10 فروری کے روز منڈی عثمان والا ضلع قصور میںمیرے دوستوں اور ساتھیوں نے ضلع کی سطح پر بیت المقدس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا‘ جس میں میرے ساتھیوں کے علاوہ دیگر جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ منڈی عثمان والا میں ہونے والے اس جلسے کا انعقاد سہ پہر تین بجے ہونا تھا۔ لیکن صبح دس بجے مجھ سے ضلع قصور کے ساتھیوں نے رابطہ کیا‘ ان کا کہنا تھا کہ منڈی عثمان والا میں ہونے والے جلسے سے قبل مجھے گہلن میں ایک قریبی بزرگ ساتھی کی نماز جنازہ پڑھانا ہو گی۔ چنانچہ منڈی عثمان والا کے جلسے میں شرکت سے قبل مجھے اس نماز جنازہ میں شرکت کے لیے قبل ازوقت روانہ ہونا پڑا۔ اہل علاقے نے اپنے رخصت ہو جانے والے بزرگ کے ساتھ وابستگی کے اظہار کے لیے بڑی تعداد میں نماز جنازہ میں شرکت کی۔مجھے اپنی زندگی میں جنازوں اور نکاح کی بہت سی تقریبات میں شرکت کا موقع ملا۔ فروری میں بھی بعض انتہائی قریبی اعزاء واقارب اور رفقاء کی نکاح کی تقریبات میں شرکت کاموقع ملا، جہاں لوگ خوشی اور مسرت کے ساتھ شریک تھے اور اب مجھے گہلن میں نماز جنازہ پڑھانے کا موقع مل رہا تھا۔جہاں بڑی تعداد میں لوگوں کے غمگین چہرے نظر آ رہے تھے۔خوشی اور غم کے ان مواقعو ں کو دیکھ کر اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ زمین کے کسی مقام پر لوگ دکھی ہوتے ہیں توکسی مقام پر خوشیاں منائی جا رہی ہوتی ہیں۔ کہیں پر کسی کی بچے کی ولادت اور شادی کی تقریب میں اعزاء واقارب خوشی اور مسرت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں‘تو کسی جنازے کی تقریب میں لوگ قریبی عزیز کی جدائی کے سبب غم، دکھ اور کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ایسے عالم میں انسان کو ٹھنڈے دل سے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ انسان کی حقیقی کامیابی کس چیز میں پنہاں ہے۔
جب انسان سنجیدگی سے اس حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ انسان فانی ہے اور اگر ہم زندگی پر غور کریں تو ہمارے وہ آبائو اجداد جو آج سے سو ، ڈیڑھ سو سال قبل زمین پر آباد تھے اب ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔ ہمارے خاندان کے کئی بزرگوں کا انتقال ہو چکا ہے اور محبت کرنے والے بہت سے اعزاء واقارب ہم سے رخصت ہو چکے ہیں۔ ایام طفولیت میں جن بزرگوں کی محبت اور شفقت ہم کو حاصل رہی ان میں سے بہت سے دنیا سے جا چکے ہیں۔ گویا کہ ناپائیداری اور فنا ہر انسان کا مقدر ہے۔ دنیا میں آباد ہونے والے بہت سے نیک اور صالح لوگ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے نافرمان بھی دنیا سے جا چکے ہیں۔ ہر شخص کو موت کا مزہ چکھنا پڑے گا اور اس سے فرار کی کوئی صورت بھی ممکن نہیں۔
قرآن وسنت اور تاریخ کا مطالعہ اس اہم حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ حقیقی کامیابی کن لوگوں کو حاصل ہوئی۔ زمین پر فرعون ایک عرصے تک حکومت کرتا رہا اور اس کی حکومت کی مطلق العنانیت کا عالم یہ تھا کہ وہ معاذ اللہ خود اپنے آپ کو رب اور پروردگار سمجھنا شروع ہو چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیتا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیتا۔ ان پر عرصہ دراز تک ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا رہا۔ بالآخر اسے فنا کے گھاٹ اترنا پڑا۔ قارون بہت بڑا سرمایہ دار تھا اور اس کو اللہ نے اتنا سرمایہ اور مال کی فراوانی عطا کی تھی کہ اس کا خزانہ تو خزانہ رہا خزانے کی چابیوں کو اُٹھانے کے لیے انسانوں کی ایک بڑی جمعیت کی ضرورت ہوتی تھی۔دنیا دار لوگ کئی مرتبہ اس کے مال کے حصول کی تمنا کیا کرتے لیکن بستی کے اہل علم ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ثواب کی اہمیت کا احساس دلاتے۔اور قارون کو نصیحت کرتے کہ لوگوں کے ساتھ احسان کرو جس طرح اللہ نے تمہارے اوپر احسان کیا اور زمین پر فساد نہ کرو۔ لیکن قارون اہل علم کی نصیحتوں اور تلقین کو چنداں خاطر میں نہ لاتا اور اپنے مال اور سرمائے کو اپنے علم اور صلاحیت کا نتیجہ قرار دیتا۔ قارون زمین پر اللہ کی بغاوت اور نافرمانی پر اصرار کرتا رہا۔ ایک دن وہ اپنے خزانے سمیت زمین پر نکلا۔ دنیا طلب لوگ اس کی ہیبت وحشمت کو دیکھ کر انتہائی مرعوب ہوئے ۔اللہ نے متکبر قارون کو اس کے گھر سمیت زمین میں دھنسا دیا۔ ایسے عالم میں بستی کے دنیا طلب لوگ اللہ سے پناہ طلب کرنے لگے اور یہ بات کہنے لگے کہ اگر اللہ نے ہم پراحسان نہ کیا ہوتا تو ہم بھی زمین مین دھنس چکے ہوتے۔
سورہ کہف میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک متکبر اور بے دین جاگیر دار کا ذکر کیا ۔ جس کا ہمسایہ بھی خوشحال تھا لیکن مالی اور عددی اعتبار سے اس جیسا نہیں تھا لیکن اللہ نے اُس کو دین کا فہم وشعور عطا کیا اور ایمان کی نعمت سے نوازا تھا۔ متکبر جاگیر دار اپنے دین دار ہمسائے کو مخاطب ہو کر یہ بات کہا کرتا تھا کہ میرا گمان ہے کہ قیامت قائم ہی نہیں ہو گی اور اگر مجھے اپنے رب کی طرف پلٹنا بھی پڑا تو اس سے زیادہ نعمتیں مجھے حاصل ہو جائیں گی۔ دین دار شخص اپنے متکبر ہمسائے کو مخاطب ہو کر یہ بات کہتا تھا کہ جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوا کر تو ماشاء اللہ لا قوۃ الاباللہ پڑھا کر ۔ وہ اسے یہ بھی کہتا گو میرے پاس تیرے مقابلے میں مال اور اولاد کی کمی ہے لیکن قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے تیرے باغ سے بہتر باغ عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دن متکبر شخص کے باغ کو تباہ وبرباد کرکے متکبر جاگیر دار اور بعد میں آنے والوں پر اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ دنیا کی ہیبت وحشمت پر اترانے والوں کو دنیا میں دوام حاصل نہیں ہو سکتا۔
ابولہب مکہ کا چوہدری اور سردار تھا اور اس کے پاس مال ودولت کی فراوانی تھی۔ نبی کریمﷺ کا چچا ہونے کے باوجود وہ آپ کی مخالفت اور عداوت پرتلا رہا ۔ اُس کی بیوی اِس معاملے میں اس کا ساتھ دیتی رہی اوروہ بھی دین اسلام کی مخالفت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی ﷺکی شان اقدس میں بے ادبی کرنے والے کے بارے میں اللہ نے قرآن مجید میں ایک مستقل سورت کا نزول فرما کر اس بات کا اہتمام کر دیاکہ رہتی دنیا تک جب تک قرآن کا ایک بھی قاری زندہ ہے ابولہب کا تذکرہ منفی انداز میں ہوتا رہے گا۔ قرآن وسنت کے مطالعے نے ہمیں یہ بات بھی سمجھائی کہ فرعون کی اہلیہ سیدہ آسیہ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے فرعون کے انعامات اور محلات کو ٹھکرا دیااور اللہ سے دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار! میرے لیے جنت میں اپنے پاس ایک گھر بنا دیجئے اور مجھے فرعون اور اس کے عمل اور ظالموں کی قوم سے نجات دے دیجئے۔ اللہ نے سیدہ آسیہ کے عقیدے اور عمل صالح کو مقبول فرما کر رہتی دنیا تک ان کے ذکر خیر کو باقی رکھ دیا۔ سورہ بروج میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اصحاب الاخدود کا تذکرہ کیا جنہیں توحید باری تعالیٰ سے والہانہ محبت کی وجہ سے ظلم وستم کا نشانہ بننا پڑا۔ اور ان کو آگ کی خندقوں میں پھینک کر جلا دیا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بروج میں ان کے تذکروں کو نقل فرما دیا اور رہتی دنیا تک ان کی یادوں کو امر کر دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ غریب الدیار، مفلوک الحال اور پردیسی انسان تھے لیکن دین سے محبت تھی۔ اللہ کی توحید کی وجہ سے ظلم وستم کو سہتے رہے۔ نبی کریمﷺ نے معراج کی رات جنت میں ان کے جوتوں کی آہٹ کو سنا اور واپس آکر یہ بات فرمائی کہ جنت میں ان کے قدموں کی چاپ سنائی دے رہی تھی۔ حضرت بلا ل ؓکے ساتھ سیدہ سمیہؓ، سیدہ زنیرہؓ سیدنا خبابؓ جیسے لوگ زمین پر ظلم وستم سہنے کے باوجود ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔
کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کل قیامت کے روز نا فرمان انسان کی شہرت، عہدہ ،مال اور منصب اس کے کسی کام نہیں آئے گا ۔ ہاں البتہ جن لوگوں نے اپنے عہدے اور سرمائے کو اللہ کی خوشنودی کے لیے استعمال کیاہو گا ان کو اس کار خیر کا پورا بدلہ حاصل ہو گا۔حقیقی فلاح اور کامیابی اس دن عمل صالح اور اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزارنے والوں کو حاصل ہوگی۔ انسان کی کوتاہ بینی یہ ہے کہ وہ ظاہری عروج کو دیکھ کر اتنا متاثر ہوتا ہے کہ راہ عمل کو چھوڑ کر دنیا داری کے پیچھے پڑھ جاتا ہے۔ لیکن صاحب بصیرت اور صاحب عقل لوگ دنیا وی عروج سے متاثر ہونے کی بجائے ایمان اور عمل صالح پر استقامت اختیار کرکے اللہ کی خوشنودی کو حاصل کرکے مقصد زندگی کو پا لیتے ہیں اور حقیقی کامیابیوں کو سمیٹنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔