"AIZ" (space) message & send to 7575

جلسوں اور اجتماعات کے اثرات

دنیا بھر میں مختلف تنظیمیں اپنے مذہبی اور سیاسی نظریات کے ابلاغ کے لیے جلسوں اور جلوسوں کا انعقاد کرتی رہتی ہیں۔ رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے جلسے، جلوس اور اجتماعات نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے عوام کے دینی اور سیاسی رجحانات کی تشکیل میں بھی جلسوں اور اجتماعات نے ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان میں عرصۂ دراز سے رائے ونڈ میں ہونے والا تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ تبلیغی جماعت سے تعلق رکھنے والے اس اجتماع میں بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں اور یہاں سے ملنے والے پروگرام اور نظام الاوقات نے تبلیغی جماعت کے دعوتی ڈھانچے کے پھیلاؤ میں مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماعات بھی ایک عرصے سے جاری و ساری ہیں۔ ان اجتماعات کی بدولت جماعت اسلامی اپنی تنظیمی صلاحیتوں اور استعداد کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایک عرصہ تک مریدکے میں جماعۃ الدعوۃ کے زیر اہتمام ہونے والے اجتماعات بھی حاضری کے اعتبار سے مثالی اجتماعات رہے۔ جماعۃ الدعوۃ کے زیر انتظام ہونے والے ان اجتماعات پر بین الاقوامی میڈیا بالخصوص انڈیا کی خصوصی توجہ رہی۔ انڈیا کے سرکاری اور نجی چینلز اور سوشل نیٹ ورکس ان اجتماعات کے بارے میں بھرپور انداز میں تبصرے اور تجزیے کرتے رہے۔ گو بین الاقوامی اور قومی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے جماعۃ الدعوۃ کے مریدکے میں ہونے والے سالانہ اجتماعات کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا‘ لیکن جماعۃ الدعوۃ کی ہمراہی میں ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں کے اشتراک سے بننے والے پلیٹ فارم ''دفاع پاکستان کونسل‘‘ کے زیرِ اہتمام ملک بھر میں بہت بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد ہوتا رہا۔ ان اجتماعات کے ذریعے لوگوں کو دفاعِ وطن کے لیے تیار کیا گیا۔ مینارِ پاکستان لاہور، لیاقت باغ راولپنڈی اور جناح پارک کراچی میں دفاع پاکستان کونسل کے زیرِ اہتمام ہونے والے اجتماعات میں اسلامی مملکت کے دفاع کے لیے مؤثر انداز میں ذہن سازی کی گئی۔ 
دینی جماعتوں کے جلسوں اور اجتماعات کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ سیاسی اعتبار سے جماعتوں کی ساکھ بڑھانے یا برقرار رکھنے میں ان کے جلسے کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لا کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی پاکستان آمد کے موقع پر مینار پاکستان پر 10 اپریل 1986ء کو ایک بہت بڑے جلسۂ عام کا انعقاد کیا۔ اس سے ملک بھر میں پیپلز پارٹی کی تائید اور حمایت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور طویل مارشل لا کے بعد بھی پیپلز پارٹی کے کارکن اس جلسۂ عام کی وجہ سے ملک بھر میں از سر نو منظم اور مجتمع ہونا شروع ہو گئے۔ اس جلسۂ عام کی کامیابی کا ایک بڑا سبب بے نظیر بھٹو کی آمد سے قبل ایم آر ڈی کے زیر اہتمام موچی دروازہ لاہور اور دھوبی گھاٹ فیصل آباد میں ہونے والے کامیاب جلسے بھی تھے۔ 
والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر مرحوم نے بھی 18 اپریل 1986ء کو موچی دروازے میں ایک بہت بڑے اجتماع کا انعقاد کیا‘ جس کی وجہ سے جمعیت اہل حدیث کی ساکھ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ 1997ء کے انتخابات سے قبل پاکستان مسلم لیگ نون کے زیر اہتمام ہونے والے اجتماعات کے اثرات بھی ملک کے طول و عرض میں اس حد تک مرتب ہوئے کہ مسلم لیگ نون کو ملک بھر سے واضح اور نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تحریک انصاف کے قیام کے بعد ایک لمبے عرصے تک خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکے‘ لیکن 30 اکتوبر 2011ء کو تحریک انصاف کے زیر اہتمام مینارِ پاکستان پر ایک بہت بڑے جلسۂ عام کا انعقاد ہوا‘ جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حمایت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا اور بعد ازاں الیکشن 2013ء میں تحریک انصاف ملک بھر دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 30 اکتوبر 2011ء کا جلسۂ عام تحریک انصاف کی سیاسی تاریخ کے حوالے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ عمران خان اور ان کے ہمنوا اسے تحریک انصاف کے کارکنان کی محنت قرار دیتے تھے‘ لیکن تحریک انصاف کے ناقدین کا یہ کہنا تھا کہ اس جلسہ عام کی کامیابی کے پس منظر میں خفیہ ہاتھوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد تحریک انصاف نے 2013ء کے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے دیا‘ اور اس حوالے سے ملک بھر میں مختلف مقامات پر جلسوں کا انعقاد کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان عوامی تحریک کے ہمراہ ایک دھرنے کا بھی اہتمام کیا گیا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک طویل دھرنا تھا جس میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان تسلسل کے ساتھ شامل ہوتے رہے‘ اس کے باوجود وہ اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بعد ازاں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے کچھ بڑے جلسوں کا انعقاد کیا‘ جن کا تسلسل برقرار نہ رہ سکا‘ اور رفتہ رفتہ انتخابی دھاندلی کے خلاف شروع کی گئی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔ 8 اور 9 مارچ 2018ء کو مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان نے کالا شاہ کاکو کے مقام پر ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا‘ جس میں امام کعبہ خصوصی طور پر شرکت کے لیے تشریف لائے۔ اس اجتماع میں بھی عوام کی ایک بہت بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس سے قبل جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام نے بھی اپنے بڑے مرکزی اجتماعات کا اہتمام کیا‘ جن میں عوام کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایم کیو ایم نے بھی بہت بڑے جلسے کا انعقاد کیا۔ ان جلسوں کے نتیجے میں کراچی اور حیدر آباد میں قیام پاکستان کے وقت انڈیا سے ہجرت کرکے آنے والے مہاجرین اور اردو بولنے والے لوگ بہت حد تک منظم ہوئے اور رفتہ رفتہ ان جلسوںکی بدولت ایم کیو ایم کراچی اور حیدر آباد کی نمائندہ اور ملک کی ایک مؤثر تنظیم بن کر ابھری۔ 
2018ء میں عام انتخاب کی آمد آمد ہے اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے منشور کو عوام الناس کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد میاں محمد نواز شریف نااہلی کے بعد بھی مختلف مقامات پر بڑے جلسوں کا انعقاد کر کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی جستجو کر رہے ہیں۔ 29 اپریل 2018ء کو تحریک انصاف نے ایک مرتبہ پھر مینار پاکستان پر جلسۂ عام کا انعقاد کیا۔ تحریک انصاف کے مطابق یہ جلسہ بہت بڑا تھا اور تحریک انصاف کے رہنما اس کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن تحریک انصاف کے ناقدین کے مطابق مینار پاکستان کا یہ جلسہ خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر سکا‘ اور ناقدین کا کہنا ہے کہ 2011ء کے جلسے کے مقابلے میں اس دفعہ لوگ جلسے میں کم تعداد میں شریک ہوئے۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اس اجتماع کو تازہ ہوا کا جھونکا قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ ناقدین کے مطابق تحریکِ انصاف کا یہ جلسہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ 
آج بتاریخ 13 مئی 2018ء کو پاکستان کی نمایاں دینی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل مینارِ پاکستان گراؤنڈ میں ایک بہت بڑے اجتماع کی توقع کر رہا ہے۔ اس جلسے کی کامیابی کے حوالے سے قائدین بہت زیادہ پُرامید نظر آ رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اس جلسے کو تاریخِ پاکستان کا ایک انتہائی بڑا اجتماع قرار دے رہے ہیں‘ جبکہ متحدہ مجلس عمل کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کے مطابق یہ اجتماع پاکستان میں سیاسی رجحانات کی تبدیلی پر منتج ہو گا۔ اس اجتماع کی کامیابی کے یقینا ملک کی سیاست پر دور رس اور گہرے نتائج مرتب ہوں گے۔ اگر یہ اجتماع کامیاب ہوتا ہے اور بڑی تعداد میں لوگ اس میں شرکت کرتے ہیں تو متحدہ مجلس عمل 2002ء کی طرح ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست پر اپنے اثرات مرتب کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے نائب صدر اور سینئر رہنما جناب سراج الحق نے دعویٰ کیا ہے کہ متحدہ مجلس عمل خیبر پختونخوا میں بغیر کسی معاونت کے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ متحدہ مجلس عمل کے ناقدین ان کے اس دعوے کو بہت بڑا دعویٰ قرار دے رہے ہیں‘ اور ان کا یہ گمان ہے کہ جناب سراج الحق کا یہ دعویٰ شاید پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکے؛ تاہم آج کا یہ جلسہ ملکی سیاست کے رخ کو متعین کرنے میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔ اس جلسے کے انعقاد کے بعد تجزیہ نگار اور تبصرہ کرنے والے ملکی سیاست کے حوالے سے مؤ ثر تجزیہ کرنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں