انسانی معاشروں میں ہمیشہ سے سیاست کے مختلف رنگ رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں بادشاہ‘ ڈکٹیٹر اور عوام سے خیر خواہی رکھنے والے حکمران گزرتے رہے ہیں۔ بہت سے حکمران اپنے سیاہ کارناموں کی وجہ سے تاریخ کا حصہ بن گئے اور بہت سے حکمران اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے تاریخ کو روشن کر گئے۔ قرآن مجید نے بھی بہت سے برے اور انسانوں پر ظلم وستم کرنے والے حکمرانوں کا ذکر کیا ‘اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام مجید میں بہت سے کامیاب اور انسانوں کی خیر خواہی رکھنے و الے حکام کا بھی ذکر کیا۔ قرآن مجید میں فرعون کا ذکر بکثرت موجود ہے‘ جو بنی اسرائیل پر تادیر حکومت کرتا رہا۔ وہ بنی اسرائیل کے بچوں کو اپنا اقتدار بچانے کے لیے ذبح کرتا رہا۔ بنی اسرائیل کے لوگ اس کے ظلم اور بربریت کی وجہ سے اُس سے اس حد تک مرعوب تھے کہ اپنے پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھانے سے قاصرہو چکے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لوگوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ گو جس برس موسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے فرعون نے بنی اسرائیل کے بچوں کے ذبح کا حکم دیا ہوا تھا‘ لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک معجزاتی انداز میں نہ صرف یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کومحفوظ فرما لیا‘ بلکہ فرعون ہی کے محل میں ان کی پرورش اور نگہداشت کا انتظام بھی فرمایا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو جوانی میں ایک حادثے کی وجہ سے اپنے شہر کو خیر آباد کہہ کے مداین کی طرف روانہ ہونا پڑا‘ جہاں پر آپ نے اپنی زندگی کے بہت سے سال گزار دئیے اور جب کئی برس بعد اپنی بستی کی طرف مراجعت فرما رہے تھے ‘تو کوہِ طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اپنے سے ہم کلام کا شرف عطا فرمایا۔ آپ کو معجزاتی عصاء یدبیضاء عطا فر مایا۔ موسیٰ علیہ السلام‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ان نشانیوں کو لے کر فرعون کے پاس پہنچے‘ لیکن فرعون اور اس کے درباریوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نشانیوں کو دیکھ کر آپ کی رسالت ونبوت کو قبول کرنے کی بجائے آپ کو ساحرقرار دیااور آپ کے مقابلے میں جادوگروں کو میدان میں اُتارا۔ معرکہ حق وباطل میں جب جادو گرشکست کھا گئے ‘تو انہوں نے بھی موسیٰ علیہ السلام کے پیغام کو دل وجان سے قبول کرتے ہوئے ‘اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے راستے کو اختیار کر لیا۔ فرعون کو اللہ نے اپنی بہت سی نشانیاں دکھلائیں ۔ اس پر ٹڈیوں‘ جوؤں‘ مینڈکوں ‘خون اور طوفان کا عذاب آیا ۔ فرعون ان نشانیوں کو دیکھ کر وقتی طور پر ایمان لانے پر آمادہ وتیار بھی ہو جاتا ‘لیکن عذاب ٹل جانے کے بعد اپنے ارادے کو تبدیل کر لیتا۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کی نافرمانی کی وجہ سے اس کو غرق ِآب کر دیا۔
اسی طرح کلام حمید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے نمرود کا بھی ذکر کیا ‘جو زمین پر ظلم وبربریت کی ایک تاریخ کو رقم کیے ہوئے تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ‘دربارِ نمرود میں اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی کی بندگی کا سبق دینے کے لیے آئے اور اُس کو یہ بات بتلائی کہ میرا رب وہ ہے‘ جو مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔ اس نے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک سزائے موت کے مستحق مجرم کو آزاد کر کے لوگوـ ں کو دھوکا دینے کی کوشش کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس موقع پر اس کی چالبازی کو دیکھتے ہوئے‘ اس بات کا اعلان فرمایا: پس بے شک اللہ وہ ہے‘ جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تو اس کو مغرب سے لے کے آ؟ یہ بات سن کر نمرود لاجواب ہو گیا اور اس کے لبوں پر چپ کی مہر لگ گئی۔ زمین پر ظلم وبربریت کرنے والے بہت سے حکمران کا انجام تاریخ کا حصہ ہے۔ چنگیز خان اور ہلاکو خان کی تاریخ بھی انتہائی المناک ہے‘ جنہوں نے انسانیت پر ظلم وستم کرنے کی کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی تھی۔ مکہ مکرمہ میں بسنے والے سردار اور چوہدری بھی اپنے چوہدراہٹ کے نشے میں دھت ہو کر ایمان اور اسلام کے راستے کو ٹھکراتے اور لوگوں پر حلقہ حیات کو تنگ کیے ہوئے تھے۔ ابو جہل اور ابولہب ‘ اپنی ناعاقبت اندیشی کے سبب‘ ذلت ورسوائی کا نشانہ بن گئے۔
اس کے مدمقابل اللہ کی خشیت رکھنے والے اور رائے عامہ کی بہتری کے لیے جستجو کرنے والے حکمران تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہوئے گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں جناب طالوت اور جناب ذوالقرنین کا ذکر کیا‘ جنہوں نے زمین پر فتنہ فساد کے قلع قمع کے لیے اپنی توانائیوں اور صلاحیتوں کو استعمال کیا۔ جناب طالوت نے جالوت کے ظلم وبربریت کا خاتمہ کیا اور جناب ذوالقرنین نے یاجوج وماجوج کے فساد کو ختم کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی کو وضع اختیار کیا۔ کلام حمید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے بہت سے انبیاء اور رسل اللہ کو بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بادشاہت سے نوازا تھا۔ یہ انبیاء اوررسل اللہ جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کو بجا لاتے رہے‘ وہیں پر انہوں نے زمین پر ایک مثالی حکومت کی۔ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کی حکومتیں انتہائی پر اثر تھیںاور حضرت سلیمان علیہ السلام کسی بھی مقام پر جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کو دیکھتے‘ تو فوراً سے پہلے بے تاب ہو جاتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی تبلیغ فرماتے‘ وہیں پر آپ نے عوام الناس کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہترین انداز میں غلے کی تدوین کی؛ چنانچہ جب عالمی قحط نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا‘ تو جہاں پر سیدنا یوسف علیہ السلام کی بہترین تدوین کی وجہ سے مصر غذائی قلت کا شکار نہ ہوا‘ بلکہ عالمگیر سطح پر بھی لوگ اپنی غذائی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے مصر کا رخ کرتے رہے۔
نبی ٔمہرباں حضرت محمد ﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے‘ جہاں آپ ﷺ کو منصب رسالت ونبوت سے نوازا‘ وہیں آپﷺ اپنی حیات مبارکہ میں ہی حجاز اور جزیرۃ العرب کے والی بھی بن گئے۔ یمن بھی آپﷺ کی حیات مبارکہ ہی میں اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔ نبی ٔکریمﷺ نے اپنی ریاست کی بنیاد اللہ کی حاکمیت ‘ عدل‘ انصاف اور جرائم کی بیخ کنی پر رکھی۔ آپﷺ اپنی رعیت میں ہر کسی کے ساتھ عدل والا معاملہ فرماتے رہے اور زمین پر فساد پھیلانے والوں کا احسن طریقے سے قلع قمع فرماتے رہے۔ اقامت صلوٰۃ اور رعایا کی بہتر ی اور خوشحالی کے لیے زکوٰۃ کو وصول کرنے‘ اسی طرح رعایا کی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست فرمانے اور مجرموں کی بیخ کنی کرنے کے سبب ریاست مدینہ اپنے وقت کی بہترین ریاست ثابت ہوئی۔ بعدازاں آپﷺ ہی کے نقوش ِمبارکہ پر چلتے ہوئے خلفائے راشدین نے ایک مثالی حکومت کی۔ بالخصوص حضرت عمرفاروقؓ کا عہد مبارکہ اس اعتبار سے مثالی ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کو بجا لانے کے ساتھ ساتھ رعایا کی ضروریات پوری کرنے اور ان کی خبر گیری کے لیے حضرت عمرؓ خود راتوںکو گشت فرما کر رعایاکے احوال سے باخبر ہوتے رہے اور جہاں کہیں کسی مجبور ‘ مفلوک الحال اور تنگ دست کو دیکھتے تو فوراً سے پہلے اس کے معاملات کو حل کرنے کی کوشش فرماتے۔ حضرت عمر فاروقؓ نے جس سماجی انصاف اور خیر خواہی کی بنیاد رکھی‘ اسی کی پیروی کرتے ہوئے ‘کئی مغربی معاشروں نے سوشل سکیورٹی کے نظام کو متعارف فرمایا۔ خلافت ِاسلامیہ جب تک برقرا ر رہی مسلمانوں کے اجتماعی مسائل احسن طریقے سے حل ہوتے رہے‘ لیکن اوطان میں تقسیم ہو جانے کے بعدبہت سے مسلمان ممالک مثالی حکومتوں کو قائم اور برقرار نہ رکھ سکے۔
پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست کی حیثیت سے قائم کیا گیا‘ گو یہا ں پر بہت سے اعلیٰ اسلامی اصولوں کی احسن طریقے سے پاسداری نہ کی جا سکی‘ لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی حاکمیت‘ آئین ِپاکستان میں قرآن وسنت کی بالادستی اور ختم نبوت کے منکروں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کے سبب پاکستان کا آئین مثالی اور معتبر ٹھہرا۔ بہت سے معاملات تاحال اصلاح طلب ہیں اور بہت سی سماجی برائیوں کے خاتمے کے لیے تاحال ہمیں کتاب وسنت کی طرف مراجعت کی ضرورت ہے۔ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کتاب وسنت نے جو حکام کی ذمہ داریوں کو مقررکیا‘ ان کی ادائیگی کے لیے احسن کردار کو ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مملکت میں بہت سے لوگ فقط پاور پالیٹکس اور سیاست برائے اقتدار میں مصروف نظر آتے ہیں اور سیاست کا بنیادی اور حتمی مقصد فقط سیٹ کا حصول نظر آتا ہے‘ جبکہ اس کے بالمقابل بہت سے ایسے رہنما بھی نظر آتے ہیں‘ جو عوام کی خدمت کو نیکی سمجھ کر انجام دیتے ہیں اور رائے عامہ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے پوری طرح تگ ودو کرتے ہیں۔ دیہی اور قبائلی علاقوں کا ووٹر اس اعتبارسے مجبور و مقہور نظر آتا ہے کہ جہالت اور جاگیردارانہ جبر کی وجہ سے وہ اپنی رائے کا پورے طریقے سے اظہار نہیں کرپاتا‘اگر پاکستان کے ہر شخص کو برادری‘ پارٹی ‘جاگیر دارانہ تسلط اور اثرروسوخ کی بجائے اپنی رائے کے آزادانہ استعمال کا موقع میسر آ جائے تو یقینالوگ بہتر امیدواروں کے چناؤ میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں اپنے معاشرے کے ماحول کو پر امن بنانے اور رواداری کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس بات کی توقع اور امید کی جا سکتی ہے کہ آنے والے ادوار میں عوام بغیر کسی لالچ اور دباؤ کے اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق ووٹ ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور ہمارے ملک کو بھی بحیثیت مجموعی ایسی قیادت حاصل ہو جائے گی‘ جو عوام کے مسائل سن کر ان کو حل کرنے کے قابل ہو۔
اللہ تبارک وتعالیٰ پاکستان کو ایک حقیقی فلاحی اسلامی ریاست میں تبدیل فرمائے۔( آمین )