جوں جوں قومی انتخابات قریب آ رہے ہیں ملکی سیاست میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان اور ہمنواؤں میں بہت زیادہ بے چینی اور اضطراب پایا جا رہا ہے‘ جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ناقدین اور مخالفین نے اس کو انصاف کا بول بالا اور آئندہ آنے والے ادوار میں مالی کرپشن کے خاتمے کے لیے سنگ میل قرار دیا ہے۔ میاں محمد نواز شریف کی نااہلی مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت بڑا دھچکا تھی۔ ابھی مسلم لیگ (ن) کے کارکنان سنبھلنے بھی نہ پائے تھے کہ جمعرات کے دن یہ خبر موصول ہوئی کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کو نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے غیر ملکی اقامے اور بینک اکاؤنٹس کو چھپا کر رکھا۔ مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا جبکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے عدالتی فیصلے پر بہت زیادہ خوشی کا اظہار کیا اور تحریک انصاف کے حلقوں میں اس فیصلے پر باقاعدہ مٹھائیاں بانٹی گئیں۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی عثمان ڈار کی طرف سے مٹھائی کھلائی گئی۔ عمران خان نے اس فیصلے پر بہت زیادہ مسرت کا اظہار کیا اور وہ اس فیصلے کو اپنے سیاسی مستقبل کے لیے خوش آئند سمجھ رہے ہیں۔ عمران خان کے ناقدین کے اس موقع پر جذبات یہ ہیں کہ خان صاحب عدالت کے فیصلوں پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ اس قسم کے فیصلے سیاسی میدان اور قومی اسمبلی میں ہونے چاہئیں۔ حالیہ فیصلوں کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ اس جماعت میں دھڑے بندی ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے اور جنوبی پنجاب محاذ کے نام پر کئی ایم این ایز ایک علیحدہ گروپ بنا کر پارٹی سے بغاوت پر آمادہ و تیار ہو چکے ہیں۔ اگر حالات اسی طرح رہے تو مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کو آئندہ انتخابات میں جہاں اس کیمپین کے نتیجے میں ہمدردی کا ووٹ ملنے کا امکان ہے وہیں پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی نااہلی پر بہت سے کارکن اور ووٹر مایوسی اور اکتاہٹ کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مخالفین اس صورتحال کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی انتخابی کیمپین کو بھرپور انداز میں چلانے کی کوشش کریں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی طرح تحریک انصاف بھی اس وقت سرگرم نظر آ رہی ہے اور آج 29 اپریل کو لاہور میں بھرپور طریقے سے اپنی عوامی طاقت کا اظہار کرنے کی منصوبہ بندی کر چکی ہے۔ تحریک انصاف کے جلسے کی تیاریاں پورے زور و شور سے جاری ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف میں شمولیت کے لیے لوگ لائنیں لگا کر کھڑے ہیں اور وہ آئندہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ ملک میں نوجوانوں کا ایک بڑا حلقہ عمران خان کی شخصیت کے ساتھ وابستہ ہو چکا ہے اور وہ ہر قیمت پر ان کو ووٹ دینے پر آمادہ و تیار ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے رہنما اور کارکنان کے لیے یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمران خان کے ناقدین ان کو کسی کا مہرہ قرار دیتے ہوئے ایک غیر سیاسی عنصر سے تعبیر کرتے ہیں۔ مذہبی حلقوں میں بھی عمران خان کے حوالے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ان کے جلسے، جلوسوں اور اجتماعات میں جس طرح لبرل کلچر کا اظہار ہوتا ہے‘ اس سے مذہبی فکر کے لوگ ملک کے سماجی ڈھانچے اور مذہبی تشخص کے حوالے سے تشویش کا شکار نظر آتے ہیں۔ بعض سیاسی لوگوں کے نزدیک عمران خان کی سیاست سنجیدگی کی بجائے جذباتیت اور الزام تراشی کی آئینہ دار ہے۔ عمران خان کے ہمنوا جہاں جوشیلے انداز میں ان کی حمایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں وہیں پر ان کے ناقدین ان پر شدید تنقید کرتے ہوئے بھی ملتے ہیں۔ عمران خان کی جماعت میں ملک بھر سے بہت سی سیاسی شخصیات شامل ہو رہی ہیں جو کہ تحریک انصاف کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے‘ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاسی شخصیات کو پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں مختلف علاقوں میں نئی دھڑے بندیاں بننے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور بہت سے امیدوار ٹکٹ نہ ملنے کے باوجود سیاسی میدان میں اترنے سے پیچھے نہیں رہتے۔ ان حالات میں پارٹی کو داخلی خلفشار اور دھڑے بندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحریک انصاف اور عمران خان اس ساری صورتحال پر کس طرح قابو پاتے ہیں یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو گا۔ اپنے ووٹروں کو دھڑے بندی سے بچا لیا اور اگر انہوں نے یکسوئی اختیار کی تو آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف ایک بڑی قوت کے طور پر ابھر سکتی ہے۔
پنجاب میں تحریک انصاف کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تصور کیا جا رہا ہے‘ جب کہ صوبہ سرحد میں تحریک انصاف نے ماضی کے انتخابات میں مختلف دینی جماعتوں کے مقابلے میں کامیابی حاصل کی تھی‘ لیکن دینی جماعتوں کا اتحاد 'متحدہ مجلس عمل‘ بننے کے بعد صوبہ سرحد کے الیکشن میں گزشتہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا تحریک انصاف کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل بھی بہت حد تک فعال ہو چکا ہے۔ ملک بھر میں تنظیم سازی اپنے پورے عروج پر ہے۔ 27 اپریل کو ایم ایم اے کی مرکزی کونسل کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ جس میں مولانا فضل الرحمن، سراج الحق، حافظ عبدالکریم، شاہ اویس نورانی، مولانا ساجد نقوی اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔ میں بھی اس اجلاس میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے نمائندے کی حیثیت سے موجود تھا۔ اجلاس میں متحدہ مجلس عمل کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ تقریباً ملک بھر میں ضلعی تنظیمات کو مکمل کر لیا گیا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مرکزی ورکرز کنونشن 2 مئی کو اسلام آباد کنونشن سینٹر میں منعقد ہو گا۔ اس کے بعد 9 مئی ملتان اور 12 مئی کو مستونگ یا بلوچستان کے کسی اہم مقام پر جلسۂ عام کا انعقاد کیا جائے گا‘ جبکہ 13 مئی کو مینارِ پاکستان پر ملک گیر اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا۔ ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں متحدہ مجلس عمل کا متحرک ہونا یقینا دینی کارکنوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہے۔
دینی جماعتیں جب بھی متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لیتی ہیں انہیں عوام کی ایک بڑی تعداد کی توجہ اور تائید حاصل ہوتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت جن حالات سے دوچار ہے اس صورتحال میں پنجاب میں متحدہ مجلس عمل دائیں بازو کے ووٹروں کے لیے ایک متبادل کے طور پر سامنے آ سکتی ہے جبکہ صوبہ سرحد میں اپنے مشترکہ اور متحدہ لائحہ عمل کی وجہ سے بھی متحدہ مجلس عمل کو پزیرائی حاصل ہو سکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے پاس بین الاقوامی سطح پر سامراجیت کی اسلام دشمنی اور مختلف ممالک میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر مسلمان حکمرانوں کی خاموشی اور بالخصوص پاکستانی حکمرانوں کی غفلت کے حوالے سے کہنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ اسی طرح پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جیسے تصورات یا جیسا ویژن متحدہ مجلس عمل کے پاس موجود ہے وہ دینی کارکنوں کی توجہ کو سمیٹنے کا سبب ہے۔ گو متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں پر کئی حلقوں کی طرف سے کڑی تنقید کی جاتی ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اللہ کی حاکمیت اور نظام مصطفیﷺ کے نفاذ کے حوالے سے سیاسی اور آئینی جدوجہد کے لیے اسلام کے ہمنواؤں کے پاس متحدہ مجلس عمل کے علاوہ کوئی ایسا پلیٹ فارم موجود نہیں جس پر وہ اپنے جذبات، خواہشات اور نیک تمناؤں کا اظہار کر سکیں۔ پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے حوالے سے متحدہ مجلس عمل مذہبی لوگوں اور عام لوگوں کی توجہ کو سمیٹنے میں کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اس کا تعلق اس امر کے ساتھ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کے قائدین کس انداز میں اپنی انتخابی مہم کو چلاتے اور متحدہ مجلس عمل کے اجتماعات میں کارکنان کس حد تک شرکت کرتے ہیں۔ مستقبل کا سیاسی منظر نامہ کیا ہو گا؟ اس بات کا حقیقی فیصلہ تو 2018ء کے انتخابات کریں گے لیکن اس سے قبل چلنے والی انتخابی مہم اور اجتماعات کے انعقاد کے نتیجے میں سیاسی مبصرین کے لیے مستقبل کے بارے میں اپنے تجزیات کو پیش کرنا آسان اور سہل ہوتا چلا جائے گا۔