اسلام اللہ تبارک وتعالیٰ کا آخری دین ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 19میں ارشاد فرماتے ہیں '' بے شک دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔‘‘ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 208میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے نقش قدم کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ہدایات کو بلا چوں چراں ماننا چاہیے اور کسی بھی مسئلے میں اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے نبی کریمﷺ کے احکامات سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ عصری مسلمان معاشروں میں دیکھا گیا ہے کہ سیاست، معیشت اور رسوم ورواج کے حوالے سے لوگوں کا عمومی طرز عمل مذہب سے دوری کا ہے۔
فی الوقت مسلمانوں کی اکثریت کا یہ گمان ہے کہ اسلام فقط عقائد، عبادات اور اخلاقیات کے معاملے میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ نبی کریمﷺ صرف معلم اخلاق اور دینی امور کے رہنما نہیں تھے بلکہ آپﷺ نے والی ٔ حجاز ہونے کی حیثیت سے ریاست کے نظم ونسق کو غیر معمولی انداز میں چلایا اور آپ کے حسن انتظام کے مسلمان تو مسلمان غیر مسلم بھی معترف ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ آپ کی قائم کردہ ریاست میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اقلیتوں کی جان، مال اوراملاک کو پوری طرح تحفظ دیا گیا اور جرائم کی بہترین انداز میں بیخ کنی کی گئی۔ نبی کریمﷺ نے ریاست کے امور کو جس انداز میں چلایا اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ مشہور مؤرخ مائیکل ہارٹ بھی اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر نہ رہ سکا کہ نبی کریمﷺ کائنات میں وہ واحد ہستی ہیں جو مذہبی اور دنیاوی معاملات میں غیر معمولی حد تک کامیاب ہوئے۔
نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ اور آپ کے بحیثیت حکمران کردار ہر اعتبار سے غیر معمولی ہے۔ آپﷺ نے مذہب اور ریاستی امور میں کسی بھی قسم کی دوئی کو گوارانہ کیا اور انفرادی سطح پر تزکیہ نفس ، تقویٰ اور ظاہری وباطنی طہارت کے حصول کے ساتھ ساتھ رعایا کے اجتماعی مصالح اور جملہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ریاست مدینہ کے انتظام کو بہترین انداز میں مرتب کیا۔ نبی کریمﷺ کا جہاں بطور حکمران پر غیر معمولی کردار ہے وہاں پر آپﷺ نے ایک کامیاب سپہ سالار کی حیثیت سے دارالسلام کے دفاع کی منصوبہ بندی کی اور اسلام اور دارالسلام کے مخالفوں کی بھر پورانداز میں بیخ کنی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپﷺ نے جزیرۃ العرب میں بسنے والے دین الٰہی کے دشمن شرپسندوںکو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے مختلف اوقات میں جو لشکرکشی کی وہ بھی آپﷺ کی حسن تدبیر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ نبی کریم ﷺ کی قائم کردہ ریاست کے نظم ونسق اور آپ کی کامیاب سیاسی اور عسکری حکمت عملی کا نتیجہ یہ نکلا کہ پورا کا پورا جزیرۃ العرب آپ ﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں اسلامی ریاست کا حصہ بن گیا۔ نبی کریم ﷺ کی ریاست میں بسنے والے تمام لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے اور کسی شخص کو بھی اپنی جان ،مال ،عزت اور آبرو کے حوالے سے کسی بھی قسم کا خدشہ لا حق نہیں تھا۔ نبی کریمﷺ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد آپﷺ کے خلفاء اور جانشینوں نے بھی نبی کریمﷺ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے غیر معمولی حکومت کی۔خلفاء راشدین کا کردار تاریخی اعتبار سے غیرمعمولی رہا اور عوام الناس کو جس حد تک ان سے فائدہ پہنچا وہ تاریخ کا سنہرا اور روشن باب ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مطہرہ کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ بھی ہمیں یہ بات سمجھاتا ہے کہ حکمرانوں کے چناؤ اور ذمہ داریوں کے حوالے سے ہمارا انداز فکر اور طرزعمل کیا ہونا چاہیے۔
سورہ بقرہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت شموئیل علیہ السلام کے عہد کا ذکر کیاکہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے ان سے ایک بادشاہ کے تقرر کا مطالبہ کیا کہ جس کی زیر قیادت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ تو حضرت شموئیل علیہ السلام نے اس موقع پر ان کو بتلایا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لیے جناب طالوت کو بادشاہ مقرر کر لیا ہے۔ بنی اسرائیل کے لوگوں نے استفسار کیا کہ جناب طالوت کے پاس مال کی فراوانی نہیں ہے حضرت شموئیل نے انہیں بتلایا کہ اللہ نے ان کو منتخب کر لیا ہے اور انہیں علم اور جسم میں کشادگی عطا کی ہے۔ سورہ بقرہ میں بیان کردہ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حاکم کا طاقتور اور صاحب علم ہونا ضروری ہے۔ علم کے ذریعے معاملات کا تجزیہ کرنے اور طاقت کے ذریعے احکامات کی تنفیذ میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ سورہ ص میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حق کے ساتھ فیصلہ کرنے اور خواہش کی پیروی سے بچنے کا حکم دیا۔اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مثالی حکمران لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرتا ہے اور اپنی خواہشات اور رجحانات کو درست راستے کی تنفیذ کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا۔
مثالی حکمرانوں کے ان اوصاف کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں بہت سے عظیم حکمرانوں کے کارہائے نمایاں کا بھی ذکر کیا۔ جن میں سے چند اہم درج ذیل نظر آتے ہیں:
1۔بداعتقادی کی حوصلہ شکنی اور خاتمہ: سورہ نمل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کا ذکر کیا کہ جس میں جنات، چرند، پرند اور جانور حاضری دیا کرتے تھے۔ اس دربار میں ایک دن ہد ہد تاخیر سے پہنچا ۔ جب اس سے تاخیر سے پہنچنے کا سبب معلوم کیا گیا تو اس نے اس بات کا ذکر کیا کہ میں نے سباء کی خوشحال بستی پر ایک ملکہ کو حکومت کرتے ہوئے اور وہاں کے لوگوں کو سورج کی پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ واقعہ سننے پر بعد حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے والہانہ وابستگی کی وجہ سے بے تاب ہوگئے۔ فوراً سے پہلے متحرک ہوگئے اور آپ نے ملکہ سباء کو اپنے تخت سمیت دربار میں حاضر کرنے کا حکم دیا۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے ردعمل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید میں شراکت کو کسی بھی طور پر گوارہ نہ کیا اور بعد ازاں آپ کی پراثر دعوت کی وجہ سے ملکہ سباء بھی حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں۔
2۔ فتنہ وفساد کی بیخ کنی: قرآن کریم کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مثالی حکمرانوں نے فتنہ وفساد کی بیخ کنی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ چنانچہ جناب ذوالقرنین علیہ السلام جب ایسی بستی کے پاس پہنچے جس کے لوگ یاجوج وماجوج کے فتنے کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔ تو حضرت ذوالقرنین ؑ نے یاجوج وماجوج اور بستی والوں کے درمیان موجود دو پہاڑ وں کے مابین پائے جانیو الے خلاء کو لوہے کی چادروں سے بند کر کے اور اس میں پگھلا ہوا تانبا ڈال کر ایک رکاوٹ کو کھڑا کر دیا تاکہ بستی کے لوگ یاجوج وماجوج کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔
3۔ مالیاتی نظام کی تنظیم: قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ مذکور ہے کہ کہ آپ ؑ نے اپنے عہد میں متوقع قحط کی پیش بندی کے لیے مناسب انداز میں غلے کی تدوین کی اور جب عالمگیر قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تو جہاں حضرت یوسف ؑ کی تدبیر کی وجہ سے اہل مصر قحط سالی کا شکار نہ ہوئے وہیں پر دنیا کے بہت سے لوگ حضرت یوسف ؑ کے پاس غلے کے حصول کے لیے پہنچتے رہے۔
4۔ اقامت صلوٰۃ اور نظام زکوٰۃ :قرآن مجید کی سورہ الحج میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جنہیں زمین پر تمکن دیا جائے انہیں چاہیے کہ وہ نمازوں کو قائم کریں، زکوٰۃ کو ادا کریں اور معروف کاموں کا حکم دیں اور بدی سے روکیں۔
5۔ جرائم کے خاتمے کے لیے مؤثر قوانین کا نفاذ: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جرائم کے خاتمے کے لیے حدوداللہ کا جو نظام عطاء کیا ہے اگر اس کو معاشرے میں لاگو کر دیا جائے تو معاشرے سے ہر قسم کے جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے جرائم کی بیخ کنی کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کو ہمہ گیر انداز میں نافذ کیا۔ حتیٰ کہ جب بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور حضرت اسامہ بن زید ؓ کو بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں سفارش کے لیے روانہ کیاگیا۔ تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔‘‘ اس موقع پر نبی کریمﷺ نے سابقہ امتوں پر آنے والی عذاب کی ایک اہم وجہ کو بھی بیان کیا کہ جب ان میں سے کوئی چھوٹا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو وہ اس کو سزا دیتے اور جب کوئی بڑا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ نبی کریمﷺ کے عہد مبارکہ میں حدوداللہ کے نفاذ کی برکات کے ساتھ معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ بن گیا۔اسی طرح رعایا کی خبر گیری اور بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی حکمرانوں کی ذمہ داری میں شامل ہے۔اس حوالے سے خلفائے راشدین اور بالخصوص حضرت عمر بن الخطاب ؓ کا کردار غیر معمولی رہا اور آپ ساری زندگی رعایا کی ضروریات کو پورا کرنے اور مسائل کو حل کرنے کے لیے سرگرم عمل رہے۔ کتاب وسنت اور تاریخ اسلامی کا مطالعہ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ہمیں ریاست کی اصلاح کے لیے بھی اپنے دین سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ اگر ہم کتاب وسنت اور تاریخ اسلام سے صحیح معنوں میں رہنمائی حاصل کرنے والے بن جائیں تو ہمارے بگڑے ہوئے سیاسی نظام کی بہترین انداز میں اصلاح ہو سکتی ہے۔