"AIZ" (space) message & send to 7575

دینی جماعتیں

متحدہ مجلس عمل کے قیام کے ساتھ ہی پاکستان کے مذہبی اور سیاسی حلقوں میں مختلف قسم کی چہ مگوئیاں شروع ہو چکی ہیں۔ بعض لوگ متحدہ مجلس عمل کے قیام کو پاکستان کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں جب کہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اقتدار پرست علماء کا ٹولہ ہے جو حالات کی مناسبت سے ملک کے اقتدار پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے مذہبی جماعتوں کے ماضی کے کردار پر بھی تنقید کی جاتی ہے اور علماء اور مذہبی رہنماؤں کے بارے میں مختلف قسم کے تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے۔ اگر تاریخ پاکستان پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کمزوریوں کے باوجود دینی جماعتوں نے مختلف ادوار میں پاکستانی عوام کی نظریاتی ، مذہبی اور قومی معاملات میں بڑے احسن انداز میں رہنمائی کی ہے۔ پاکستان کے آئینی خدوخال کو واضح کرنے اور آئین میں کتاب وسنت کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے علماء نے اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ 
تمام مکاتب فکر کے 31جید علماء کے 22 نکات پاکستان کے اسلامی تشخص کو اجاگر کرنے کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان 22 نکات پر علماء نے بغیر کسی حکومتی معاونت اور کوشش کے ازخود اتفاق کیا اور قوم کے سامنے ایک ایسی دستاویز کو رکھا جس پر عمل پیرا ہو کر پاکستان کا اسلامی اور نظریاتی تشخص بھر پور طریقے سے اجا گر ہو سکتا ہے۔ قرار داد مقاصد کا آئین میں شامل ہونا اور 73ء کے آئین کی اسلامی دفعات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ دینی جماعتوں کے مطالبات اور ان کی کاوشوں کے نتیجے میں پاکستان کا آئین ہر اعتبار سے کتاب وسنت کی بالاد ستی کا علمبردار اور آئینہ دار ہے اور اس کی بدولت پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے لیے سیاسی جدوجہد کے خدوخال بہترین انداز میں واضح ہو چکے ہیں۔ 
آئینی جدوجہد کے ساتھ ساتھ پاکستان میں منکرین ختم نبوتﷺ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے لیے دینی جماعتوں نے متحد ہو کر انتہائی مؤثر کردار ادا کیا۔ اس حوالے سے سن 53ء میں بھی ایک بھرپور تحریک کو چلایا گیا اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے بڑے بڑے اجتماعات، جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کیا گیا۔ بعدازاں تحریک ختم نبوتﷺ مختلف مراحل سے گزرتی رہی ۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں عوامی اجتماعات سے شروع ہونے والی یہ تحریک پارلیمان کی سطح پر جا پہنچی اور منکرین ختم نبوتﷺ کے نمائندگان اور اہل اسلام کے درمیان ہونے والی بحث ومباحثے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور ان کی کابینہ کے لوگ اس بات پر آمادہ وتیا ر ہو گئے کہ ان گروہوں کو جو نبی کریمﷺ کو آخری نبی نہیں مانتے آئینی طور پر دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا جائے۔ 
70ء کا عشرہ اس اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ سوشل ازم کو پاکستان میں لاگو کرنے کے لیے پاکستان پیپلزپارٹی کے قائدین پوری طرح وتیار ہو چکے تھے۔ ان حالات میں اس بات کا شدید اندیشہ تھا کہ پاکستان ایک سیکولر اور لبرل اشتراکی پاکستان کی شکل اختیار کر جائے گا چنانچہ پاکستان کے مذہبی تشخص کو بحال رکھنے کے لیے دینی جماعتوں نے سیاسی جماعتوں کی ہمراہی میں تحریک نظام مصطفی ﷺ کو بپا کیا اور پاکستان کے نظریاتی تشخص کی بھرپور انداز میں حفاظت کی۔ 1977ء کے انتخابات بھی تحریک نظام مصطفی ﷺ ہی کے تناظر میں منعقد ہوئے اور قومی اتحاد نے اس میں بھرپور طریقے سے حصہ لیا۔ دھاندلی کے الزامات کے سبب یہ الیکشن کالعدم ہو گئے۔ لیکن ایک مرتبہ یہ بات طے ہو گئی کہ ملک کی جہت کو اسلام سے ہٹا کر لبرل ازم کی طرف منتقل کرنے کی کوئی کوشش بھی اہل اسلام اور اہل پاکستان قبول نہیں کریں گے۔ 
جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب پاسپورٹ سے مذہب کا خانہ نکال دیا گیا اور اس بات کہ امکانات پیدا ہو گئے کہ منکرین ختم نبوت مذہب کے خانے کے حذف ہونے کی وجہ سے حجاز مقدس میں داخل ہو نے میں کامیاب ہو جائیں گے تو مذہبی جماعتوں کے قائدین نے بھرپور انداز سے ایک منظم تحریک کو چلایا اور آبپارہ چو ک میں عظیم الشان جلسہ عام کا انعقاد کیا گیا جس سے پاکستان کے نمایاں مذہبی قائدین اور رہنماؤں نے خطاب بھی کیا۔ اس اجتماع میں مجھے بھی شرکت اور خطاب کا موقع میسر آیا ۔ اس اجتماع کی اثرپذیری کی وجہ سے جنرل پرویز مشرف مذہب کے خانے کو دوبارہ بحال کرنے پر آمادہ وتیار ہو گئے۔ جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں امریکہ کے مطالبے پر پاکستان نے افغانستان پر حملے کے لیے اپنے اڈوں کو امریکہ کے حوالے کیا ۔ اس اقدام کے خلاف ایک مرتبہ پھر ملک کی مذہبی جماعتیں میدان عمل میں اتریں۔ متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم کو تشکیل دیا گیا اور اس پلیٹ فارم کو عوام کی زبردستی تائید حاصل ہوئی ۔2002ء کے انتخابات میں عالمی سامراجیت کے خلاف منظم ہونے والے اس اتحاد نے مرکز میںنمایاں کامیابی حاصل کرتے ہوئے حزب اختلاف کے سب سے بڑے دھڑے کی شکل اختیار کی اور صوبہ سرحد میں اپنی حکومت کو قائم کیا۔ صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی قائم ہونے والی حکومت اس اعتبارسے مثالی رہی کہ دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی اور یہ دور امن وامان کے اعتبار سے مثالی ثابت ہوا۔ 
سیاسی محاذ پر پیش قدمی کے ساتھ ساتھ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار ر کھنے اور دفاع پاکستان کے حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے مذہبی جماعتوں کے دو پلیٹ فارمز نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ ملی یکجہتی کونسل میں شامل تمام مکاتب فکر کے جیدعلماء نے ملک میں بقائے باہمی اور ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ایک مربوط اور مؤثر دستاویز کو تیار کیا جس پر تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے دستخط کیے۔ اس دستاویز میںمقدسات اُمت یعنی خلفائے راشدینؓ، امہات المومنین ؓ اور اہل بیت عظام کی تکفیر کوکفر اور ان کی تنقیص کو حرام قرار دیا گیا ۔ اس دستاویز کے ذریعے حکومتی معاونت کے بغیر علماء نے اپنی مدد آپ کے تحت ملک بھر میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور افتراق میں نمایاں کمی واقع ہوئی۔ دفاع پاکستان کونسل نے نیٹو سپلائی کی بندش اور قومی سرحدوں کے تحفظ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ملک کے طول وعرض میں بروقت بڑے بڑے اور مؤثر اجتماعات کا انعقاد کر کے دفاع وطن کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا اور پاکستان کے دشمنوں کو پیغام دیا کہ اسلامی نظریاتی ریاست کے تحفظ کے لیے علمائے دین، مذہبی ادارے اور دینی جماعتیں اپنے تن من دھن کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ 
دینی جماعتیں ملک کے طول وعرض میں ہزاروں مساجد اور سینکڑوں مدارس میں دینی تعلیم کے عظیم فریضے کو انجام دے رہی ہیں اور اس حوالے سے قیام پاکستان سے لے کر اب تک دینی جماعتوں نے حکومت وقت سے کسی قسم کی معاونت کو طلب نہیں کیا۔ متوسط اور سطح غربت سے نیچے رہنے والے گھرانوں کے ہزاروں طلبہ ان دینی مدارس میں تعلیم و تربیت کو حاصل کر رہے ہیں۔ ان مدارس کی وجہ سے معاشرے میں نوجوان نسل کی دینی اور اخلاقی تربیت کے ساتھ ساتھ گدا گری اور جرائم کے خاتمے میں بھی زبردست معاونت حاصل ہو رہی ہے ۔ دینی جماعتوں کے خدمت خلق کے شعبہ جات بھی دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ مؤثر اور منظم انداز میں کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔یہ ادارے ملک بھر میں بیسیوں ہسپتال، طبی مراکز، ایمبولینسیں اور ہزاروںرضا کاروں کی تعلیم وتربیت کے فریضے کو انجام دے رہے ہیں۔ ان تمام خدمات کے باوجود سیاسی سطح پر عرصہ دراز سے دینی جماعتوں کے بارے میں منفی پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے اور ان کی کردار کشی کے حوالے سے منظم مہم چلائی جاتی ہے۔ اس منظم مہم کا بہت بڑا مقصد لوگوں کو سیاسی اعتبار سے دینی جماعتوں سے بدظن کرنا اور اپنے اقتدار کی راہوں کو ہموار کرنا ہے۔ دینی جماعتوں پر ایک بہت بڑا الزام یہ ہے کہ یہ ملک میں فرقہ وارانہ تقسیم کی ذـمہ دار ہیں لیکن جب دینی جماعتیں متحد ہو جاتی ہیں تو اس وقت ان کے اتحاد کو مادی مفادات کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے ۔ 
متحدہ مجلس عمل ایک مرتبہ پھر اللہ کی حاکمیت ، نظام مصطفی ﷺ کی عمل داری اور خدمت انسانیت کے لیے میدان عمل میں موجود ہے ۔ رائے عامہ کو اس موقع پر ٹھنڈے دل سے دینی جماعتوں کے ماضی ، حال اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ پر ان کی تائید یا مخالفت کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ متحدہ مجلس عمل اپنی رابطہ مہم کا آغاز کر چکی ہے اور آج 2 مئی کو اسلام آباد کنونشن سنٹر میں ایک بڑے کنونشن کا انعقاد ہو رہا ہے ۔ 9مئی کو ملتان ،12 مئی کو بلوچستان اور 13مئی کو مینار پاکستان پر ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان اجتماعات میں متحدہ مجلس عمل کے قائدین رائے عامہ کی رہنمائی کے لیے اپنے منشور کو بیان کریں گے۔ دینی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کا حقیقی فیصلہ 2018ء کے انتخابات کریں گے ۔ لیکن متحدہ مجلس عمل کی کامیابی یا ناکامی کے بارے میں تجزیہ نگار متحدہ مجلس عمل کے اجتماعات کو دیکھ کر تجزیہ اور تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں