والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ جہاں اپنے عہد کے ایک بڑے عالم تھے‘ وہیں پر انہوں نے بھرپور تنظیمی اور تحریکی زندگی گزاری اور اہل حدیث مکتبِ فکر کی تنظیم سازی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ انہوں نے بہت سی ملی اور قومی تحریکوں میں حصہ لیا۔ مکتبِ اہل حدیث کی نمائندگی کے ساتھ ساتھ تمام مکاتبِ فکر کی ہمراہی میں وہ امت کے اجتماعی مفاد کے لیے بھی کمر بستہ رہے۔ آپ نے تحریکِ ختم نبوتﷺ میں نمایاں کردار ادا کیا‘ تحریک کے دوران مختلف مقامات پر ہونے والے بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کرتے رہے۔ آپ نے ختم نبوت کے حوالے سے عربی زبان میں ''القادیانیہ‘‘ کے نام سے ایک مفصل کتاب بھی تحریر کی۔ جسے دنیا بھر میں بہت زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے ختم نبوت کا انکار کرنے والے دو گروہوں کے رد میں البابیہ اور البہایہ کو بھی تحریر کیا۔ تحریک نظام مصطفیﷺ میں آپ نے ملک کے سیاسی و مذہبی مکاتبِ فکر کی ہمراہی میں نمایاں کردار ادا کیا اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دورِ اقتدار میں اسلامی شعائر اور اسلامی نظام کی اہمیت کو اجاگرکرنے کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کرتے رہے۔ آپ اسلام پسند ہونے کے ساتھ ساتھ ایک جمہوریت پسند رہنما بھی تھے۔ آپ نے ساری زندگی آمریت کو قبول نہ کیا اور مارشل لا کو آئینِ پاکستان سے متصادم سمجھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں حکومت وقت پر کڑی تنقید کرتے رہے۔ آپ آئین کے معطل ہونے کو کسی بھی طور پر قومی مفاد میں نہ سمجھتے تھے چنانچہ آپ بحالی آئین کے لیے آخری وقت تک کوشاں رہے۔ آپ نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک اسلام اور جمہوریت سے وابستگی کو برقرار رکھا۔ آپ اپنی خطیبانہ اور قلمی صلاحیتوں کی وجہ سے علمی حلقوں میں ممتاز مقام رکھتے تھے اور عرب ممالک کے علمی حلقوں کے ساتھ ساتھ عرب حکمران بالخصوص سعودی عرب اور عراق میں آپ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ انسانی حقوق کے بھی ایک بڑے علمبردار تھے اور ملک کے کسی بھی کنارے پر اگر کہیں ظلم ہوتا تو آپ مظلوموں کی حمایت میں آواز کو اُٹھایا کرتے تھے۔
23 مارچ 1987ء کو جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زیر اہتمام راوی روڈ ہونے والی ایک سیرت النبیﷺ کانفرنس میں آپ کے جلسے میں ایک بم دھماکہ ہوا اور آپ کو علاج کے لیے ریاض کے ملٹری ہسپتال میں منتقل کیا گیا لیکن آپ 30 مارچ کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرما گئے اور آپ کو مدینہ طیبہ کے قبرستان جنۃ البقیع میں دفن کیا گیا۔
آپ اپنی روانگی سے قبل پروفیسر ساجد میر صاحب کو جماعت کا قائم مقام ناظم اعلیٰ مقرر کر گئے جو بعد ازاں مستقل ناظم اعلیٰ اور پھر جماعت کے امیر بن گئے۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کی شہادت کے وقت میری عمر فقط پندرہ برس تھی۔ میں ایک عرصے تک اپنی تعلیم میں مصروف رہا اور حفظ قرآن، علوم اسلامیہ کی تحصیل کے ساتھ ساتھ عصری علوم کے حوالے سے بھی اپنے ذوق و شوق کی تکمیل میں مصروف رہا۔ میں نے تنظیمی زندگی میں ابتدائی طور پر پروفیسر ساجد میر صاحب کے ہمراہ کچھ وقت گزارا۔ پروفیسر ساجد میر صاحب دھیمی طبیعت کے مالک ہیں جبکہ میری طبیعت میں جوش و خروش تھا اور میں چاہتا تھا کہ جماعت اسی طرح پرجوش انداز میں کام کرے جس طرح علامہ احسان الٰہی ظہیر کے عہد میں کرتی تھی لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخصیت کا اپنا اپنا مزاج، اپنا اپنا رنگ اور اپنا اپنا انداز ہوتا ہے اور ہر لیڈر معروضی حالات میں ایک حکمت عملی کو وضع کرکے اپنے اہداف کا تعین کرتا ہے۔ جمہوریت پسند ہونے کے باوجود والد گرامی اپنی زندگی کا زیادہ حصہ مذہبی تحریک چلانے میں مصروف رہے جبکہ پروفیسر ساجد میر صاحب نے اپنے سیاسی کیرئیر میں ابتدا ہی میں مسلم لیگ نون کی رفاقت کو اختیار کیا۔ میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ تادیر نہ چل سکا اور 2004ء میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے نام سے اپنے رفقاء کی تنظیم سازی کرنے کی کوشش شروع کر دی۔
علامہ احسان الٰہی ظہیر سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ میری اس تنظیم سے منسلک ہوتے چلے گئے اور بعد ازاں میرے مذہبی اور تحریکی ذوق کے سبب بھی بہت سے لوگ جمعیت اہل حدیث میں شامل ہو گئے۔ میں نے جمعیت اہل حدیث کے پلیٹ فارم سے 14 برس تک جدوجہد کی اور جہاں پر بھی کوئی ایسا معاملہ دیکھا جس سے نظریہ پاکستان یا اسلام کی عظمت پر زدّ پڑتی ہو میں اس حوالے سے اپنی آواز کو اجاگر کرتا رہا۔ ملی یکجہتی کونسل اور دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر مجھ سے جس حد تک ممکن ہوا‘ میں نے اپنی بساط کے مطابق جدوجہد کو جاری رکھا۔ تنظیمی اعتبار سے میں اور پروفیسر ساجد میر صاحب الگ الگ جہتوں میں سفر کر رہے تھے لیکن وہ لوگ جو ملک میں ہم مسلک جماعتوں کا اتحاد اور مذہبی جماعتوں کا اتحاد اور مذہبی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر دیکھنے متمنی ہیں‘ ان کی ایک عرصے تک یہ خواہش اور کاوش رہی کہ میں اور پروفیسر ساجد میر صاحب ابتدائی طور پر مسلکی سطح پر متحد ہو جائیں اور بعد ازاں ملک میں قرآن وسنت کے نفاذ کے لیے سیاسی جدوجہد کے حوالے سے باقی تحریکوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلیں۔ اس حوالے سے مرحوم قاضی حسین احمد نے بھی ہمارے اتحاد کے لیے کوششیں کیں اور بعد ازاں برادر لیاقت بلوچ بھی مختلف ادوار میں اس حوالے سے جذبات کا اظہار کرتے رہے۔ ترکی کے ایک سفر کے دوران برادر لیاقت بلوچ نے اس جذبے کا اظہار کیا کہ اگر ہم باہم متحد ہو کر دینی جماعتوں کے کندھے سے کندھا ملاتے ہیں تو اس سے ملک کی مذہبی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن جو اللہ کو منظور ہوتا ہے وہی ہوتا ہے۔ صلح کی ان کوششوں اور خواہشوں کے باوجود ہم ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہو سکے۔
حالیہ دنوں میں بعض ممتاز اور نمایاں عالم دین جن میں شیخ الحدیث حافظ شریف، حافظ مسعود عالم، قاری صہیب میر محمدی اور مولانا ارشاد الحق اثری شامل ہیں‘ نے ملکی اور بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے ایک مرتبہ پھر اس تمنا کا اظہار کیا تو میں نے محسوس کیا کہ شاید ہمارے زاویۂ نگاہ میں پائے جانے والے اختلافات مستقبل میں یکسوئی کے راستے میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ ہم سیاسی حوالے سے مختلف زوایۂ نگاہ کے حامل ہیں اس لیے مستقبل کے حوالے تشویش کا شکار تھا لیکن جید علمائے کرام نے ہمیں قریب کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور فریقین کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ سیاسی اعتبار سے مختلف سوچ رکھنے والے لوگ بھی مذہب اور ملت کی خدمت کے لیے یکجا ہو سکتے ہیں۔ بالخصوص جبکہ مذہبی اور مسلکی حوالوں سے کئی اقدار مشترک ہوں انہوں نے اس امر کا بھی اظہار کیا کہ آنے والے دنوں میں اس اتحاد کے نتیجے میں وسعت پیدا ہو گی اور تبلیغ دین اور اقامت دین کے لیے جدوجہد کی نئی راہیں ہموار ہوں گی۔
بزرگوں کی اس کوشش کے پیش نظر میں نے 14سال تک جس جماعت کی تنظیم سازی کے لیے مسلسل جدوجہد کی تھی اور جس کی امارت ممتاز شیخ الحدیث مفتی عبیداللہ خاں عفیف جیسے جید عالم دین کے پاس تھی‘ اس تنظیم کو میں ابتدائی طور پر مسلک اور بعد ازاں مذہبی جماعتوں کے ایک ہمہ گیر اتحاد کو ذہن میں رکھتے مرکزی جمعیت اہل حدیث کے ساتھ متحد کرنے پر آمادہ ہو گیا اور میں نے اپنے رفقاء کی ہمراہی میں اسی ٹائٹل کے تحت کام کرنے کا ارادہ کر لیا۔ اب جبکہ یہ اتحاد معرض وجود میں آ چکا ہے تو میں توقع کرتا ہوں کہ مرکزی جمعیت کے پلیٹ فارم سے دین اور شعائر اسلام کی پاسداری کے لیے پہلے کی طرح اپنا کردار ادا کرتا رہوں گا اور پلیٹ فارم کی وسعت کے ساتھ اقامت دین کے عزم کو تقویت بھی حاصل ہو گی اور باقی دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے مؤثر جدوجہد بھی کی جائے گی۔