ہمارا معاشرہ سیاسی اعتبار سے جس اخلاقی انحطاط کا شکار ہے اس کی کوئی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ آج سے قبل بھی حکمرانوں پر بددیانتی اور کرپشن کے الزامات لگتے رہے لیکن فی زمانہ سیاسی رہنما جس طرح ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں ماضی میں اس کی کم ہی مثال ملتی ہے۔ ان الزامات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ قومی خزانے کو لوٹنا، مختلف منصوبوں میں مالی غبن کرنا اور کمیشن کے نام پر مال کو ہڑپ کرنا سیاستدانوں کے لیے معمولی بات ہے۔
مالی کرپشن کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی کردار کشی کے الزامات بھی عام ہیں۔ ناجائز تعلقات، جنسی سکینڈلز اور غیر عورتوں سے تعلقات کی باتیں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مالی اور اخلاقی کرپشن کے مصدقہ الزامات کے باوجود لوگ اپنے اپنے محبوب قائدین کا دفاع کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ کئی لوگ تو اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ شاید ان کے رہنماؤں کی کردار کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی جا رہی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پسندیدہ رہنماؤں میں مالی بدعنوانی اور اخلاقی خیانت پائی جاتی ہے پھر بھی ان کی تائید اور حمایت پر آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ گو مغربی ممالک میں آزاد خیالی اور مردوزن کا اختلاط اپنے پورے عروج پر ہے۔ لیکن ان معاشروں کے لوگ اپنے رہنماؤں کو اخلاقی اعتبار سے باکردار دیکھنا چاہتے ہیںاور اگر کسی رہنما پر بداخلاقی کا کوئی الزام ثابت ہو جائے تو اس کے حامی اور مداح اس سے یکسر لاتعلقی اختیار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح قائدین کے حوالے سے مالی بدعنوانی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ مغربی معاشروں کے لوگوں کا یہ تصور ہے کہ قائدین کو مالی اور اخلاقی معاملات میں ہر اعتبار سے عام عوام سے بہتر ہونا چاہیے۔ جب کہ ہمارے یہاں پر معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ہمارے ہاں رہنماؤں کی مالی بدعنوانیوں اور اخلاق کا بگاڑ عوام سے کہیں زیادہ ہے۔ کئی مرتبہ لوگ سرعام یہ بات کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ سیاست شرفاء کا کام نہیں اور نیک لوگوں کا سیاست سے کیا لینا دینا ہے۔ ان رویوں نے ہمارے ملک کے سیاسی کلچر کو بری طرح مجروح کیاہے اور سیاسی رہنما بھی اس حقیقت سے پوری طرح باخبر ہو چکے ہیں کہ وہ مالی اور اخلاقی بدعنوانیوں کے باوجود عوام کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امانت داری انتہائی اہم ہے اور مالی اور اخلاقی بدعنوانیوں کی قباحت اور سنگینی انتہائی زیادہ ہے۔ اسی حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ النساء کی آیت نمبر58 میں ارشاد فرماتے ہیں:
''بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے ، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے‘‘قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کو بیان کیاگیا کہ جب انہیں بادشاہِ وقت نے اپنے لیے خاص کیا اور انہوں نے وزارت خزانہ کو اپنے لیے چنا۔ تو اس موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ بے شک میں حفاظت کرنے والا اور جاننے والا ہوں۔ آپ کی امانت ودیانت کی وجہ سے جب عالمی قحط نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا تو جہاں پر اہل مصر آپ کی امانت ودیانت داری کی وجہ سے اس بحران پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ،وہیں پر دنیا بھر سے بھی لوگ اپنی غذائی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے مصر سے رجوع کیا کرتے تھے۔
احادیث مبارکہ میں بھی مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے سخت الفاظ میں تنبیہ کی گئی ہے۔ اس ضمن میں بخاری شریف کی تین احادیث درج ذیل ہیں:
حدیث نمبر 1۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا :''کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔‘‘
حدیث نمبر2۔ عمران بن حصین ؓروایت کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''تم میں سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، اس کے بعد ان کا جو اس کے قریب ہوں گے۔ اس کے بعد وہ جو اس سے قریب ہوں گے۔‘‘عمران نے بیان کیا کہ مجھے یاد نہیں نبی کریمﷺنے اپنے زمانہ کے بعد دو کا ذکر کیا تھا یا تین کا ( فرمایا کہ) پھر ایک ایسی قوم آئے گی جو نذر مانے گی اور اسے پورا نہیں کرے گی، خیانت کرے گی اور ان پر اعتماد نہیں رہے گا۔ وہ گواہی دینے کے لیے تیار رہیں گے جب کہ ان سے گواہی کے لیے کہا بھی نہیں جائے گا اور ان میں مٹاپا عام ہو جائے گا۔
حدیث نمبر3۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے خلاف کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔"
نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں جب بنو مخزوم کی ایک عورت نے چوری کی اور اسامہ ابن زیدؓ کو ان کا سفارشی بنا کر بھیجا گیا تو نبی کریمﷺ نے فرمایا ''اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کے بھی میں ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ ‘‘احادیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ملک وملت کے رازوں کی بھی حفاظت کرنی چاہیے اور اس حوالے سے کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بخاری شریف میں اس حوالے سے ایک اہم حدیث مذکور ہے ۔ حضرت علی ؓ بیان فرماتے ہیں رسول ﷺ نے مجھے زبیر بن عوام ؓاور ابومرثد غنوی ؓکو بھیجا۔ ہم سب گھوڑ سوار تھے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ جاؤ اور جب روضہ خاخ ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک مقام ) پر پہنچو تو وہاں تمہیں مشرکین کی ایک عورت ملے گی اس کے پاس حاطب بن ابی بلتعہؓ کا ایک خط ہے جو مشرکین کے پاس بھیجا گیا ہے ( اسے لے آؤ ) ۔ بیان کیا کہ ہم نے اس عورت کو پا لیا وہ اپنے اونٹ پر جا رہی تھی اور وہیں پر ملی ( جہاں ) نبی کریم ﷺنے بتایا تھا۔ بیان کیا کہ ہم نے اس سے کہا کہ خط جو تم ساتھ لے جا رہی ہو وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ ہم نے اس کے اونٹ کو بٹھایا اور اس کے کجاوہ میں تلاشی لی لیکن ہمیں کوئی چیز نہیں ملی۔ میرے دونوں ساتھیوں نے کہا کہ ہمیں تو کوئی خط نظر نہیںآتا ۔ بیان کیا کہ میں نے کہا، مجھے یقین ہے کہ نبی کریم ﷺنے غلط بات نہیں کہی ہے۔ قسم ہے اس کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، تم خط نکالو ورنہ میں تمہیں ننگا کر دوں گا۔ بیان کیا کہ جب اس عورت نے دیکھا کہ میں واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہوں تو اس نے ازار باندھنے کی جگہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، وہ ایک چادر ازار کے طور پر باندھے ہوئے تھی اور خط نکالا۔ بیان کیا کہ ہم اسے لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم ﷺنے دریافت فرمایا کہ حاطب تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں اب بھی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہوں۔ میرے اندر کوئی تغیر و تبدیلی نہیں آئی ہے، میرا مقصد ( خط بھیجنے سے ) صرف یہ تھا کہ ( قریش پر آپ کی فوج کشی کی اطلاع دوں اور اس طرح ) میرا ان لوگوں پر احسان ہو جائے اور اس کی وجہ سے اللہ میرے اہل اور مال کی طرف سے ( ان سے ) مدافعت کرائے۔ آپ کے جتنے مہاجر صحابہ ہیں ان کے مکہ مکرمہ میں ایسے افراد ہیں جن کے ذریعہ اللہ ان کے مال اور ان کے گھر والوں کی حفاظت کرائے گا۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ انہوں نے سچ کہہ دیا ہے اب تم لوگ ان کے بارے میں سوائے بھلائی کے اور کچھ نہ کہو۔ بیان کیا کہ اس پر عمر بن خطاب ؓنے فرمایا کہ اس شخص نے اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خیانت کی، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا: عمر! تمہیں کیا معلوم، اللہ تعالیٰ بدر کی لڑائی میں شریک صحابہ کی زندگی پر مطلع تھا اور اس کے باوجود فرمایا کہ تم جو چاہو کرو، تمہارے لیے جنت لکھ دی گئی ہے، بیان کیا کہ اس پر عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک آلود ہو گئیں اور عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جاننے والے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میںجس طرح مالی کرپشن کی مذمت کی گئی ہے اسی طرح اخلاقی کرپشن کی بھی بھر پور انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ چنانچہ غیر شادی شدہ زانی کے لیے قرآن کریم میں سو کوڑوں کی سزا کو مقرر کیا گیا ۔ جب کہ شادی شدہ زانی کے لیے حدیث میں سنگسار کی سزا کو مقرر کیا گیا اور زنا کرنا تو بڑی دور کی بات ہے سورہ بنی اسرائیل میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا گیا۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ بدکرداری تو بڑی دور کی بات ہے کسی غیر کو عورت کو بری نگاہ سے دیکھنے کی بھی اسلام میںکوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ان تمام آیات اور احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ان لوگوں کو منتخب کرنا چاہیے جو مالی اور اخلاقی برائیوں سے پاک ہوں اور ملک وملت کے وفادار ہوں۔ اسی طریقے سے ہم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تابعداری کے راستے پر چلنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔