"AIZ" (space) message & send to 7575

تصویر کے دو رُخ

کسی بھی معاشرے کی تنزلی اور انحطاط میں وی آئی پی کلچر کے پھیلاؤ اور اُبھار کا نمایاں کردار ہوتا ہے۔ مغربی معاشروں میں بالعموم دیکھنے میں آیا ہے کہ وہاں پر سیاسی رہنما اور اہم حکومتی شخصیات اپنے منصب کو پوری ذمہ دار ی سے نبھاتے ہیں۔ عام عوام تک ان کی رسائی کچھ مشکل نہیں ہوتی اور وہ اپنے رہن سہن اور طرز زندگی کے اعتبارسے بالکل سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے مدمقابل ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک میں وی آئی پی کلچر اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ وی آئی پی کلچر کا اظہار طرز زندگی، رہن سہن، لباس، بودوباش اور رویوں کے ساتھ ساتھ ڈیوٹی پر مامور سکیورٹی کے ذریعے بھی ہوتا ہے۔ سپریم کورٹ نے حالیہ دنوں میں ایک مثبت قدم اُٹھایا کہ سکیورٹی کے نام پر اہم شخصیات کے پروٹوکول کے لیے مامور اہلکاروں کو واپس بلا لیا۔ سابق وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی تعداد کم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کے نمایاں رہنماؤں کی سکیورٹی کے لیے تعین اہلکاروں کو بھی واپس بلا لیا گیا۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں کے قائدین اور علماء کی سکیورٹی کرنے والے اہلکاروں کو بھی واپس بلا لیا گیا۔ سکیورٹی کے نام پر پروٹوکول کے لیے استعمال ہونے والے لوگوں کو واپس بلانا ہر اعتبار سے مستحسن ہے اور وی آئی پی کلچر کے خاتمے کی طرف اُٹھایا جانے والا اہم قدم ہے۔ 
تاریخ اسلام اس بات پر شاہد ہے کہ خلفائے راشدین نے انتہائی سادہ زندگی بسر کی۔ عوام کی رسائی ان تک انتہائی آسان تھی اور وہ عوام کے ساتھ گھل مل کر رہا کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ اس اعتبار سے انتہائی مثالی حکمران تھے کہ آپ نے نہ صرف یہ کہ رعایا کی خود تک پہنچ کو انتہائی آسان بنایا بلکہ خود بھی رعایا کے احوال سے خبر دار ہونے کے لیے مدینہ طیبہ اور اس کے گردونواح میں گشت فرمایا کرتے تھے۔ آپؓ نے اپنے گورنروں کی خبر گیری کے لیے بھی انتہائی منظم نظام وضع کیا ہوا تھا اور جب بھی کبھی آپؓ کو اس بات کی اطلاع ملتی کہ گورنر عوام الناس سے کٹ کر زندگی گزار رہا ہے اور اپنے عہدے اور منصب کو عوام پر فوقیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے تو حضرت عمرفاروقؓ سختی سے اس کا مواخذہ کیا کرتے تھے اور اس مسئلے میں معمولی سی کوتاہی بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔ بعد ازاں تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں بھی ایسے حکمران آتے رہے کہ جنہوں نے حکومت میں ہونے کے باوجود عوام سے اپنے تعلق کو انتہائی مضبوط کیے رکھا۔ 
وہ تمام اقدامات جو معاشرے میں طبقاتی تفاوت کو کم اور وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرتے ہیں یقینا وہ مجبور و محروم طبقات کی احساس محرومی کا ازالہ کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ چنانچہ کسی اہم شخصیت کو ایسا اضافی پروٹوکول فراہم کرنا کہ جس کے نتیجے میں عام عوام کی زندگی کو اجیرن بنا دیا جائے یا بعض لوگوں کوما فوق الفطرت مخلوق کے طور پر پیش کیا جائے‘ کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ 
وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو واپس بلانا جہاں پر خوش آئند ہے‘ وہیں پر اس ضمن میں ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ ہمارے ملک میں سکیورٹی کے حالات کئی عشروں کے دوران انتہائی نا گفتہ بہ رہے ہیں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ غیر طبعی طریقے سے دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے دو سابق وزرائے اعظم جناب لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو قاتلانہ حملے کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی اس انداز میں موت یقینا ہمارے سیاسی کلچر میں پائے جانے والے عدم برداشت کے عنصر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پاکستان کے مختلف ادوار میں بہت سے سیاسی رہنما بھی قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنائے جا چکے ہیں۔ بعض قاتلانہ حملے کامیاب نہ ہو سکے لیکن بعض حملے اہم شخصیات کی ہلاکت پر منتج ہوئے۔ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبدالغفور حیدری پر قاتلانہ حملے کیے جا چکے ہیں۔جن میں ان کے بہت سے رفقاء زخمی بھی ہوئے۔ اسی طرح ہمارے ملک میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی بہت سی نمایاں شخصیات بھی دہشت گردی اور قاتلانہ حملوں کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہو چکی ہیں۔ 
حکیم محمد سعید ہمدرد دواخانے کے بانی اور انتہائی قابل شخصیت تھے۔ ان کا علم اور تجربہ ہر اعتبار سے مثالی تھا۔ چند برس قبل حکیم محمد سعید کو انتہائی سفاکی‘ بے دردی اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ صلاح الدین ملک کے ممتاز اور نمایاں صحافی تھے جو اپنے جرأت مندانہ اداریوں اور کالموں کی وجہ سے قارئین کے ایک بڑے طبقے میں انتہائی پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ صلاح الدین کے نکتہ نظر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ وہ صحافت کے میدان کی ایک مایہ ناز شخصیت تھے۔ صلاح الدین کو بھی ایک حملے کے نتیجے میں دار فانی سے کوچ کرنا پڑا اور میدان صحافت کا ایک عظیم ستارہ اس دہشت گردی کے نتیجے میں دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اسی طرح قاتلانہ حملوں کے نتیجے میں مختلف مکاتب فکر کے نمایاں علماء بھی مختلف انداز میںمختلف ادوار میںجاں بحق ہو چکے ہیں۔ والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی اپنے وقت کے نمایاں رہنما اور صاحب تحقیق مصنف تھے۔ راوی روڈ پر ہونے والے ایک جلسے کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں آپ جاں بحق ہو گئے اور حکمرانوں کے دعوؤں کے باوجود آپ کے قاتل گرفتار نہ کیے جا سکے۔ آپ کے سانحے کے بعد بھی مختلف مکاتب فکر کے جید علماء دہشت گردی اور قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنے اور بہت ساروں کواس دار فانی کو خیرباد کہنا پڑا۔ کچھ عرصہ قبل جمعیت علمائے اسلام (سندھ)کے ممتاز رہنما ڈاکٹر خالد محمود سومرو بھی دہشت گردی کے ایک حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہو گئے۔ جمعیت علمائے اسلام نے ان کی اس ناگہانی وفات پر ملک گیر احتجاج کیا لیکن ان کے قاتل نہ پکڑے جا سکے۔ 
ملک کے جید علمائے کرام نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ملی یکجہتی کونسل کے نام پر ایک موثر اور موقر ادا رہ قائم کیا ہے۔ اس ادارے نے ایسا ضابطہ اخلاق تیار کیا ہے کہ جس کے بعد فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی کے امکانات تقریباً معدوم ہو چکے ہیں۔ اس ضابطہ اخلاق کے مطابق مقدسات و اکابرینِ اُمت یعنی خلفائے راشدین، امہات المومنین اور اہل بیت عظام کی تنقیص حرام اور ان کی تکفیر کفر ہے۔ گو اس ضابطۂ اخلاق پر تمام مکاتب فکر کے علماء دستخط کر چکے ہیں لیکن اس کے باوجود تشدد اور نفرت کے سودا گر اور بعض ملک دشمن عناصر ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کے لیے ایسے اقدامات سے باز نہیں آتے جن سے ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور نفرت کو ہوا ملے۔ اسی طرح ملک دشمن ایجنسیاں بھی ملک میں افراتفری پھیلانے کے لیے نمایاں مذہبی شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔بعض عناصر تعلیمی اداروں،مسجدوں اور عبادت گاہوںپر حملہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ماضی میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والا حملہ ہر اعتبار سے قابل مذمت تھااور پوری قوم نے اس کے درد کو محسوس کیا تھا۔ ان تمام واقعات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسجدوں، عبادت گاہوں اور تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ملک کی نمایاں شخصیات کی سکیورٹی کو یقینی بنائے تاکہ ملک کے قیمتی دماغوں اور شخصیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ وی آئی پی پروٹوکول اور کلچر کا خاتمہ ہر اعتبار سے قابل تحسین ہے لیکن ملک کی نمایاں شخصیات کی سکیورٹی اور ان کے جان و ما ل اور املاک کاتحفظ بھی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے۔ اس بات کی امید کی جا سکتی ہے کہ جہاں سپریم کورٹ وی آئی پی کلچر کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے‘ وہیں پر ملک کے ذہین اور اہم افراد کی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔ اس مسئلے کو اگر نظر انداز کیا گیا اور اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو اس کے نتیجے میں بہت سی قیمتی جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے۔ امید ہے کہ سپریم کورٹ اور ارباب اختیار اس اہم نکتے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سکیورٹی کے مستحق افراد کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں