"AIZ" (space) message & send to 7575

توازن اور اعتدال

ہمارا معاشرہ اس وقت عدم توازن کا شکار ہے۔ معاشرے کے بہت سے لوگ کامیاب انسان اس کو سمجھتے ہیںجو دوسرے انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتا اور ان کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشش کرتا ہے۔ اس کے مدمقابل بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو حقوق اللہ کی ادائیگی کو تو اتنی اہمیت دیتے ہیںلیکن حقوق العبادکے حوالے سے اسلامی تعلیمات کو اجاگر نہیں کرتے۔ قرآن وسنت کا پیغام اس حوالے سے بالکل واضح ہے۔ قرآن وحدیث میں جہاںپر اللہ کے حقوق کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے وہیں پر حقوق العباد کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی طرح جہاں پر انسانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تلقین کی گئی ہے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا بھی پیغام دیا گیا ہے۔ قرآن وسنت کے اس پیغام میں افراط و تفریط کرنا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔ متوازن راستہ یہی ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں جو قرآن وحدیث میں بیان گیا ہے اور اسی کو حرف آخر سمجھیں۔ کامیاب اور مثالی انسان اسی شخص کو قرار دیا جا سکتا ہے جو ان تمام احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرے جو کتاب وسنت میں بیان کیے گئے ہیں۔ نبی کریم ﷺ تمام مسلمانوں اور اسی طرح انصاف پسند غیر مسلموںکی نظر میں دنیا کے کامیاب ترین انسان ہیں۔جب ہم ان کی حیات مبارکہ پر غور کرتے ہیں تو یہ بات باآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے ابلاغ اور اس کی بندگی کو بجا لانے کے لیے بھی بھرپور جستجو کی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے انسانوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کا بہترین انداز میں درس دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ﷺہی کی ذات کو اسوہ ٔ کامل قرار دے دیا۔ متواز ن زندگی گزارنے کے لیے ہمیں آپ کے اسوہ پر چلنا ہوگا۔ 
قرآن مجید کے مختلف مقامات کا مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی اہمیت کو بیک وقت اجاگر کرتے ہیں۔ قارئین کے سامنے اس حوالے سے قرآن مجید کے چند مقامات کو رکھنا چاہتا ہوں: 
سورہ بقرہ کی آیت نمبر 83 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں''اور جب ہم نے نبی اسرائیل سے پختہ عہد لیا (کہ) تم عبادت نہیں کر و گے مگر اللہ کی اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں اور یتیموںاور مساکین سے (بھی) اور لوگوں سے اچھی بات کہنا اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا پھر تم پھر گئے (اپنے قول سے) مگر تھوڑے سے تم میں سے (جو اپنے قول پر قائم رہے) اور تم ہو ہی پھر جانے والے۔ ‘‘سورہ نساء کی آیت نمبر 36 میں ارشاد ہوا''اور تم عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اور نہ تم شریک بناؤ اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت والوں اور یتیموں کے ساتھ اور مسکینوںاور قرابت والے (رشتے دار) ہمسائے اور اجنبی ہمسائے اور پہلو کے ساتھی اور مسافر اور جس کے مالک بنے ہیں تمہارے داہنے ہاتھ (ان سب کے ساتھ حسن سلوک کرو) بے شک اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا جو ہو مغرور فخر کرنے والا۔ ‘‘سورہ فرقان کی آیت نمبر68، 69 میں ارشاد ہوا ''اور وہ لوگ جو نہیں پکارتے اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو اور نہ وہ قتل کرتے ہیں اس جان کو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ (کام) کرے گا وہ ملے گا سخت گناہ (کی سزا) کو۔ دگنا کیا جائے گا اس کے لیے عذاب قیامت کے دن اور وہ ہمیشہ رہے گا اس میں ذلیل ہو کر۔‘‘ 
سورہ بنی اسرائیل کی مختلف آیات پر غوروخوض کرنے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس سورت میں اپنی بندگی کو بجالانے کے ساتھ ساتھ حقوق العباد اور اچھے اخلاق کے حوالے سے بھی بہت سی قیمتی نصیحتیں کی ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر23 اور 24 میں ارشاد ہوا:''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو مگر صرف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) ۔اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحم دلی سے اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے پچپن میں۔‘‘
اسی طرح سورہ بنی اسرائیل ہی کی آیت 31 سے37تک میں ارشاد ہوا: ''اور تم مت قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی رزق دیتے ہیںانہیں اور تمہیں بھی ، بے شک ان کا قتل گناہ ہے بہت بڑا۔ اور تم مت قریب جاؤ زنا کے بے شک وہ بے حیائی اور برا رستہ ہے۔ اور مت قتل کرو اس جان کو جسے حرام کر دیا اللہ نے مگر حق کے ساتھ اور جو قتل کیا گیا مظلومی کی حالت میں تو یقینا ہم نے کر دیا ہے اس کے ولی کے لیے غلبہ تو وہ زیادتی نہ کرے قتل کرنے میں بے شک وہ مدد دیا ہوا ہے۔ اور مت قریب جاؤ یتیم کے مال کے مگر (اس طریقے) سے جو بہت ہی بہتر ہو یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اور پورا کرو(اپنے ) عہد کو بے شک عہد (کے بارے میں) باز پرس ہو گی۔ اور تم پورا کرو ماپ کو جب تم ماپو اور تم وزن کرو سیدھے ترازو کے ساتھ یہی بہتر ہے اور بہت اچھا ہے انجام کے لحاظ سے ۔ اور نہ آپ پیچھا کریں (اس کا) جو نہیں ہے آپ کو اس کا کوئی علم، بے شک کان اور آنکھ اور دل میں سے ہر ایک سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ اور مت چل زمین میں اکڑ کر ، بے شک توہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں (کی چوٹی) تک لمبا ہو کر۔ ‘‘
سورت لقمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حکیم لقمان کا ذکر کیاجنہوں نے اپنے بیٹے کو سونے کے پانی سے لکھے جانے والی نصیحتیں فرمائیں ۔ سورت لقمان میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت لقمانؑ کے ارشادات کوبیان فرمایاکہ ''اور ـجب کہ لقمان نے وعظ کرتے ہوئے اپنے بیٹے سے فرمایا، میرے بیٹے اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنابے شک شرک بہت بھاری ظلم ہے‘‘۔ اس کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ نے والدین کے حقوق کا احساس دلایااورفرمایاکہ '' ہم نے انسان کواس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کراسے حمل میں رکھااور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تم میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کرو( تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آناہے۔اور اگر وہ دونوں تجھ پر اس بات کا دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شریک کر جس کا تجھے علم نہ ہو تو ان کا کہنا نہ ماننا، ہاں دنیا میں ا ن کے ساتھ اچھی طرح گزر بسر کرنا اور اس کی پیروی کرناجو میری طرف جھکا ہو ، تمہارا سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے ، تم جو کچھ کرتے ہو اس سے پھر میں تمہیں خبردار کر دوں گا‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے علم سے بھی آگاہ کیا کہ انسان جو کچھ بھی کر رہاہوتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو پوری طرح دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اس سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں ۔
جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو کہا ''میرے بیٹے اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہوپھر وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہویا زمین میں ہواسے اللہ تعالیٰ ضرور (سامنے)لائے گا، اللہ تعالیٰ بڑا باریک بین اور خبردار ہے‘‘۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت سے اچھے کاموں پر مداومت اختیار کرنے کی بھی تلقین کی ۔ آپ نے ارشاد فرمایا''اے میرے بیٹے تُو نماز قائم کرنا ، اچھے کاموںکی نصیحت کرتے رہنا ، برے کاموں سے منع کیاکرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنایہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے ۔جب ہم ان تمام امور پر غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت لقمان ؑنے اپنے بیٹے کو ان کاموں کی تلقین کی جو انسان کی دنیا وآخرت کو سنوارنے والے ہیں۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو بعض ایسی ہدایات بھی کیں جو معاشرتی اعتبار سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں ۔حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلااور زمین پر اترا کر نہ چل کسی تکبر کرنے والے شیخی خورے کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ اپنی رفتار میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز کو پست کر یقینا آوازوں میں سے سب سے بدتر آوازگدھوں کی آواز ہے‘‘ ۔ حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو تواضع اختیار کرنے کا حکم دیااورشیخی ، غرور اور تکبر سے بچنے کی تلقین کی ۔حضرت لقمانؑ کی بیش بہا نصیحتیں ہمارے لیے ایک مثال ہیں کہ ہمیں اپنی اولاد کو کن امور کی تلقین کرنی چاہئے ۔
ان تمام آیات پر غوروغوض کرنے کے بعدیہ بات بالکل واضح ہو کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت، اس کی بندگی اور اس کے حقوق کی ادائیگی ہمارے لیے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اسی طرح بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے کوشش کرنا بھی ہمارے لیے انتہائی اہم ہے۔ 
چنانچہ کامیاب انسان وہی ہو سکتا ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کو بیک وقت ادا کرنے کی کوشش کرے۔ اس مسئلے میں افراط وتفریط کا مظاہرہ کرکے ہم اللہ تبارک تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ ﷺکے فرامین پر کماحقہ عمل پیرا نہیں ہو سکتے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں