ہر باشعور انسان کو اپنے والدین سے محبت ہوتی ہے اور وہ ان کے احسانات کا معترف ہوتا ہے۔ والدین کی دعائیں اس کی زندگی کا بہت بڑا اثاثہ ہیں جو زندگی کے نشیب و فراز کے دوران اس کے کام آتی ہیں۔ والدین اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور ترقی کے لیے مقدور بھر کوشش کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض والدین اپنی اولاد کی ترقی اور استحکام کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے ہیں اور بعض لوگ اس منظر کو دیکھے بغیر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اپنے والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ سے والہانہ محبت ہے۔ وہ جہاں پر عظیم قائد، شعلہ بیاںخطیب، اعلیٰ پائے کے مصنف، بے مثال منتظم اور صف اوّل کے لیڈر تھے‘ وہیں پر انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ بھی شفقت اور محبت والا سلوک کیا۔ وہ اپنی بھرپور علمی، سیاسی، سماجی، دعوتی اور تنظیمی مصروفیات کے باوجود ہماری دینی اور دنیاوی تعلیم و تربیت کے بارے پوری طرح متوجہ رہے۔ انہوں نے عصری تعلیم دلوانے کے لیے مجھے اپنے وقت کی معروف درسگاہ کریسنٹ ماڈل سکول میں داخل کروایا اور دینی تعلیم و تربیت کے لیے پوری دلچسپی کے ساتھ اہتمام کرتے رہے۔ والد گرامی کے وقت کا ایک بڑا حصہ ان کی لائبریری میں بسر ہوتا تھا۔ اس لائبریری میں گو اکثر کتابیں عربی زبان میں تھیں لیکن اردو کتب کا بھی کثیر ذخیرہ موجود تھا۔ قرآن، حدیث، تاریخ، فقہ اور علم الرجال سے متعلق ہزاروںکتابیں آپ کی لائبریری کی زینت تھیں۔
مجھے صحابہ کرامؓ، اکابرین اُمتؒ، ائمہ دینؒ اور ماضی کے بڑے مسلمان لیڈروں اور سپہ سا لاروں کے حالات زندگی سے بہت زیادہ دلچسپی تھی۔ چنانچہ میں ان موضوعات پر آپؒ کی لائبریری سے کتابوں کو لے کر پڑھتا رہتا۔ سنت نبوی شریفﷺ سے متعلق معلومات کو حاصل کرنے کے لیے بھی لائبریری میں موجود لٹریچر سے استفادہ کرنے کا مجھے شوق تھا۔ اس دوران جب بھی کبھی مجھے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس بارے میں آپ بڑے خوبصورت انداز میں ہماری رہنمائی کرتے۔ بچپن کی حسین یادوں میں سکول کا دور بھی شامل ہے۔ سکول جانے سے قبل وہ صبح ہمیں بیدار کرکے نماز کی ادائیگی کے بعد رائیڈنگ سکول میں بھی لے جاتے۔ جہاں پر انہوں نے چار گھوڑے پال رکھے تھے۔ تقریباً آدھے گھنٹے تک ان پر سواری کا اہتمام کرنے کے بعد ہمیں یا تو ڈرائیور کے ساتھ سکول روانہ کر دیا جاتا یا کئی مرتبہ فراغت کی صورت میں وہ خود بھی سکول چھوڑنے کے لیے چلے جاتے۔ جب میں چھٹی کلاس میں پہنچا تو انہوں نے سکول جانے کے لیے مجھے ایک سائیکل لے دی۔ وہ خود بھی ہارس رائیڈنگ کے ساتھ ساتھ کئی مرتبہ صبح کے وقت سائیکلنگ کیا کرتے تھے۔ کئی مرتبہ جب میں سکول جا رہا ہوتا‘ وہ سائیکلنگ کرتے ہوئے سکول تک مجھے بھی چھوڑنے کے لیے چلے جاتے۔ انہوں نے بچپن میں ہمیں قرآن پڑھوانے اور نمازوں کی ادائیگی کا اہتمام کرنے پر خصوصی توجہ دی۔ اور اس سلسلے میں کسی کمی کوتاہی پر سختی سے مواخذہ کرتے۔ وہ ہمیں قرآن پڑھوانے والے استاد کا بھی بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔
مارچ 1987ء کو جب راوی روڈ جلسے میں بم دھماکہ ہوا تو ان دنوں میں میں میٹرک کے امتحانات دے رہا تھا۔ وہ ان امتحانات میں میری کامیابی کے لیے بہت متفکر تھے اور کئی مرتبہ جب میں امتحانی سینٹر جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھا ہوتا تو آپ سست روی سے چلتی ہوئی گاڑی کے ساتھ چہل قدمی کرتے ہوئے مجھے الوداع کرتے اور قرآن مجید میں مذکور بعض دعاؤں کو بھی پڑھنے کے لیے کہتے۔ جب میں امتحان دے کر آتا تو مجھ سے میرے پرچوں کے بارے میں استفسار کرتے۔
مجھے ان کے ساتھ دو دفعہ بین الاقوامی سفر کرنے کا بھی موقع ملا۔ گھریلو زندگی کے دوران بھی میں نے ان کو ہمیشہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں بہت زیادہ دعا مانگنے والا پایا۔ اور سفروں کے دوران بھی میں نے ان کو کئی مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعامانگتے ہوئے دیکھا۔ مجھے ان کے ساتھ چھوٹی عمر میں حج کرنے کا بھی موقع ملا۔ وہ اس سفرِ حج کے دوران کئی مرتبہ اللہ کی طرف سے ملنے والی اس توفیق پر دل کی گہرائیوں سے خود بھی شکر کرتے اور مجھے بھی شکر ادا کرنے کی تلقین کرتے۔ عرفات کے میدان میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنے کے دوران آپ کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو مجھے تاحال یاد ہیں۔ آپ کو نبی کریمﷺ کی ذات اقدس سے والہانہ محبت تھی اور اس حوالے سے آپ کسی بھی قسم کا سمجھوتہ کرنے کے لیے آمادہ و تیار نہ ہوتے۔ سیرت النبیﷺ کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کئی مرتبہ آپ کی آواز بھرا جاتی اور آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے نم ہو جاتیں۔ اسی طرح گھر میں بھی کئی مرتبہ جب نصیحت کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کا حوالہ دیتے تو آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آپ کی آنکھوں سے آنسو گرنا شروع ہو جاتے۔
نبی کریمﷺ سے اسی والہانہ محبت کی وجہ سے آپ نے ملک میں چلنے والی دو مذہبی تحریکوں میں نمایاں کردار ادا کیا۔ تحریک نظامِ مصطفیﷺ ملک میں سوشل ازم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے خلاف چلائی گئی۔ اس تحریک میں آپ نے اپنی خطابت کے ذریعے نئی روح پھونک دی۔ قومی اتحاد کی تحریک کے دوران آپ مسجد شہداء (مال روڈ لاہور) میں جمعے کا خطبہ بھی دیا کرتے تھے اور قومی اتحاد کے کارکنان کی بڑی تعداد آپ کی اقتدا میں مسجد شہداء میں نماز ادا کیا کرتی تھی۔ آپ کی خطابت سے‘ سننے والوں کو ولولۂ تازہ حاصل ہوتا۔ آپ نے قومی اتحاد کی تحریک کے ساتھ ساتھ ختم نبوت کی تحریک کے دوران بھی ملک کے طول وعرض میں بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا اور منکرین ختم نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے نہایت مؤثر اور ولولہ انگیز خطابات کیے اور اپنی تقریروں سے اس تحریک میں نئی روح پھونک دی۔ آپ نے مسئلہ ختم نبوتﷺ کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے منکرین ختم نبوت کے رد میں تین کتابوں کو تحریر کیا۔ ''القادیانیہ، البابیہ اور البہائیہ‘‘ میں ان گروہوں کے عقائد کو بے نقاب کیا جو نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر یقین نہیں رکھتے تھے۔
آپ ساری زندگی اسلامی نظام کی عملداری کے لیے بھی متحرک رہے اور اس مسئلے میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے پر آمادہ و تیار نہ ہوئے۔ اس مسئلے میں آپ کا یہ مؤقف تھا کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اس لیے اس میں ہر صورت میں اسلامی نظام کا نفاذ ہونا چاہیے۔ آپ اس حوالے سے خلافت راشدہ کے نظام کے احیا کو ناگزیر سمجھتے تھے۔ آپ نے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لیے اپنے مکتبِ فکر کو منظم بھی کیا تاکہ ملک میں باقی مکاتبِ فکر کے ساتھ یکجا ہو کر نفاذ اسلام کی تحریک کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے۔ آپ اس حوالے سے سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے۔ اور آپ کا یہ گمان تھا کہ اسلام کو لانے کے لیے تشدد کے راستے کی بجائے سیاسی راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اسلامی جمہوری نظام کے دفاع کے لیے بھی آپ برسر پیکار رہے۔ اور اس حوالے سے آپ نے مارشل لاء کے مختلف ادوار میں آئین کے معطل ہونے پر شدید احتجاج کیا اور ملک کے طول وعرض میں انسانی حقوق اور آئین کی بحالی کے لیے کام کرنے والی تحریکوں کے ساتھ اپنی آواز کو ملائے رکھا۔
آپ کی زندگی کے جہاں بہت سے پہلو تابناک ہیں وہیں پر آپ ایک بے مثال حافظ قرآن بھی تھے۔ میں نے بچپن میں آپ کی اقتدا میں کئی سال تک نماز تراویح ادا کی اور خال خال ہی آپ کو مغالطہ لگتے دیکھا۔ وہ اپنی بے پناہ مصروفیت کے باوجود ساری زندگی رمضان المبارک میں قرآن مجید کی منزل سنانے کا اہتمام کرتے رہے اور باقاعدگی سے پڑھی گئی منزل کا خلاصہ بھی بیان کرتے۔ آپ کے درسِ قرآن کو سننے کے لیے لوگ دور دورسے بڑی تعداد میں آپ کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لیے آتے اور بعد میں آپ کے درسِ قرآن سے استفادہ بھی کرتے۔ آج ان کو ہم سے جدا ہوئے 31 برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ لیکن آج بھی ان کی یاد اہلِ خانہ اور معتقدین کے دلوں میں تازہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی حسنات کو قبول و منظور فرمائے اور ان کی بشری خطاؤں سے درگزر کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین!