اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہیں اور وہ جب چاہتے ہیں‘ انسان کے عروج کے اسباب کو جمع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو عروج سے زوال تک پہنچانا بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کے لیے معمولی بات ہے۔ بعض لوگ اللہ کے حکم سے آناً فاناً عروج پر پہنچ جاتے اور بعض کو اللہ تبارک وتعالیٰ بتدریج ترقی کا سفر طے کرواتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ بتدریج زوال پذیر ہوتے ہیں اور بعض لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کے امر کے نتیجے میں اچانک بلندیوں اور عروج سے پستیوں اور زوال کی طرف آ جاتے ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح معاشی اور سیاسی ترقی اور بدحالی بھی خالصتاً اللہ تبارک وتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ قرآن مجید کی متعدد آیات اس حقیقت پر دلالت کرتی ہیں لیکن یہ انسان کی بہت بڑی کوتاہ بینی ہے کہ وہ کئی مرتبہ خود اپنے آپ کو اپنے عروج و زوال کا مالک سمجھتا ہے۔ کم فہم انسان کو عروج کے سفر کے دوران تو اللہ تبارک وتعالیٰ کی قدرت سمجھ میں نہیں آتی لیکن اچانک زوال کی وجہ سے جب اُس کو بے بسی اور بے کسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب حقیقت حال بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی اور بڑائی کو ہر آن ملحوظ رکھنا چاہیے اور کسی بھی لمحہ اپنے رب کو ناراض کرکے اپنے لیے پستیوں اور زوال کے دروازے نہیں کھول لینے چاہئیں۔ میرا یہ مشاہدہ رہا ہے کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کم از کم تین معاملات میں مذہب کی رہنمائی کو صحیح طور پر قبول کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہیں ہوتی۔
1۔ معیشت
2۔ سیاست
3۔ رسوم و رواج
بہت سے مسلمان اسلامی تعلیمات کو عقائد، اخلاقیات، نکاح اور طلاق کے امور تک تو مؤثر سمجھتے ہیں لیکن مذکورہ بالا معاملات میں مذہب کی رہنمائی کو صحیح طریقے سے قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں ہوتے۔ مجھے جب بھی کبھی موقع ملا میں نے اس بات کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اسی حوالے سے مجھے 13مارچ کی رات‘ گلیات میں زیر تعمیر اپارٹمنٹ سکیم کی افتتاحی تقریب میں جانے کا موقع ملا۔ اس تقریب میں ریئل اسٹیٹ سے وابستہ افراد کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ میرے علاوہ مہمانان میں اورنگزیب صاحب بھی شامل تھے جنہوں نے چند برسوں کے دوران پراپرٹی کے کاروبار میں بہت زیادہ ترقی کی ہے اور اپنے کامیاب پراجیکٹس کی تکمیل سے نہ صرف یہ کہ اپنی کاروباری ساکھ میں اضافہ کیا بلکہ اس سبب بہت سے لوگوں کے لیے بھی تجارت کے امکانات پیدا ہوئے۔ اس موقع پر مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی اور میں نے تاجر طبقے سے وابستہ سامعین کے سامنے جن گزارشات کو رکھا انہیں کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتاہوں:
اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری دین ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19 میں ارشاد فرماتے ہیں '' بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو‘ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کی ہدایات کو بلا چوں چراں ماننا چاہیے اور کسی بھی مسئلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے نبی کریمﷺ کے احکامات سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست، معیشت اور رسوم و رواج کے حوالے سے ہمارا عمومی طرز عمل مذہب سے دوری کا ہے۔ حالانکہ اسلام نے ان تمام شعبوں میں بھی اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کی ہے اور مسلمانوں کو مذکورہ بالا معاملات میں اگرکچھ اختیارات دیئے بھی گئے ہیں تو ان معاملات میں بھی اصول و ضوابط کو طے کیا گیا ہے۔ ان متعین کردہ اصول و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی انسان اپنی چاہت اور اختیارات کو استعمال کر سکتا ہے۔
سردست مسئلہ چونکہ کاروبار کا ہے اس لیے اللہ حکم الحاکمین کے کلام سے چند باتیں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ وہ لوگ جو اسلام کو فقط عبادات اور اخلاقیات کے بعض امور تک محدود کرنا چاہتے ہیں‘ ان کو قومِ مدین کے طرزِ عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قومِ مدین کے لوگوں میں بعض اخلاقی قباحتوں کے ساتھ کاروباری بے اعتدالیاں پائی جاتی تھیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے کلام حمید کے متعدد مقامات پر ان کے طرزِ عمل کا ذکر کیا ہے۔ سورہ ہود میں اللہ تبارک وتعالیٰ ان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں:
''اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو (بھیجا)۔ اس نے کہا: اے میری قوم (ایک) اللہ کی عبادت کرو، تمہارے لیے کوئی معبود نہیں ہے اس کے سوا اور نہ کمی کرو ماپ اور تول میں۔ بے شک میں تمہیں دیکھتا ہوں اچھے حال میں اور بے شک میں ڈرتا ہوں تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب سے۔ اور اے میری قوم! پورا کرو ماپ اور تول کو انصاف کے ساتھ اور نہ کم دو لوگوں کو ان کی چیزیں اور مت پھرو زمین میں فسادی بن کر۔ اللہ کا بچا ہوا (جائز منافع) بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم ایمان لانے والے ہو۔ اور میں تم پر ہرگز کوئی نگہبان نہیں ہوں۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم چھوڑ دیں (وہ معبود) جن کی عبادت کرتے تھے ہمارے آباء و اجداد یا یہ کہ ہم کریں اپنے مالوں میں جو ہم چاہیں‘ بے شک تو بہت بردباد بڑا سمجھ دار ہے۔ اس نے کہا: اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا (غور کیا) اگر ہوں میں واضح دلیل پر اپنے رب کی طرف سے اور اس نے مجھے رزق دیا ہو اپنی طرف سے اچھا رزق (اسے چھوڑ کر میں حرام کیوں کھاؤں) اور نہیں میں چاہتا کہ میں تمہارے خلاف (ارتکاب) کروں اس کی طرف جو میں منع کرتا ہوں تمہیں اس سے نہیں میں چاہتا مگر (تمہاری ) اصلاح جتنی میں کر سکوں اور نہیں ہے میری توفیق مگر اللہ (کی طرف) سے، اسی پر میں نے بھروسا کیا اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔ اور اے میری قوم! ہرگز نہ اکسائے تمہیں میری مخالفت (اس بات پر) کہ پہنچے تمہیں (اس عذاب کے) مثل جو پہنچا قوم نوح یا قوم ہود یا قوم صالح کو اور قوم لوط تم سے ہرگز کچھ دورنہیں ہے۔ اور بخشش طلب کرو اپنے رب سے پھر تم توبہ (رجوع) کرو اسی کی طرف‘ بے شک میرا رب بہت رحم کرنے والا نہایت محبت کرنے والا ہے۔ انہوں نے کہا: اے شعیب! نہیں ہم سمجھتے بہت کچھ (ان باتوں میں سے) جو تو کہتا ہے اور بے شک ہم دیکھتے ہیں تجھے اپنے درمیان کمزور اور اگر نہ ہوتی تیری برادری (تو) ضرور ہم سنگسار کر دیتے تجھے‘ اور نہیں ہے تو ہم پر ہرگز غلبہ پانے والا۔ اس نے کہا: اے میری قوم! کیا میری برادری زیادہ زبردست ہے تم پر اللہ سے‘ اور تم نے بنا رکھا ہے اس (اللہ)کو اپنی پیٹھ پیچھے (پھینکا ہوا) بے شک میرا رب اس کو جو تم عمل کرتے ہو گھیرنے والا ہے۔ اور اے میری قوم! تم عمل کرو اپنی جگہ پر بے شک میں (بھی) عمل کر رہا ہوں‘ عنقریب تم جان لو گے (اسے) جو (کہ) آتا ہے اس پر (ایسا) عذاب (جو) اسے رسوا کر ے گا اور (اسے) جو (کہ) جھوٹا ہے۔ اور تم انتظارکرو بے شک میں (بھی) تمہارے ساتھ انتظار کرنے والا ہوں۔ اور جب آیا ہمارا حکم (عذاب کا تو) ہم نے نجات دی شعیب کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے اس کے ساتھ اپنی طرف سے رحمت کے ساتھ اور پکڑ لیا ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا‘ چیخ نے تو ہو گئے وہ اپنے گھروں میں اوندھے منہ گرے ہوئے۔ گویا کہ نہیں وہ رہے ان (گھروں) میں‘ خبردار! دوری ہے (اہل) مدین کے لیے جیسا کہ دور ہوئے ثمود (رحمت سے)‘‘۔
اس واقعے میں ہمارے لیے عبرت کا مقام ہے کہ جہاں پر ہمیں اپنی اعتقادی اور اخلاقی حالت کو بہتر بنانا چاہیے وہیں پر معاشی معاملات میں بھی ہمیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کو ماننا چاہیے تاکہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب اور عذاب سے بچ کر اس دنیا میں بھی خوشحالی کی زندگی گزار سکیں اور آخرت کی کامیابیاں بھی ہمارا مقدر بن جائیں۔ آمین!