"AIZ" (space) message & send to 7575

مسئلہ کشمیر اور بھارتی بربریت

مقبوضہ کشمیر کے مظلوم اور نہتے عوام ایک عرصہ سے بھارتی ظلم وبربریت کا نشانہ بن رہے رہیں۔ مظلوم کشمیری عوام کا جرم فقط یہ ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔ لیکن ان کو غیر آئینی ، غیر اسلامی اور غیر انسانی طریقے سے جبراً بھارت کے ساتھ وابستہ رکھا جا رہاہے۔ کشمیری عوام کے آزادی کے مطالبے کو کچلنے کے لیے وقفے وقفے سے بھارتی حکومت ان کو ظلم وبربریت کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل برہان مظفر وانی کو غیر انسانی طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا گیا جس کے نتیجے میں کشمیر میں آزادی کے مطالبے نے بہت زیادہ زور پکڑ لیا اور اب یکم اپریل کو ایک مرتبہ پھر ظلم وبربریت کی انتہا کر دی گئی ہے۔ 
مقبوضہ کشمیر میںبھارتی فوج نے ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 17کشمیری نوجوان شہید جب کہ 100سے زائد زخمی کر دیئے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق بھارتی قابض فوج نے شوپیاں کے علاقوں دراگڈ اور کچ ڈورہ میں 15 جب کہ اسلام آباد کے علاقے دیال گام میں ایک نوجوان کو محاصرے اور تلاشی کی کارروائیوں کے دوران شہید کیا۔ کچ ڈورہ میں مظاہرین پر قابض فورسز کی فائرنگ کے نتیجے میں دو شہری شہید اور متعدد زخمی ہو گئے۔ بھارتی پولیس نے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ یہ نوجوان بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے اور ان کا تعلق عسکریت پسند تنظیم حزب المجاہدین سے تھا۔ اور ان میں اعلیٰ مجاہد کمانڈر بھی شامل ہیں۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شوپیاں آپریشن کے دوران تین بھارتی فوجی بھی ہلاک ہو گئے۔ تاہم مقامی افراد نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری نوجوانوں کو جعلی مقابلوں میںمارا گیا۔جب کہ پر امن مظاہرین پر فائرنگ سے کچھ نوجوان شہید اور زخمی ہوئے۔ دونوں اضلاع میں کشمیری نوجوانوں کی شہادت کے خلاف مقبوضہ وادی میں زبردست مظاہرے شروع ہو گئے۔
2 اپریل کو موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کی فائرنگ سے مزید 5افراد شہید ہو گئے ۔ان پانچ زخمیوں کی شہادت کے بعد دوروز میں شہید ہونیوالے کشمیریوں کی تعداد 22ہو گئی ۔سینکڑوں زخمی بدستور زیر علاج ہیں، وادی میں تین روزہ سوگ جاری ہے،یوم سیاہ اور ہڑتال کے باعث مقبوضہ وادی کے 13اضلاع مکمل بند،کاروباری مراکز ،تجارتی شٹر ڈاؤن ، انٹر نیٹ ،موبائل اور ریل سروس بدستور معطل ،سکول ،کالج و یونیورسٹی بند،امتحانات ملتوی کردئیے گئے۔ سرینگر سمیت کئی علاقوں میں کرفیو نافذ رہا،متعدد شہروں میں دفعہ 144نافذکردی گئی ۔ مشتعل مظاہرین اور فورسز میں جھڑپیں ہوئیں جن میں مزید متعددافراد زخمی ہوگئے ، مظاہرین نے بھارتی فورسز پر پتھراؤ کیا،کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔بھارتی پولیس نے حریت رہنما یاسین ملک کو دوبارہ گرفتار کر لیا ،سید علی گیلانی اور میرواعظ سمیت اہم حریت رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیاگیا ۔ بھارتی فورسزنے 7شہیدوں کو مجاہد قرار دے کر شناخت جاری کر دی۔ پاکستانی پرچم میں لپٹے شہدا کے جنازوں میں آزادی کے نعرے گونجتے رہے ۔شوپیاں میں شہدا کی نماز جنازہ پر بھارتی فورسز نے شیلنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے ۔
بھارتی فورسزکی طرف سے مقبوضہ وادی میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے جو عالمی قواعد کی شدید خلاف ورزی ہے۔ اس ظلم و بربریت پر جہاں پر مقبوضہ وادی میںبھرپور طریقے سے احتجاج کیا گیا‘ وہیں وفاقی کابینہ، کشمیر کمیٹی اور ملک کے طول وعرض میں مختلف مقامات پر سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے بھی شدید احتجاج کیا۔لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے زیر اہتمام ہونے والے ایک سیمینار میں بھی کشمیر میں جاری ظلم وبربریت پر بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان اقدامات کو انسانیت کش قرار دیا گیا۔
جب بھی کبھی کشمیر میں ظلم اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو پاکستان اس ظلم وبربریت پر بھرپور طریقے سے احتجاج کرتا ہے۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جہاں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام عالم کا طرز عمل افسوس ناک ہے وہیں پر پاکستانی حکمرانوں نے بھی اس حوالے سے تسلی بخش کردار ادا نہیں کیا۔انسانی سطح پراقوام عالم کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن یہ بات مشاہدے میں رہی ہے کہ مغربی اقوام نے ہمیشہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو نظر انداز کیا ہے۔ چنانچہ برما، شام، فلسطین اور افغانستان سمیت جب بھی کبھی کسی مقام پر مسلمانوں کو ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا گیا اقوام عالم نے باخبر ہونے کے باوجود شدید بے حسی اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔کشمیر کا مسئلہ گزشتہ سات دہائیوں سے بین الاقوامی توجہ کا مستحق ہے لیکن عالمی ضمیر ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔ جب کہ اس کے برعکس انڈونیشیا اور سوڈان میں بسنے والے مسیحیوں نے جب علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تو اس مطالبے کو عملی جامہ پہننانے کے لیے بھرپور طریقے سے اثرورسوخ استعمال کیا گیا۔ مغربی اقوام اپنے ممالک میں کیے جانے والے سیاسی مطالبات کو بھی کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کرتیں۔ چنانچہ جب سکاٹ لینڈ میں انگلستان سے ملحق نہ رہنے کے حوالے سے ایک تحریک بپا ہوئی تو اس تحریک پر انتہائی سنجیدگی سے غوروخوض کیا گیا اور سکاٹ لینڈ قوم پرست رہنماؤں کے مطالبے کو نظر انداز کرنے کی بجائے سیاسی طریقے سے حل کیا گیا۔ اہل کشمیر امت مسلمہ کی بھی خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ اس لیے کہ کشمیری عوام پر ہونے والے ظلم وبربریت کا تعلق بنیادی طور پر ان کی مذہبی وابستگی کے ساتھ ہے۔ کشمیر کے بسنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے اور وہ ہندوؤں کے زیر سایہ زندگی نہیں گزارنا چاہتے۔ لیکن امت مسلمہ نے بحیثیت مجموعی اس پر سنجیدگی سے غوروخوض نہیں کیا۔ گو رابطہ اسلامی اور او آئی سی کے پلیٹ فارم پر اس مسئلے کو کئی مرتبہ اجاگر کیا گیا ہے لیکن حقیقی بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کو اُمت کی جس توجہ اور دلچسپی کی ضرورت رہی ہے وہ دلچسپی ہمیشہ مفقود رہی ہے۔ اقوام عالم اور امت مسلمہ کی توجہ چونکہ مسئلہ کشمیر پر پوری طرح مرتکز نہیں ہو سکی اور بھارت نے پراپیگنڈے کے ذریعے کشمیر میں چلنے والی تحریک آزادی کو دہشت گردی اور انتہاء پسندی سے جوڑنے کا تاثر دیا ہوا ہے اس لیے پاکستانیوں کو اس مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر بھی اہل پاکستان کئی اعتبار سے اہل کشمیر پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے دیگر اقوام کے مقابلے میں زیادہ ذمہ دار قرار پاتے ہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کشمیریوں کو پاکستان کے ساتھ انسانی اور مذہبی رشتے کے ساتھ ساتھ قومی نسبت بھی ہے اور ان پر ہونے والے ظلم وبربریت کی بڑی وجہ پاکستان سے ملحق ہونے کی خواہش اور مطالبہ ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے مختلف ادوار میں اس مسئلے کو رائے عامہ کو ہموار کرنے اور سیاسی تائید کو حاصل کرنے کے لیے اُٹھایا تو ضرور ہے لیکن اس حوالے سے جس سنجیدہ کوشش کی ضرورت تھی وہ پاکستان کے حکمرانوں میں نظر نہیں آئی۔ 
ظلم کی لہر کو دیکھ کر وقتی احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو اس حوالے سے اپنے سفارتی مشن کو بھی پوری قوت سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے سفارت خانے اس مسئلے پر جز وقتی حکمت عملی اپنانے کی بجائے کل وقتی لائحہ عمل اپنائیں تو اقوام عالم کے سوئے ہوئے ضمیر کو بہتر انداز میں بیدا ر کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر بھی پوری قوت سے آگے بڑھانا چاہیے اور استصواب رائے کی قرار داد کو عملی جامہ پہنانے کی بھرپور طریقے سے جدوجہد کرنی چاہیے۔ 
مظلوم کشمیری عوام ہمیشہ پاکستان کی راہوں کو تک رہے ہوتے ہیں اور قومی معاملات تو قومی رہے کھیل کے میدان میں ہونے والی فتح پر بھی پاکستان سے اظہار یکجہتی کرتے رہتے ہیں۔ 14اگست والے دن ہی آزادی والا دن قرار دے کر کشمیر میں منایا جاتا ہے۔سات دہائیوں سے ہونے والے شدید ظلم وبربریت کے باوجود اہل کشمیر پاکستان سے دور ہونے پر آمادہ وتیار نہیں ہوئے۔ چنانچہ پاکستانیوں کو کشمیریوں کی وفاداریوں کا پاس کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری اور کردار اچھے طریقے سے ادا کرنا چاہیے اور کشمیریوں کے احساس محرومی کا مداواکرنے کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لانا چاہیے۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر کی جانے والی کسی بھی غفلت کے نتیجے میں کشمیری عوام کی جدوجہد کو زبردست دھچکا پہنچ سکتا ہے اور اس حوالے سے ہونے والے تساہل اور غفلت کو تاریخ کبھی بھی فراموش نہیں کرے گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں