دنیا بھر میں مختلف طرح کے سیاسی تصورات اور نظام پائے جاتے ہیں۔ کہیں پر بادشاہت ہے تو کہیں جمہوریت ۔ اسی طرح دنیا کے بہت سے ملکوں میں معاشی حوالے سے بھی مختلف طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ بعض ممالک اشتراکیت اور دیگر بہت سے ممالک سرمایہ دارانہ نظام پر یقین رکھتے ہیں۔ معاشی اور سیاسی اعتبار سے دنیا مختلف ممالک میں تقسیم ہے ۔دنیا میں اس وقت بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت کا تصور زیادہ پھیلاؤ اور مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ ہر معاشرہ اپنے مخصوص معروضی حالات اور ضروریات کے تحت اپنے سیاسی نظام کو چلانے کی کوشش کرتا ہے۔
بادشاہی نظام میں ریاست اور سیاست کا پہیہ مکمل طورپر بادشاہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اگر بادشاہ کی سمت اور اہداف درست ہوں تو پورا معاشرہ درست سمت میں چل پڑتا ہے اور اگر بادشاہ کی سمت اور اہداف منفی ہوں تو پورا معاشرہ منفی پالیسیوں کو برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بادشاہت میں نظام کی تبدیلی کے امکانات بھی بہت کم ہوتے ہیں اور بالعموم بادشاہت میں کی جانے والی تبدیلیوں کی کوششیں باغیوں کے خاتمے پر منتج ہوتی ہیں۔ گو دنیا میں بادشاہت کی تبدیلی کی مثالیں بھی موجو د ہیں لیکن عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ بادشاہت کو تبدیل کرنے کے بعد ایک نیا خاندان ملک کے سیاہ وسفید کا مالک بن جاتا ہے اور ایک نئی بادشاہت عوام پر مسلط ہو جاتی ہے۔ تاریخ انسانیت میں جہاں فرعون اور نمرود جیسے بہت سے ظالم بادشاہ گزرے وہیں پر بہت سے نیک اور اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈر جانے والے بادشاہ بھی گزرے ہیں۔ حضرت طالوتؑ، حضرت داؤدؑ، حضرت سلیمانؑ کی بادشاہت اس اعتبار سے مثالی تھی کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اورعوام کی فلاح وبہبود کے جذبے سے سرشار تھے۔ انہوں نے زمین پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی پاسداری کرتے ہوئے حکومت کی اور رائے عامہ کے مسائل کو احسن طریقے سے حل کرتے رہے۔ جناب ذوالقرنینؑ نے بھی زمین پر بڑے احسن انداز میں حکومت کی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات کی پاسداری فرماتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کے مختلف سفروں کا ذکر ہے جن میں سے ایک سفر ایسی بستی کی طرف کیا گیا جہاں پر یاجوج وماموج نے فساد پھیلایا ہوا تھا۔ جناب ذوالقرنین نے بستی والوں کو ایک تدبیر کے ذریعے ان کے فساد سے محفوظ فرما دیا۔ اور پہاڑ کے عقب سے حملہ آور ہونے والے یاجوج وماموج اور بستی والوںکے درمیان مضبوط فولادی دیوار کو کھڑا کر کے ان کی پیش قدمی کو روک دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بادشاہت عطا کی۔ جس کے ذریعے جہاں پر وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی حاکمیت کے لیے کوشاں رہے وہیں پر آپؑ نے مالیاتی نظام کو انتہائی منظم اور خوبصورت انداز میں رواں دواں رکھا۔
اسلام ایک ہمہ گیر مذہب اور مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے۔جس نے اپنے ماننے والوں کی زندگی کے تمام شعبوں میں مکمل رہنمائی کی ہے۔ نبی کریمﷺ جہاں پر روحانی ، اعتقادی اور اخلاقی معاملات میں اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بہترین انداز میں تربیت فرماتے رہے وہیں پر آپﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ ہر اعتبار سے ایک مثالی ریاست تھی۔ ریاست مدینہ کے خدوخال پر جب غور کیا جاتا ہے تو اس میں مندرجہ ذیل خوبیاں نظر آتی ہیں:
1۔اللہ تعالیٰ کی توحید اور حاکمیت کا قیام: نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ بداعتقادی کے خاتمے کے لیے کوشاں رہی اور بت پرستی، سورج اور چاند کی پرستش، شجر اور حجر پرستی کی بجائے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو فروغ دینے کے لیے آپﷺ ساری زندگی کوشاں رہے۔
2۔ نظام صلوٰۃ کا قیام : نبی کریمﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے لیے نظام صلوٰۃ کا انتہائی منظم اور مربوط انداز میں نظام قائم تھا۔ مسجد نبوی کے گرد بسنے والے صحابہ کرام مسجد نبوی میں نمازوں کو ادا کرتے اور دیگر مقامات پر بسنے والے صحابہ کرام اپنے علاقوں میں موجو د مسجدوں میں نماز ادا کرتے اور اپنی پیدائش اور تخلیق کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے۔
3۔ مرکزی بیت المال کا قیام: نبی کریمﷺ کی ریاست مدینہ میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے مرکزی بیت المال کا نظام قائم کیا گیا تھا جس میں زکوٰۃ اور صدقات کو جمع کیا جاتا اور عوام کے مسائل کو حل کرنے کی سعی کی جاتی۔
4۔ معروف کی نشرواشاعت: ریاست مدینہ میں ہر اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی اور ایک دوسرے کی خیر خواہی اور فلاح وبہبود کے کاموں میں ایک دوسرے سے مکمل تعاون کیا جاتا تھا۔
5۔ منکرات کا خاتمہ: ریاست مدینہ میں منکرات کے خاتمے کے لیے سعی کی جاتی تھی۔ چنانچہ جرائم کے خاتمے کے لیے حدوداللہ کو قائم کیا گیا۔ جس کے تحت چور کا ہاتھ کاٹنا، شرابی کو کوڑے لگانا، جھوٹی تہمت لگانے والے کو اسی درے لگانا، شراب نوشی اور منشیات کا استعمال کرنے والوں کو کوڑے لگوانا اور دیگر جرائم کی بیخ کنی شامل تھا۔ ریاست مدینہ میں فواحش اور منکرات کی کوئی گنجائش موجود نہ تھی اور بدنیت اور بدطینت عناصر ریاست مدینہ میں برائی کے پھیلاؤ سے گریز کرنے پر مجبور تھے۔
6۔ انصاف کی فراہمی: ریاست مدینہ میں انصاف اور عدل کا بول بالا تھا اور مدینہ میں بسنے والا کوئی بھی شہری کسی دوسرے کی حق تلفی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ نبی کریم ﷺ کی ریاست میں بڑے چھوٹے کے لیے قانون یکساں تھا۔ چنانچہ جب بنو مخزوم کی ایک نامی گرامی عورت نے چوری کی اورنبی کریمﷺ کے محبوب صحابی اسامہ ابن زید ؓ اس کی سفارش لے کر آئے تو نبی کریمﷺ نے اس سفارش کو قبول نہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا اور آپﷺ نے اس موقع پر سابقہ اقوام پر آنے والے عذابوں کی ایک بڑی وجہ یہ بھی بتلائی کہ جب ان میں کوئی بڑا جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی چھوٹا جرم کرتا تو اس کوسزا دی جاتی۔
7۔ اقلیتوں کے حقوق: ریاست مدینہ میں اقلیتوں کو بھی پورے پورے حقوق حاصل تھے ا ور مذہبی اختلاف کی بنیاد پر ان کی کسی بھی قسم کی حق تلفی کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ مذہبی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو انتقام کا نشانہ بنانا یا اس پر ظلم وستم کرنے کا ریاست مدینہ میں کوئی تصور نہ تھا۔
8۔ دفاع مدینہ کا منظم طریقے سے اہتمام: ریاست مدینہ دفاعی اعتبار سے بھی ایک منظم ریاست تھی جو بیرونی حملہ آوروں کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی مکمل صلاحیت رکھتی تھی۔ جب بھی کبھی کفار مکہ نے مدینہ طیبہ پر جارحیت کرنے کی کوشش کی تو نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ کرامؓ کی ہمراہی میں ریاست مدینہ کے دفاع کے لیے منظم انداز میں جوابی کارروائیاں کیں۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد بھی خلفائے راشدین نے آپﷺ کی قائم کردہ ریاست مدینہ کے اصول وضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے بہترین انداز میں حکومت کی۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓکا دور ہر اعتبارسے مثالی دور تھا۔ بالخصوص حضرت عمر فاروقؓ نے سماجی انصاف کا جو نظام قائم کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے یورپ کے بہت سے ممالک میں سوشل سکیورٹی سسٹم کو قائم کیا گیا۔ حضرت عمرؓاپنے معاشرے میں موجود نادار اور محروم طبقوں کی خدمات کے لیے پوری طرح کوشاں رہے۔
قرآن وسنت کے سیاسی اصول وضوابط اور ریاست مدینہ کے خدوخال پر غور کرنے کے بعد آج اگر ہم ریاست مدینہ کے ماڈل مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ایک مثالی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں دو پہلوؤں سے اس ریاست کی تشکیل کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔ اللہ کی حاکمیت، نظام صلوٰۃ، مرکزی بیت المال، حیا داری، پردہ داری، شرعی حدود کا نفاذ ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اسی طرح خدمت انسانیت اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے منظم اور مربوط لائحہ عمل کو اپنانا بھی ریاست مدینہ کے لیے قیام کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت، نظام صلوٰۃ، حیاداری، فواحش اور منکرات سے اجتناب کا اہتمام کیے بغیر ریاست مدینہ کے قیام کا دعویٰ کیا جائے تو یہ دعویٰ بالکل بیکار ہو گا۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت اور نظام صلوٰۃ ، بیت المال کا قیام اور منکرات کا خاتمہ تو ہو لیکن عوام کی فلاح وبہبود اور عدل وانصاف پربھرپور توجہ نہ دی جائے تو ایسی ریاست کو مدینہ جیسی ریاست نہیں کہا جا سکتا۔ مدینہ کے ماڈل پر عمل کرنے کے لیے ہمیں دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھنا ہو گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے ملک میں کام کرنے والے سیاسی قیادتوں میں سے کون سی قیادت ایسی ہے جو دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سیاست کو آگے بڑھاتی ہے۔ جو جماعت یا سیاسی تنظیم ان دونوں پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرے گی وہ حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور عوام کی خدمت کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ وگرنہ ریاست مدینہ کا نعرہ ایک دعوے سے زیادہ نہیں ہو گا۔