8 مارچ کو خواتین کے حقوق کا عالمی دن منایا گیا۔ مغربی ممالک میں مختلف حوالوں سے مختلف ایام کو منانے کا عام رجحان ہے۔ چنانچہ فادرز ڈے، مدرز ڈے، خواتین کے حقوق کا دن، مزدوروں کے حقوق کا دن، ویلنٹائنز ڈے، نیو ائیر اور اس طرح مختلف مواقع پر بہت سے ایام منا کر وہ مختلف حوالوں سے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ مسلمان معاشرے میں حقوق و فرائض کو کسی مخصوص دن کے ساتھ منسوب کرنے کی بجائے پوری زندگی حقوق کی ادائیگی اور فرائض منصبی کی بجا آوری کی رغبت دلائی جاتی ہے؛ چنانچہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ کلامِ حمید اور سنت نبوی شریفﷺ میں حقوق العباد کے حوالے سے مفصل اور مبسوط رہنمائی ملتی ہے۔ قرآن مجید اور نبی کریمﷺ کے فرامین مبارک پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے قرآن و سنت کا پیغام بالکل واضح ہے۔
اسلام سے قبل عورت کا استحصال پورے عروج پر تھا اور بحیثیت مجموعی‘ اس کو کوئی حیثیت نہیں دی جا رہی تھی۔ اس کو فقط سامانِ لذت سمجھتا جاتا اور اخلاقی گراوٹ اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ لوگ اپنی سوتیلی ماں سے بھی نکاح کر لیا کرتے تھے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا چلن اپنے پورے عروج پر تھا۔ گو اس معاشرے میں بھی چند مثبت سوچ رکھنے والے لوگ موجود تھے۔ جیسے کہ بخاری شریف کی حدیث میں مذکور ہے کہ زید بن عمر بن نفیل کعبہ سے اپنی پیٹھ لگائے ہوئے کھڑے ہو کر یہ کہہ رہے تھے ''اے قریش کے لوگو! اللہ کی قسم میرے سوا اور کوئی تمہارے یہاں دین ابراہیم پر نہیں ہے اور زید بیٹیوں کو زندہ نہیں گاڑتے تھے۔ اور ایسے شخص سے جو اپنی بیٹی کو مار ڈالنا چاہتا‘ کہتے کہ اس کی جان نہ لے اس کے تمام اخراجات کا ذمہ میں لیتا ہوں۔ چنانچہ لڑکی کو اپنی پرورش میں رکھ لیتے جب وہ بڑی ہو جاتی تو اس کے باپ سے کہتے اب اگر تم چاہو تو میں تمہاری لڑکی تمہارے حوالے کر سکتا ہوں۔ اور اگر تمہاری مرضی ہو تو میں اس کے سب کام پورے کر دوں گا‘‘۔ لیکن بحیثیت مجموعی اس قسم کی پاکیزہ سوچ رکھنے والے لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد عورت کو منفرد شان اور عظمت حاصل ہوئی۔ اللہ احکم الحاکمین نے بیٹی کو زندہ درگور کرنے کی مذمت کرتے ہوئے سورہ تکویر کی آیت نمبر 8 اور 9 میں ارشاد فرمایا ''اور جب زندہ (دفن )کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا (کہ) وہ کس گناہ کے بدلے قتل کی گئی‘‘۔
نبی کریمﷺ اپنی بیٹیوں کے ساتھ مثالی سلوک فرمایا کرتے تھے اور کئی مرتبہ راز و نیاز کی باتیں بھی اپنی بیٹیوں کے ساتھ فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف میں حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا مسکرانے اور رونے والا واقعہ موجود ہے کہ جس میں ان کو نبی کریمﷺ نے اپنے انتقال کی خبر دی اور اپنے اعزا و اقارب میں سب سے پہلے اپنے سے ملنے کی نوید سنائی۔ اسی طرح بخاری شریف کی روایت میں یہ بات بھی آتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی ایک دختر کا جب انتقال ہوا تو ان کی تدفین کے وقت نبی کریمﷺ کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ صحیح بخاری میں یہ حدیث یوں مذکور ہے کہ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں ہم نبی کریمﷺ کی ایک بیٹی (اُم کلثوم رضی اللہ عنہا) کے جنازہ میں حاضر تھے۔ (وہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں۔ جن کا 5ھ میں انتقال ہوا) نبی کریم ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ آپﷺ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر آئی تھیں۔ نبی کریمﷺ نے پوچھا کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے کہ جو آج کی رات عورت کے پاس نہ گیا ہو یا بعض اہل علم کے مطابق اس نے آج رات کوئی کوتاہی نہ کی ہو۔ اس پر ابوطلحہؓ نے کہا کہ میں ہوں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ پھر قبر میں تم اترو۔ چنانچہ وہ ان کی قبر میں اترے۔ یہ تمام احادیث نبی کریمﷺ کے اپنی بیٹیوں سے غیر معمولی پیار پر دلالت کرتی ہیں۔
اسلام نے بیٹی کو وراثت میں حق دار ٹھہرایا اور وراثت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ رشتوں کے چناؤ کے حوالے سے ان کی رائے کو بھی اہمیت دی گئی۔ گو حدیث مبارکہ میں ولی کی اہمیت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی لڑکی کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ اس کی مرضی کے خلاف اس کو بیاہ دیا جائے۔ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں حضرت خنسا بنت خدام ؓ کی شادی جب ان کی مرضی کے بغیر کر دی گئی تو نبی کریمﷺ نے ان کے نکاح کو فسخ کر دیا تھا۔
بیٹی کے ساتھ ساتھ بیوی کی حیثیت سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کو ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 19 میں اس امر کا اعلان فرمایا ''اور ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی بسر کرو‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 228 میں ارشاد ہوا ''اور ان (عورتوں) کے لیے (ویسے ہی حقوق ہیں) جس طرح ان پر (مردوں کے حقوق ہیں) دستور کے مطابق‘‘۔ حضرت رسول اللہﷺ ازواج مطہرات کے ساتھ بہترین معاملہ فرماتے رہے۔ دینی اور معاشرتی مشغولیات کے باوجود امور خانہ داری میں ان کا ساتھ دیتے رہے اور آپﷺ نے اس امر کا بھی اعلان فرما دیا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل سے بہترین سلوک کرنے والا ہو، اور میں اپنے اہل سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں‘‘۔ نبی کریمﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت خدیجہؓ اور حضرت عائشہؓ کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ نے دعوت دین کے دوران آنے والی تکالیف کے دوران نبی کریمﷺ کی بھرپور انداز سے دلجوئی کی جبکہ حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے فرامین مبارک کو یا د بھی کیا اور ان کو آنے والی نسلوں تک بھی منتقل کیا۔ حضرت عائشہؓ نے پردے میں رہنے کے باوجود نبی کریمﷺ کے ارشادات عالیہ اور سنت مطہرہ کی ترسیل اور تدریس میں نمایاں کردار ادا کیا۔
حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا کردار بیوی کی حیثیت سے بھی مثالی رہا۔ آپؓ نے حضرت علی المرتضیٰؓ کے ساتھ ہمیشہ تابعدار ی اور فرمان برداری والا رویہ رکھا اور آپ نے جس انداز میں حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما کی تربیت کی‘ وہ آپؓ کے مثالی بیوی اور غیر معمولی ماں ہونے کا واضح ثبوت ہے۔
اسلام نے ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کو جس عزت، احترام اور وقار سے نوازا ہے‘ بہت سے لوگ اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ بعض لوگ اسلامی تعلیمات پر تنقید کرتے ہوئے اسلام کو تنگ نظر قرار دیتے اور عورت کے حقوق کو غصب کرنے کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ مساواتِ مرد و زن کے بہت سے علمبردار اسلام کو قدامت پسند مذہب سمجھتے ہیں اور اس کی عمومی وجہ اسلام کے 'احکاماتِ حجاب‘ہیں۔ اسلام کے احکامات حجاب کے حوالے سے ہمیں اس بات کو ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں پردے کے جتنے احکامات ہیں ان کا مقصد عورت کی آزادی، تعلیم اور حقوق کو چھیننا نہیں بلکہ ان اصول و ضوابط کا بنیادی مقصد معاشرے میں موجود گندی نظر اور بری نیت رکھنے والے اوباش لوگوں کی بری نگاہوں سے عورت کو بچانا ہے۔ چنانچہ ہم اپنے معاشرے میں بے پردگی اور اختلاط کے منفی نتائج بکثرت دیکھتے ہیں کہ عورت کو کام کاج اور پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے دوران کئی مرتبہ ہراسیت کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور یہ معاملہ صرف عورتوں تک محدود نہیں بلکہ آئے دن کم سن بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کے ساتھ بھی ہراسیت‘ اور اس سے بھی بڑھ کر بدکاری کے واقعات آئے دن منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ ان واقعات کے تدارک کے لیے تاحال اسلام کی تعلیمات کے متبادل کوئی بھی تصور کفایت نہیں کر سکا اور مساوات مرد و زن کے نعرے کے نتیجے میں عورت کی آبرو اور عصمت کو سنگین نوعیت کے خطرات لاحق ہوتے جا رہے ہیں۔
خواتین اسلام کے لیے حضرت خدیجۃ الکبریٰ، حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے غیر معمولی کردار کے ساتھ ساتھ سیدہ مریم اور زوجہ فرعون سیدہ آسیہ کا کردار بھی ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت مریم علیہا السلام نے جب اپنی پاک دامنی کا تحفظ کیا اور اپنے آپ کو اللہ کی عبادت کے لیے وقف کیے رکھا تو اللہ حکم الحاکمین نے ان کو بے موسمی پھل عطا فرمائے اور ان کے بطن سے عیسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم نبی کو پیدا فرمایا۔ جو قیامت کی دیواروں تک اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہیں۔ حضرت آسیہ علیہا السلام نے ایمان کے حوالے سے استقامت کی جس تاریخ کو رقم کیا وہ رہتی دنیا تک کے لیے ایک مثال ہے۔ آپؑ نے فرعون کے تمام ظلم و ستم سہنے کے باوجود ایمان اور اسلام کے راستے سے کنارہ کشی کو اختیار نہیں کیا اور وقت آخر دعا مانگی کہ اے میرے پروردگار میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔ مجھے فرعون اور اس کے عمل سے نجات دلا دے۔ اگر خواتین اسلام کے لیے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمۃ الزہراؓ، سیدہ مریم اورحضرت آسیہ کے کردار کو اپنے لیے مثال بنا لیں اور صحیح طور پر قرآن و سنت کی تعلیمات سے وابستہ ہو جائیں تو عورتوں کو ان کی توقع اور مطالبات سے بھی زیادہ حقوق میسر آ سکتے ہیں ۔ بعض عورتیں جن حقوق کے حصول کے لیے مغرب کے خود ساختہ فلسفوں کو اختیار کرنے پر آمادہ و تیار ہو جاتی ہیں‘ وہ حقوق کتاب و سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر بغیر احتجاج اور نعروں کے گھر بیٹھے مل سکتے ہیں۔ اے کاش! مسلمان عورتیں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے والی بن جائیں۔