ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ جس شخص کے پاس کچھ مال یا اختیار آ جاتا ہے وہ تکبر اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تکبر اور گھمنڈ کی وجہ سے اس کے دماغ میں فتور آ جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو لافانی اور اپنے پاس موجود نعمتوں کو دائمی سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اس بات کو فراموش کر دیتا ہے کہ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو نعمتیں عطا فرمانے والے ہیں۔ وہ جب چاہیں اور جس کو چاہیں اپنے فضل سے نواز سکتے ہیں اور جب چاہیں اپنی عطا کردہ نعمتوں کو واپس بھی لے سکتے ہیں۔ قرآن وسنت کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ جب بھی کسی شخص یا قوم نے تکبر کیا اس کو ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ ابلیس کی ذلت ورسوائی کا سبب بھی تکبر ہی تھا، ابلیس کے زوال کا واقعہ قرآن مجید کے متعدد مقامات پرموجود ہے۔ جن میں سے ایک مقام درج ذیل ہے:
سورہ ص کی آیت نمبر71 سے 77تک اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: '' جب کہا آپ کے رب نے فرشتوں سے بے شک میں پیدا کرنے والا ہوں ایک انسان کو مٹی سے ۔ تو جب میں درست کر لوں اسے اور میں پھونک دوں اس میں اپنی روح (امر)سے، تو تم گر جاؤ اس کے لیے سجدہ کرتے ہوئے۔ تو سجدہ کیا ان سب فرشتوں نے اکٹھے۔ سوائے ابلیس کے، اس نے تکبر کیا اور وہ ہوگیا کافروں میں سے۔ (اللہ نے) فرمایا اے ابلیس کس (چیز) نے تجھے منع کیا کہ تو سجدہ کرے (اس) کو جسے میں نے پیدا کیا اپنے ہاتھوں سے، کیا تو نے تکبر کیا یا تو تھا اونچے لوگوں میں سے۔ اس نے کہا میں بہتر ہوں اس سے (کیوںکہ) تو نے پیدا کیا ہے مجھے آگ سے اور تو نے پیدا کیا اسے مٹی سے۔ (اللہ نے) فرمایا پھر تو نکل جا اس سے (یعنی اس مقام سے) پس بے شک تو مردود ہے۔ ‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر قوم عاد کا بھی ذکر کیا جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت زیادہ طاقت سے نوازا تھا۔وہ اس طاقت کی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا ہو گئے، یہاں تک کہ انہوں نے اپنے پروردگا کو بھی فراموش کر دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر ان کے واقعے کو بیان کیا جن میں سے سورہ حم سجدہ کا مقام درج ذیل ہے:
اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر13 سے 16 تک ارشاد فرماتے ہیں: ''پھر اگر وہ منہ موڑ لیں تو آپ کہہ دیجئے میں نے ڈرا دیا ہے تمہیں (اس) کڑک سے (جو) عاد وثمود کی کڑک جیسی ہو گی۔ جب آئے ان کے رسول ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے کہ نہ عبادت کرو اللہ کے سوا(کسی کی) انہوں نے کہا اگر ہمارا رب چاہتا (تو) ضرور نازل کر دیتا فرشتوں کو تو بے شک ہم اس کا کہ جس کے ساتھ (یعنی جو دے کر ) تم بھیجے گئے ہو، انکار کرنے والے ہیں۔ پھر رہے عاد تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں ناحق۔ اور انہوں نے کہا کون زیادہ شدید ہے ہم سے قوت میں۔ اور (بھلا) کیا انہوں نے دیکھا کہ بے شک اللہ جس نے پیدا کیا انہیں وہ زیادہ شدید ہے ان سے قوت میں ۔اور وہ ہماری آیات کا انکار کرتے تھے۔ تو ہم نے بھیجی ان پر سخت تند ہوا منحوس (یا مسلسل) دنوں میں تاکہ ہم چکھائیں انہیں رسوائی کا عذاب دنیاوی زندگی میں۔ اور یقینا آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کرنے والا ہے اور وہ مدد نہیں کیے جائیں گے۔‘‘
قرآن مجید ہی میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرعون کا بھی ذکر کیا جو اپنے اقتدار کے نشے میں اس حد تک دھت ہو چکا تھا کہ اپنے آپ ہی کو رب قرار دینا شروع ہو چکا تھا۔ بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کرتا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لوگوں کو فرعون کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ کے حکم پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کو فرعون کے شر سے بچانے کے لیے انہیں اپنے ہمراہ لے کر نکلے تو فرعون نے اپنی فوجوں سمیت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تعاقب کیا ۔اس منظر کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یونس کی آیت نمبر90سے 92 میں یوںبیان فرمایا:''اور ہم نے پار کر دیا بنی اسرائیل کو سمندر سے تو پیچھا کیا ان کا فرعون اور اس کے لشکر نے سرکشی کرتے ہوئے اور زیادتی کرتے ہوئے۔ یہاں تک کہ جب پالیا اس (فرعون ) کو غرق کے عذاب نے (تو) کہا (فرعون نے) میں ایمان لایا بے شک یہ (حقیقت ہے کہ ) نہیں کوئی معبود مگر وہ (کہ) جس پر ایمان لائے بنی اسرائیل اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں(اس کو کہا گیا) کیا اب؟ حالانکہ یقینا تو نے نافرمانی کی تھی (اس سے) پہلے اور تھا تو فساد کرنے والوں میں سے۔ پس آج ہم بچا لیں گے تجھے تیر ے بدن سمیت تاکہ تو نشانی ہو جائے ان کے لیے جو تیرے پیچھے (آنے والے) ہیں ، اور بے شک بہت سے لوگ یقینا ہماری نشانیوں سے غافل ہیں۔ ‘‘
قرآن مجید کی سورہ مدثر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کا ذکر کیا ۔ جس نے تکبر کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پر نازل ہونے والے کلام کو جھٹلایا‘ اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت والے دن اس کی عاقبت اورانجام کے حوالے سے بیان فرماتے ہیں۔ قرآن مجید کی سورہ مدثر کی آیت نمبر8 سے 26 تک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کا ذکر کیا ہے :''پس جب پھونکا جائے گا صور میں۔ تو وہ دن ایک سخت مشکل دن ہو گا۔ کافروں پر آسان نہیں (ہو گا) ۔چھوڑ دیجئے مجھے اور جسے میں نے پیدا کیا اکیلا۔ اور میں نے عطا کیا اس کو مال پھیلا ہوا۔ اور بیٹے حاضر رہنے والے (عطا کیے) ۔ اور میں نے اس کے لیے خوب سامان تیار کیا۔ پھر وہ طمع رکھتا ہے کہ میں زیادہ دوں (اسے) ۔ہر گز نہیں، بے شک وہ ہے ہماری آیات سے بہت عناد رکھنے والا۔ عنقریب میں چڑھاؤں گا اسے ایک دشوار گزار گھاٹی پر۔ بے شک اس نے غوروفکر کیا اور اندازہ لگایا۔(یعنی کیسی بات بنائی)۔ پھر وہ ہلاک کیا جائے اس نے کیسی بات بنائی۔ پھر اس نے دیکھا۔ پھر اس نے تیوری چڑھائی اور برامنہ بنایا۔ پھر اس نے پیٹھ پھیری اور تکبر کیا۔ پھرا س نے کہا نہیں ہے یہ مگر ایک جادو(جو )نقل کیا جاتا ہے۔ مگر یہ انسان کا کلام نہیں ہے ۔ عنقریب میں داخل کروں گا اسے سقر(جہنم)میں۔ ‘‘
اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ابو لہب اور قارون جیسے لوگوں کے انجام کا بھی ذکر کیا جو اپنے مال ودولت پر گھمنڈ کرنے کی وجہ سے سرکشی اور بغاوت پر آمادہ وتیار ہو چکے تھے۔ قارون کو اس کے خزانے سمیت اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین میں دھنسا دیا اور ابولہب کوذلت اور رسوائی کا نشانہ بنا دیا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر37میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو نصیحت کرتے ہوئے تکبر کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے ان کو یہ بات سمجھائی کہ ان کو زمین پر اکڑ کرچلنے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں (کی چوٹی) تک لمبا ہو کر ۔ ‘‘
ان آیات کے ساتھ ساتھ بعض احادیث سے بھی تکبر کی نفی ہوتی ہے۔ جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں عبداللہ ابن عمر ؓسے روایت بیان کی کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ''ایک شخص تکبر کی وجہ سے اپنا تہبند زمین پر گھسیٹتے ہوئے جا رہا تھا کہ اسے زمین میں دھنسا دیا گیا اوراب وہ قیامت تک یوں ہی زمین میں دھنستا چلا جائے گا۔‘‘
بخاری شریف میں عبد اللہ ابن عمر ؓہی سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ: ''جو شخص اپنا کپڑا(پاجامہ یا تہبند وغیرہ)تکبر اور غرور کی وجہ سے زمین پر گھسیٹتا چلے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے بھی نہیں دیکھے گا۔‘‘
بخاری شریف میں ایک روایت مذکور ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ :''میں تمہیں بہشتی آدمی کے متعلق نہ بتا دوں۔ وہ دیکھنے میں کمزور ناتواں ہوتا ہے (لیکن اللہ کے یہاں اس کا مرتبہ یہ ہے کہ ) اگر کسی بات پر اللہ کی قسم کھا لے تو اللہ اسے ضرور پوری کر دیتا ہے ۔اور کیا میں تمہیں دوزخ والوں کے متعلق نہ بتا دوں۔ ہر بد خو، بھاری جسم والا اور تکبر کرنے والا۔ ‘‘
ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تکبرکے ہلاکت خیز انجام کے حوالے سے جو باتیں کلام حمید میں کہیں اور جو باتیں نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمائیں، ہمارے حکمران ، صاحب اثر لوگ اور متمول افراد ان پر غوروخوض کریں اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں پر تکبر کرنے کی بجائے عاجزی اور انکساری کے راستے کو اختیار کریںتاکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت اور پکڑ کی زد میں آنے کی بجائے اس کے فضل اور رحمت کو سمیٹنے والے بن سکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں کو مد نظررکھتے ہوئے تکبر سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔