"AIZ" (space) message & send to 7575

معاشی استحکام

انسانوں کی اکثریت معاشی کشادگی اور خوشحالی کی متمنی ہے اور لوگوں کی اکثریت کی مصروفیات اور مستقبل کی خواہشات کا بہت زیادہ تعلق معاشی استحکام کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بہت سے لوگ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بہت زیادہ تگ و دو کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کو زندگی بھر وہ معاشی کشادگی حاصل نہیں ہوتی جس کے وہ متمنی ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل بہت سے لوگ خوشحالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ لوگ معاشی کشادگی کے لیے حرام اور ناجائز راستے کو اختیار کرنے سے بھی نہیں چوکتے۔ جبکہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا خوف ہوتا ہے‘ وہ اپنی خواہشات اور تمنائوں کے باوجود رزق حلال کی تلاش کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ حصولِ رزق کے حوالے سب سے پہلی بات جس کو ذہن نشیں کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ تمام مخلوقات کو رزق فراہم کرنے والی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیات اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں:
سورہ ہود کی آیت نمبر 6 میں ارشاد ہوا ''اور نہیں ہے کوئی چلنے والا (جاندار) زمین میں مگر اللہ ہی پر اس کا رزق ہے اور وہ جانتا ہے اس کے قرار کی جگہ اور اس کے سونپے جانے کی جگہ‘‘۔ سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 17 میں ارشاد ہوا ''بے شک جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے سوا نہیں ہیں وہ مالک تمہارے لیے کسی رزق کے سو تم تلاش کرو اللہ کے ہاں ہی رزق کو اور عبادت کرو اسی کی اور شکر کرو اسی کا‘‘۔ سورہ ذاریات کی آیت نمبر 22 میں ارشاد ہوا ''اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور وہ بھی جس کا تم وعدہ دیئے جاتے ہو‘‘۔
آیات مذکورہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کو اپنے رزق کا مالک صرف اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن وسنت کی تعلیمات پر غور و خوض کرنے کے بعد یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ بہت سی ایسی تدابیر ہیں جن کو اختیار کرکے انسان کے رزق میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
1۔ دعا: دعا مومن کا ہتھیار ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں اس امر کا اعلان فرمایا ''اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں، تو بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے‘‘۔
جب اللہ تبارک وتعالیٰ سے انسان اپنے لیے کسی بھی بھلائی کو طلب کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو وہ بھلائی عطا فرما دیتے ہیں چنانچہ رزق کے بارے میں بھی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگو رہنا چاہیے۔ دعا کرنے سے انسان کے رزق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ابراہیم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کا ذکر کیا جس میں انہوں نے اپنی اولاد کے ایک حصے یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرنے اور ان کے لیے پھلوں کے ذریعے رزق کی دعا مانگی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 37 میں یوں بیان فرماتے ہیں ''اے ہمارے رب! بے شک میں نے آباد کیا ہے اپنی اولاد کو ایک (ایسی) وادی میں (جو) نہیں ہے کسی کھیتی والی‘ تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔ اے ہمارے رب! تاکہ وہ قائم کریں نماز تو کردے لوگوں میں سے (کچھ کے) دلوں کو (کہ) وہ مائل ہوں ان کی طرف اور رزق دے انہیں پھلوں سے تاکہ وہ شکر ادا کریں‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کو قبول منظور فرما کر حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کو پھلوں سے رزق دیا۔ جو شخص حج یا عمرے کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ جاتا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے ہوئے دیکھ سکتا ہے کہ کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے آج کے دن تک وادی بے آب وگیاہ میں دنیا کے ہر پھل کو پہنچا دیا۔
2۔ توبہ و استغفار: قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ انسان کی زندگی میں آنے والی تکالیف بالعموم ان کے گناہوں کی وجہ سے ہوتی ہیں چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ روم کی آیت نمبر 50 میں ارشاد فرماتے ہیں ''خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہو گیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے، تاکہ (اللہ) مزہ چکھائے انہیں بعض (اس کا) جو انہوں نے عمل کیا تاکہ وہ رجوع کریں‘‘۔ اسی طرح سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں''اور جو تمہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ اسی کی وجہ سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ الٓم سجدہ کی آیت نمبر 21 میں ارشاد فرمایا ''اور بلاشبہ ہم ضرور چکھائیں گے انہیں قریب ترین عذاب سے، سب سے بڑے عذاب سے پہلے، تاکہ وہ پلٹ آئیں‘‘۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ گناہ گاروں کو ان کی سیئات کی مناسبت سے مختلف طرح کی تکالیف میں مبتلا کرتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آنے والی اس طرح کی تکالیف کے بعد انسان کو توبہ، استغفار کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اگر انسان توبہ استغفار کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی خطائوں کو معاف کر کے اس پر اپنی عطائوں اور رزق کا نزول فرما دیتے ہیں۔ سورہ نوح میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کے اس قول کا ذکر کیاکہ بخشش مانگو اپنے رب سے، بے شک وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ بھیجے گا تم پر بارش موسلا دھار اور مدد کرے گا تمہاری مالوں اور بیٹوں کے ساتھ اور وہ کر دے گا تمہارے لیے باغات اور نہریں۔ 
3 ۔گناہوں سے اجتناب: جس طرح قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ انسانوں کی تکالیف اور پریشانیوں کا ایک بڑا سبب ان کی بداعمالیاں ہیں اور ان بداعمالیوں کو توبہ استغفار کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے اسی طرح بد اعمالیوں کے اثرات تقویٰ اور گناہوں سے اجتناب سے بھی دور ہوتے ہیں۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2 اور3 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو اختیا ر کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا تقویٰ (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے نکلنے کا راستہ اور وہ رزق دیتا ہے اسے وہاں سے جہاں وہ گمان بھی نہیں کرتا‘‘۔
4۔نکاح: انسانوں پر آنے والی رزق کی تنگیاں کئی مرتبہ پاکدامنی کے جذبے کے تحت نکاح کرنے سے بھی دور ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتے ہیں ''اور نکاح کرو بے نکاح (مردوں اور عورتوں کا) اپنے میں سے اور (ان کا جو) نیک ہیں تمہارے غلاموں میں سے اور تمہار ی لونڈیوں (میں سے) اگر وہ ہوں گے محتاج (تو) غنی کر دے گا انہیں اللہ اپنے فضل سے اور اللہ (بڑا) وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ اسی طرح مسند بزاز کی ایک حدیث میں بھی مذکور ہے کہ عورتوں سے نکاح کرو وہ تمہارے لیے رزق کو لے کر آئیں گی۔
5۔ شکر: سورہ نحل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک بستی کا ذکر کیا جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے امن اور رزق کی نعمتوں سے نوازا تھا۔ انہوں نے ناشکری کی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کے عذاب کو مسلط کر دیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرنے سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ انسانوں پر بھوک کو مسلط فرماتے ہیں۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی شکر گزاری کا راستہ اختیار کرتا ہے‘ جس کے تین درجے ہیں: پہلا درجہ دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کااقرار کرنا۔ دوسرا درجہ زبان سے الحمدللہ کہنا۔ تیسرا درجہ نعمتوں کو ویسے استعما ل کرنا جیسے استعمال کرنے کا حکم ہے، تو اللہ تبارک وتعالیٰ اپنی نعمتوں کو بڑھا دیتے ہیں۔ چنانچہ سورہ ابراہیم کی آیت نمبر 7 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: اور جب آگاہ کر دیا تمہارے رب نے یقینا اگر تم شکر کرو گے (تو) بلاشبہ ضرور میں تمہیں زیادہ دوں گا‘‘۔
6۔ انفاق فی سبیل للہ: قرآن مجید کے مطابق اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنا مال خرچ کرنے سے انسان کے خوف اور غم دور ہوتے ہیں اسی طرح جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں اپنے مال کو خرچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے انفاق کے بدلے اسے مال بھی عطا فرماتے ہیں۔ چنانچہ سورہ سباء کی آیت نمبر 39 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: اور جو تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہو کوئی چیز تو وہ عوض دیتا ہے اس کا (یعنی اس کی جگہ اور دیتا ہے) اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
7۔ ہجرت: سورہ نساء کی آیت نمبر 100میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور جو ہجرت کرے گا اللہ کی راہ میں وہ پائے گا زمین میں ٹھکانے بہت زیادہ اور کشادگی (بھی) اور جو نکلے گا اپنے گھر سے ہجرت کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پھر آ لیا اسے موت نے تو یقینا واقع (ثابت ) ہوگیا اس کا اجر اللہ کے ذمے اور ہے اللہ معاف کرنے والا، بہت مہربان‘‘۔
8۔اللہ تعالیٰ کی کتابوں اور قوانین کا قیام: اللہ تبارک وتعالیٰ نے تورات، انجیل اور اس کے بعد کلام حمید کے قیام کے حوالے سے سورہ مائدہ کی آیت نمبر 66 میں اس بات کی نوید سنائی ''اور اگر بے شک وہ قائم رکھتے تورات اور انجیل کو اور جو نازل کیا گیا ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے ضرور وہ کھاتے (اللہ کا رزق) اپنے اوپر سے اور اپنے پائوں کے نیچے سے‘‘۔
9۔حج وعمرہ: پے درپے حج وعمرہ کرنے سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ رزق میں اضافہ فرماتے ہیں۔
جوشخص دنیا میں اپنی معیشت کا استحکام چاہتا ہے اسے کاروبار میں بھی محنت کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ قرآن وسنت میں جو رزق کے اسباب بیان کیے گئے ہیں ان پر بھی عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے رزق میں اضافہ فرمائے۔ آمین! 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں