ہمارے معاشرے میں جھوٹ کو معمولی گناہ تصور کیا جاتا ہے اور کاروبار اور لین دین کے معاملات میں جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ یا رشتہ داری کے بندھن میں بندھتے وقت اکثر لوگ جھوٹ سے کام لیتے ہیں۔ بعض لوگ اپنی انانیت کے تحفظ، عزت کے بچاؤ اور پگڑی کو بلند کرنے کے لیے بھی بلا جھجک جھوٹ بولتے ہیں۔ اسی طرح لوگ شہرت اور منصب کے حصول کے لیے جھوٹ بولنے کو معیوب نہیں سمجھتے۔ بعض لوگ جھوٹے خوابوں کو بھی بیان کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی ذات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی کے حوالے سے بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد‘ تیس جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر بھی احادیث مبارکہ میں موجود ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہاں پر روزمرہ کے معاملات میں جھوٹ بولا جاتا ہے وہیں پر دنیا بھر میں سال بعد ایک دن یعنی یکم اپریل کو ''اپریل فول‘‘ کا نام دے کر جھوٹ کے لیے مخصوص کر لیا جاتا ہے۔ بہت سے سنجیدہ اور سمجھدار لوگ بھی اپریل فول کے روز ایک نئے روپ میں نظر آتے ہیں۔ اور خواہ مخواہ لوگوں کے ساتھ اس قسم کی گفتگو کرتے ہیں جس میںکسی قسم کی صداقت نہیں پائی جاتی۔ اپریل فول کے موقع پر بولے گئے جھوٹ کے نتیجے میں کئی مرتبہ لوگوں کو شدید قسم کے نفسیاتی دھچکوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور جھوٹی افواہوں کو سننے کی وجہ سے بہت سے لوگ ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ اس کے نتائج انتہائی مہلک ثابت ہوتے ہیں۔ قرآن و سنت نے ہمیشہ سچائی کی حوصلہ افزائی اور جھوٹ کی مذمت کی ہے۔ جھوٹ کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض ارشادات کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
بخاری شریف میںمذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''منافق کی علامتیں تین ہیں۔ جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے‘‘۔
اسی طرح صحیح بخاری شریف میں یہ حدیث بھی موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں‘ وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں ان چاروں میں سے ایک عادت ہو تو وہ (بھی) نفاق پہ ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ (وہ یہ ہیں) جب اسے امین بنایا جائے تو (امانت میں) خیانت کرے اور بات کرتے وقت جھوٹ بولے اور جب (کسی سے) عہد کرے تو اسے پورا نہ کرے اور جب (کسی سے) لڑے تو گالیوں پر اتر آئے۔
بعض لوگ دنیاوی مقاصد کے حصول کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں، ایسے لوگوں کی مذمت میں امام بخاریؒ نے بعض اہم حدیثوں کو صحیح بخاری شریف میں درج کیا ہے‘ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
حدیث نمبر1: حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''مجھ پر جھوٹ مت بولو۔ کیونکہ جو مجھ پر جھوٹ باندھے وہ دوزخ میں داخل ہو گا‘‘۔
حدیث نمبر2: حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے اپنے والد زیبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا: میں نے کبھی آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث نہیں سنیں۔ جیسا کہ فلاں، فلاں بیان کرتے ہیں، کہا میں کبھی آپ سے الگ تھلگ نہیں رہا لیکن میں نے آپؐ کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
حدیث نمبر3: حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بہت سی احادیث بیان کرنے سے یہ بات روکتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''کہ جو شخص مجھ پر جھوٹ باندھے گا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔
ان احادیث میں ان لوگوں کے لیے شدید تنبیہ ہے جو اپنے مادی مفادات کے لیے رسول کریمﷺ کی ذات کے حوالے سے جھوٹ بولتے ہیں۔
روزہ ایک عظیم عبادت ہے اور ایمان اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھنے والے کے سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن بخاری شریف میں یہ حدیث مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا (روزے رکھ کر بھی) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے‘‘۔ بعض لوگ اپنا سودا سلف بیچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ اسی طرح بعض لوگ دوسروں کے مال کو ہتھیانے کے لیے جھوٹ سے کام لیتے ہیں ان کو بخاری شریف میں مذکور مندرجہ ذیل دو احادیث پر غور کرنا چاہیے:
حدیث نمبر1: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں۔ پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے‘‘۔
حدیث نمبر2: اما م بخاریؒ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ''جو شخص جان بوجھ کر اس نیت سے جھوٹی قسم کھائے کہ اس طرح دوسرے کے مال پر اپنی ملکیت جمائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہو گا۔ اس ارشاد کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے (سورۃ آل عمران میں) یہ آیت نازل فرمائی ''وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ دنیا کی تھوڑی پونجی خریدتے ہیں...‘‘ آخر آیت تک انہوں نے تلاوت کی۔ ابو وائل نے کہا اس کے بعد اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ ہمارے گھر تشریف لائے اور پوچھا کہ ابو عبدالرحمٰن (عبداللہ رضی اللہ عنہ) نے تم سے کون سی حدیث بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے حدیث بالا ان کے سامنے پیش کر دی۔ اس پر انہوں نے کہا کہ انہوں نے سچ بیان کیا ہے۔ میرا ایک (یہودی) شخص سے کنویں کے معاملے میں جھگڑا ہوا تھا۔ ہم اپنا جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے گواہ لاؤ ورنہ دوسرے فریق سے قسم لی جائے گی۔ میں نے عرض کیا: پھر یہ تو قسم کھا لے گا اور (جھوٹ بولنے پر) اسے کچھ پروا نہ ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص جان بوجھ کر کسی کا مال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ سے وہ اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر نہایت غضبناک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل کی۔ اس کے بعد انہوں نے سورہ آل عمران کی وہی آیت ''جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے ذریعہ تھوڑی پونجی خریدتے ہیں...‘‘ آخری حصے تک پڑھی۔
بعض لوگ اپنا نصب اور ذات بھی تبدیل کر کے بیان کرتے ہیں جبکہ بعض لوگ جھوٹے خواب بیان کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی مذمت میں صحیح بخاری میں حدیث مذکور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''سب سے بڑا بہتان اور سخت جھوٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے سوا کسی اور کو اپنا باپ کہے یا جو چیز اس نے خواب میں نہیں دیکھی۔ اس کے دیکھنے کا دعویٰ کرے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسی حدیث منسوب کرے جو آپؐ نے نہ فرمائی ہو‘‘۔
بعض لوگ زیب و زینت کے اظہار کے لیے منصوئی بال یا وگ لگاتے ہیں ایسے لوگوں کو بھی حدیث پاک میں جھوٹا قرار دیا گیا ہے۔ بخاری شریف میں حدیث مذکور ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے اپنے آخری سفر میںلوگوں کو خطاب فرمایا اور (خطبہ کے دوران) آپ نے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور فرمایا: میں سمجھتا ہوں کہ یہودیوں کے سوا اور کوئی اس طرح نہ کرتا ہو گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بال سنوارنے کا نام ''الزور‘‘(فریب و جھوٹ) رکھا ہے۔ آپ کی مراد ''وصال فی الشعر‘‘سے تھی۔ یعنی بالوں میں جوڑ لگانے سے تھی (جیسے اکثر عورتیں بالوں میں مصنوعی جوڑ کیا کرتی ہیں)
ان احادیث مبارکہ پر غور کر کے یہ نتیجہ نکالنا کچھ مشکل نہیں کہ انسان کو زندگی کے تمام مراحل میں سچائی سے کام لینا چاہیے اور حتی الوسع جھوٹ سے احتراز کرنا چاہیے۔ ہمارے معاشرتی بگاڑ کی بہت بڑی وجہ جھوٹ کا دھندہ، جھوٹ کا کاروبار، جھوٹ کا لین دین، جھوٹی شہرت، جھوٹی انانیت، جھوٹی عزت کا جھگڑا ہے۔ ہمارا سیاسی کلچر بھی اس وقت پوری طرح جھوٹ کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ اگر ہم اپنی اصلاح چاہتے ہیں تو ہمیں سال بھر‘ اپنے تمام معمولات میں سچائی کو داخل کرنا چاہیے اور جھوٹ سے ہر قیمت پر گریز کرنا چاہیے۔