ اس سمت مبذول کروائی اور پاکستان کے سفارتی مشن کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا۔ 
میں نے ان اجتماعات میں جن خیالات کا اظہار کیا انہیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
کشمیر کا مسئلہ آئینی ، قانونی اور مذہبی اعتبار سے توجہ طلب ہے اور پاکستانی حکومت اور عوام پر اس حوالے سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو بھرپور انداز میں صرف کریں۔ 5 فروری کے دن پورے ملک میں احتجاج کرنا ایک مثبت رویے کا اظہار ہے۔ لیکن اس مسئلے پر پورا سال توجہ دینے کی ضرورت ہے اور جب تک حکمرانان وقت اور معاشرے کے تمام طبقات اس حوالے سے یکسو نہیں ہوں گے۔ اہل کشمیر کو اپنی منزل نہیں مل سکتی۔ کشمیری رہنما یاسین ملک، میر واعظ ،سید علی گیلانی اور آسیہ اندرابی اپنے اپنے انداز میں تحریک آزادیٔ کشمیر کو منطقی انداز تک پہنچانے کے لیے مؤثر کردار ادا کررہے ہیں۔ لیکن ان کی اس جدوجہد کو داخلی اور خارجی سطح پر کامیاب کرنے کے لیے پاکستان کی بھر پور سیاسی اور اخلاقی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔ اہل کشمیر نے اپنی آزادی کا نعرہ صرف زبان سے نہیں لگایا بلکہ آزادی کی جدوجہد کے دوران کسی کے ہاتھوں میں ہتھکڑی ‘تو کسی کے قدموں میں بیڑیوں کو ڈالا گیا، معصوم بچوں کو لہو رنگ بنایا گیا، بہنوں، ماؤں اور بیٹیوں کی عزتوں کو تار تار کیا گیا، نوجوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اتارا گیا، برہان وانی اور اس جیسے کئی نوجوانوں کو خاک و خون میں تڑپایا گیا، بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو میں تربتر کر دیا گیا۔ ان بے مثال قربانیوں کے ذریعے اہل کشمیر نے اپنی جدوجہد کو سیاسی اور اخلاقی اعتبار سے جائز اور درست قرار دے دیا۔ اب ذمہ داری اہل پاکستان کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اہل کشمیر کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
حکمران رائے عامہ کے تیوروں کو دیکھتے ہوئے اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کو اس حوالے سے جس کردار کو ادا کرنے کی ضرورت ہے وہ کردار تاحال ادا نہیں کیا گیا۔ انڈیا کے سیاسی رہنما اور انڈین میڈیا اس حوالے سے یکسو ہو کر اہل کشمیر کو مغلوب اور غلامی کی زنجیر میں جکڑے رکھنا چاہتے ہیں جب کہ پاکستان میں حکومت، رائے عامہ، مذہبی اور سیاسی رہنماؤں اور قومی میڈیا کو ایک پیج پر آکر آزادی کشمیر کی بھرپور انداز میں تائید کرنے کی ضرورت ہے اور اس حوالے سے ملک کے طول وعرض میں ایک منظم اور مسلسل تحریک کو بپاکرنے کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستانی قوم نے تاریخ کے اس نازک مرحلے پر اہل کشمیر کا بھرپور انداز میں ساتھ دیا تو وہ دن دور نہیں جب اہل کشمیر اپنے حق خود ارادیت کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان سے ملحق ہوں گے اور ان پر غاصبانہ قبضے کو برقرار رکھنے کا ہندوستانی خواب چکنا چور ہو جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں