پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے جس کے قیام کا بنیادی مقصد مسلمانانِ ہند کے لیے ایک ایسی مملکت کا حصول تھا جہاں پر مسلمان کتاب وسنت کے آفاقی اور زریں اصولوں کی روشنی میں اپنی زندگی گزار سکیں۔ مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک برصغیر پرحکومت کی تھی لیکن انگریز سامراج کے ہندوستان پر قبضے کے بعد اس بات کو محسوس کیا جارہا تھا کہ انگریز کے چلے جانے کے بعد اگر اقتدار ہندوستان کے رہنے والے ہندوؤں کے حوالے کر دیا گیا تو مسلمانوں کے لیے یہاں پر باعزت طریقے سے رہنا محال ہو جائے گا۔ چنانچہ مسلمانانِ ہندکو انگریزی استبداد کے بعد ہندوؤں کی مکاری سے بچانے کے لیے حضرت محمد علی جناحؒ، حضرت علامہ اقبالؒ، حضرت مولانا ظفر علی خانؒ، مولانا محمد علی جوہر ؒاور دیگر ممتاز مسلمان رہنماؤں نے برصغیر کے طول وعرض میں ایک تحریک کو بپا کیا تاکہ انگریز کے چلے جانے کے بعد ہندوؤں کے ہمراہ ایک ہی وطن میں بسنے کی بجائے مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک بڑی ریاست کو قائم کر دیا جائے۔ ہندوؤں کے لیے تقسیم ہند کا مطالبہ قطعی طور پر ناقابل قبول تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کا تہیہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ مسلمانوں کو اپنے قائدین کی قیادت میں آزادی کے حصول کے لیے زبردست تحریک چلانا پڑی‘ اور بالآخر مسلمان ہزاروں قربانیوں کے بعدآزادی کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ گو پاکستان سیاسی طریقے سے معرض وجود میں آنے والی ریاست ہے۔ لیکن اس کے قیام کے لیے بڑی تعداد میں بہنوں کو بے آبرو کیا گیا، معصوم بچوں کو ذبح کیا گیا، بوڑھوں کی ڈاڑھیوں کو لہو میں تربتر کیا گیا گیا اور بڑی تعداد میں نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔
قیام پاکستان کے بعد ملک حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا۔ اور یہاں پر طویل عرصے تک جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط رہا۔ ملک میں بسنے والی مذہبی تحریکیں اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے حوالے سے کیے جانے والے وعدے کو وفا کرنے کے لیے سرگرم عمل رہیں اور دینی تحریکوں کی جدوجہد کی وجہ سے آئین پاکستان میں قرار داد مقاصد کو شامل کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ کتاب وسنت کی بالا دستی کی یقین دہانی کروا دی گئی۔ لیکن اس کے باوجود روایتی سیاسی جماعتیں پاکستان کے سیاہ وسفید کی مالک بنی رہیں۔ پاکستان میں نظام مصطفی ﷺ کے قیام کے لیے مختلف ادوار میں مؤثر جدوجہد کی گئی ۔قومی اتحاد کی تحریک بھی ملک میں سیکولر ازم اور سوشل ازم کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لیے چلائی گی۔ گو اس میں دینی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ بعض خالص سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں۔ لیکن تحریک کو عوام کی تائید حاصل ہونے کی بڑی وجہ عوام کے دلوں میں نظام مصطفی ﷺکے لیے پائی جانے والی شدید محبت تھی۔ نظام مصطفی ﷺکی تحریک کے نتیجے میں گو ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم ہو گئے لیکن جنرل ضیاء الحق کے برسراقتدار آنے کی وجہ سے قومی اتحادکی تحریک منطقی انجام تک نہ پہنچ سکی۔گو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے تئیں بعض مذہبی دفعات کو آئین میں شامل کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے اور ممتاز علماء اور تاریخ کے طلباء اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے بہت سے اقدامات فقط اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے کیے ۔ اور اختیار ہونے کے باوجود حقیقی معنوں میں ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل نہ کیا۔ اس کے بعد بھی دینی جماعتیں اپنے اپنے دائرہ کار میں سیاسی انداز میں آگے بڑھتی رہیں۔ جنرل پرویز مشرف کا دور اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل تھا کہ امریکی دباؤ کی وجہ سے پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے امریکہ کو فراہم کیے۔ جن کو استعما ل کرتے ہوئے امریکی افواج نے برادر اسلامی ملک افغانستان پر حملہ کیا جس کی وجہ سے ملک میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی۔
ملک میں موجود دینی سیاسی جماعتوں نے عوام کے ساتھ رجوع کیااور حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ''متحدہ مجلس عمل‘‘کے نام سے ایک منظم اتحاد قائم کیا۔ اس اتحاد کو عوام میں بہت زیادہ پزیرائی حاصل ہوئی اور متحدہ مجلس عمل ملک میں ایک بڑے سیاسی اتحاد کی حیثیت سے منظرعام پر آئی اور صوبہ سرحد میں حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں حزب اقتدار کی نمائندگی بھی متحدہ مجلس عمل کو حاصل ہوئی۔ متحدہ مجلس عمل نے عوام کے ساتھ جو وعدے کیے تھے اگر چہ ان تمام وعدوں کو پورا نہ کیا جا سکا۔ لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد کا امن مثالی رہااور مجموعی طور پر متحدہ مجلس عمل نے مالیاتی کرپشن سے بالاترہو کر اپنی بساط کی حد تک عوامی مطالبات کو پورا کرنے کی بھی جستجو کی۔ بعد ازاں سیاسی اختلاف کی وجہ سے متحدہ مجلس عمل قائم نہ رہ سکی اور 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں دینی جماعتوں نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق انتخابات میں حصہ لیا۔ دینی جماعتیں جہاں سیاسی اعتبار سے اپنے کردار کو ملکی سیاست میں ادا کرتی رہیں وہیں پر ملک میں بہت سی ایسی تحریکوں کو بھی منظم انداز میں چلانے میں کامیابی حاصل کی جن کے نتیجے میں ملک کے مذہبی تشخص کو بحال رکھا گیا۔ تحریک ختم نبوت میں منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر جستجو کی۔ بعد ازاں فرقہ وارانہ اختلافات کو تشدد کی سطح تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ''ملی یکجہتی کونسل‘‘کے پلیٹ فارم پر تمام مکاتب فکر کے جید علماء مجتمع ہوئے اور اس بات پر اتفاق کیاگیا کہ مقدسات اُمت کا یکساں احترام کیا جائے گا اور خلفائے راشدین ؓ،امہات المومنین ؓاور اہل بیت عظام ؓکی تنقیص کو حرام قرار دیا گیا جب کہ ان کی تکفیر کو کفر قرار دیا گیا۔ ملی یکجہتی کونسل نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مرحوم قاضی حسین احمد نے بھی اس حوالے سے نمایاں کردار ادا کیا اور مجھے ان کی ہمراہی میں بھی ملی یکجہتی کونسل میں کام کرنے کا موقع ملا اور تاحال نائب صدر کی حیثیت سے سلسلہ جاری وساری ہے۔
اسی طرح نیٹو سپلائی کی بندش کے لیے ملک کے طول وعرض میں دفاع پاکستان کونسل کے نام سے بھی ایک بڑا اتحاد معرض وجود میں آیا۔ جس میں پاکستان کی سرحدوں کے دفاع اور غیر ملکی جارحیت کو روکنے کے لیے ملک کے طول وعرض میں بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔ مولانا سمیع الحق اور حافظ سعید کی قیادت میں یہ اتحاد بھی موثر ثابت ہوا اور اس نے بھی عوام میں دفاع وطن کے لیے شعور اور احساس کو بیدار کیا اور ان کو یقین دلایا کہ دفاع وطن کے لیے دینی جماعتیں موثر کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کی کامیاب تحریک نے بھی دینی جماعتوں کے حوالے سے عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا۔ لیکن دفاع پاکستان کونسل پاکستانی سرحدوں کے دفاع تک محدود رہا اور سیاست میں موثر کردار ادا نہ کر سکا۔
حالیہ سالوں میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نون کی کشمکش پورے عروج پر پہنچ چکی ہے ۔ دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے کی سیاسی مخالفت کے ساتھ ساتھ شخصی مخالفت پر بھی آمادہ وتیار ہو چکے ہیں اور نفرت اور الزام تراشی پورے عروج پر نظر آتی ہے۔ اس کردار کشی اور نفرت کی وجہ سے بہت سے لوگ پاکستان کے سیاسی کلچر سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں ملک کی نمایاں دینی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر فیصلہ کیا کہ سیاسی کلچر میں توازن اور اعتدال پیدا کیا جائے اور عوام الناس کے مطالبات کو سیاسی طریقے سے پورا کرنے اور پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے یکجا ہوا جائے۔ دینی جماعتوں پر فرقہ وارانہ اختلافات اور ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے نہ بیٹھنے کا عمومی الزام کئی مرتبہ دینی جماعتوں سے لوگوں کی دوری کا سبب بنتا ہے۔ چنانچہ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ملک کی پانچ نمایاں مذہبی جماعتوں جن میں جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، مرکزی جمعیت اہلحدیث ، جمعیت علمائے پاکستان اور اسلامی تحریک شامل ہیں ‘کے قائدین 20 مارچ کو کراچی میں جمع ہوئے اور انہوں نے ایک مرتبہ پھر متحد ہ مجلس عمل کے احیاء کا فیصلہ کیا اور اس بات پر تاسف کا بھی اظہار کیا کہ اس اتحاد میںانقطاع آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس موقع پر ایک مرتبہ پھر ایک ہی پلیٹ فارم پر یکجا ہو کر انتخابی عمل میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ 2018ء کے انتخابات بالکل قریب ہیں اور اس بات کا قطعیت کے ساتھ تجزیہ کرنا یا تخمینہ لگانا کہ لوگ متحدہ مجلس عمل کو کس حد تک تائیددیتے ہیں سر دست مشکل ہے۔ لیکن اس کے باوجود ماضی کے تجربات کے تناظر میں یہ بات آسانی سے کہی جا سکتی ہے کہ دینی تحریکیں جب مجتمع ہوتی ہیں تو لوگ ان کی حمایت پر آمادہ وتیار ہوتے ہیں اور ان کو بڑی تعداد میں مینڈیٹ ملتا ہے۔ آئندہ انتخابات میں حالات کس کروٹ بیٹھتے ہیں اس بات کا فیصلہ متحدہ مجلس عمل کی رابطہ عوام مہم کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی رابطہ عوام مہم سے ملکی سیاست پرجو اثرات مرتب ہوں گے اس کا فیصلہ آنے والے ایام کریں گے اور اسی کی بنیاد پر متحدہ مجلس عمل کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔