"AIZ" (space) message & send to 7575

جہد مسلسل

انسانی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے‘ جن لوگوں نے بھی اپنے ہدف کے حصول کے لیے مسلسل محنت کی اللہ تبارک وتعالیٰ نے بالآخر انہیں منزل پر پہنچا دیا‘ لیکن جو لوگ راستے کی مشکلات‘ پریشانیوں اور کٹھن راستوں سے دلبرداشتہ ہو گئے‘ وہ لوگ منزل مقصود تک نہ پہنچ سکے۔ انبیاء علیہم السلام اللہ تبارک وتعالیٰ کی منتخب اور پسندیدہ ہستیاں ہیں ‘جن کا کردار اور سیرت ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے ۔انبیاء علیہم السلام کی سیرت وکردار کا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انہوں نے حالات کے مدوجزر اور اتار چڑھاؤ کی پرواہ کیے‘ بغیر اپنی جدوجہد کو بڑی استقامت اور تسلسل سے جاری رکھا۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنے بستی کے لوگوں کو ساڑھے نو سو برس (950)تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ بستی کے لوگوں نے آپ ؑکی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اسی پر اکتفاء نہ کیا‘ بلکہ آپ کی شان میں گستاخیاں کرتے رہے۔آپؑ کے بارے میں نازیبا اور بے ادبی والے الفاظ استعمال کرتے رہے اور آپ ؑ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی کی گئی‘ لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے ان تمام معاملات کے حوالے سے خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا اور حالات کے جبر سے لمحہ بھر کے لیے بھی مرعوب نہ ہوئے۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ساڑھے نو سو سال تک تکلیفیں سہنے اور دیوانہ اورمجنوں کہلوانے کے باوجود جس انداز سے اپنی دعوت کو جاری رکھا وہ یقینا آنے والی نسلوں کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ بہت سے مبلغین لوگوں کی معمولی سی بات کو سن کر دل گرفتہ ہو جاتے ہیں اور درست راستے اور صحیح مشن پر استقامت کا مظاہرہ نہیں کرتے ہیں۔ ایسے تمام لوگوں کو حضرت نوح علیہ السلام کی سیرت وکردار سے سبق حاصل کرتے ہوئے ‘حالات کے مدوجزر کی پرواہ کیے بغیر اپنے سفرکو جاری رکھنا چاہیے۔ 
حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت وکردار اور آپؑ کی مسلسل جدوجہد میں یقینا ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جوانی میں بت کدے میں جا کر کلہاڑے کو چلا دیا۔ بستی والوں کی عداوت اور دشمنی کا نشانہ بنے‘ لیکن آپؑ نے دعوت توحید کے حوالے سے کسی قسم کے سمجھوتے کا مظاہرہ نہ کیا۔ وقت کے بادشاہ اور اپنے والد آذر کی مخالفت کے باوجود دعوت ِتوحید پر کاربند رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دعوت ِتوحید کی پاداش میں جلتی ہوئی آگ میں اتارا گیا‘ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بڑھکتی ہوئی آگ کو دیکھ کر بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت سے دستبردار ہونا گوارہ نہیںکیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دربار نمرود میں داخل ہوئے اور نمرود کو دعوت ِتوحید کی دعوت دی‘ تو نمرود نے اپنے آپ کو اللہ قرار دینے کی ناپاک جسارت کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دلائل کے ذریعے اس کو یہ بات سمجھائی کہ میرا رب وہ ہے‘ جو مارتا بھی اور زندہ بھی کرتا ہے۔ تو نمرود نے اس موقع پر ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک موت کے مستحق کو آزاد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کے سامنے اس دلیل روشن کو رکھا‘ بے شک اللہ وہ ہے ‘جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے‘ پس تو سورج کو مغرب سے لے کرآ! یہ دلیل سن کر کافر کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے لیے جہاںپر تکالیف اور ابتلاؤں کو برداشت کیا‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کے لیے محبتوں کی بھی قربانی دی۔ اللہ کے حکم پر اپنے کمسن بیٹے حضرت اسماعیل ؑاور اپنی شریک ِحیات کو وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی نصرت فرمائی اور اُن کے لیے آب ِزم زم کو جاری فرما دیا اور آپ کو ویرانے میں ایک با وفا قبیلے کی معیت بھی عطا فرمائی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب دوڑ دھوپ کے قابل ہوئے‘ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھلایا گیا کہ آپؑ‘ حضرت اسماعیل ؑکے گلے پر چھری کو چلا رہے ہیں۔ آپؑ نے یہ بات حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سامنے رکھی‘ تو حضرت اسماعیل ؑ نے عرض کی کہ اے بابا! آپؑ کو جس بات کا حکم دیا گیا ہے‘ آپؑ کر گزریے‘ انشاء اللہ‘ آپؑ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچھاڑا اور آپ ؑکے گلے پر چھری چلانے لگے ‘تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اُن کی جگہ پر جنت کے مینڈھے کو رکھ کر اُن کی قربانی کو قبول ومنظور فرما لیا۔ 
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی بھی اس اعتبار سے بے مثال زندگی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو اپنی توحید کی دعوت کے لیے منتخب فرما لیا اور آپؑ کا مقابلہ عام عوام سے نہیں‘ بلکہ وقت کے مؤثر ترین لوگوں سے ہوا۔ وقت کا حاکم فرعون‘ آپؑ کا مخالف تھا۔ اسی طرح قارون جو کہ بہت بڑا سرمایہ دار تھا‘ اس کا تعلق بھی موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے ساتھ تھا۔ ہامان صاحب ِ منصب تھا اور فرعون کے قریبی ساتھیوں میں شامل تھا۔ یہ تمام لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے انحراف کرنے والے تھے۔ فرعون نے کئی دفعہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والی نشانیوں کو دیکھنے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی بجائے‘ اللہ کی توحید سے انحراف کیا۔ نتیجتاً اللہ تبارک وتعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی مدد فرمائی اور فرعون کو غرق ِآب کر دیا۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بستی والوں کی مخالفت کی پرواہ کیے‘ بغیر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت کو جاری وساری رکھا۔ 
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی محمد کریم ﷺ کا اُسوہ ہمارے لیے اس اعتبار سے بے مثال نمونے کی حیثیت رکھتا ہے کہ نبی ٔمہرباں حضرت محمدﷺ کی ساری زندگی ابتلاؤں اور تکالیف میں گزری‘ لیکن آپ ﷺ مسلسل ‘اللہ تبار ک وتعالیٰ کی توحید کی سربلندی کے لیے جدوجہد فرماتے رہے۔ آپ ﷺکے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ آپﷺ کے گلو ئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا ‘ حالت ِنماز میں بھی آپﷺکے طاہر ومطاہروجود پر گندگی ڈالنے کی ناپاک جسارت کی گئی‘ طائف کی وادی میں آپﷺ کو اس انداز میں انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ آپ ﷺکا وجود لہو رنگ ہو گیا۔ نبی ٔکریم ﷺ کے پاس جبرائیل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتے کے ہمراہ آئے اور عرض کی کہ اے حبیب ِ خدا! اگر آپﷺ حکم کریں‘ تو اس وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے۔ نبی ٔکریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اللہ !میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے دے‘ یہ مجھ کو پہچانتے ہی نہیں۔ نبی ٔکریم ﷺ نے اللہ کی توحید کی پاسداری کے لیے اپنے دیس کو خیر آباد کہہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی سربلندی کے لیے 54 برس کی عمر میں تلوار کو اُٹھا لیا۔ کافروں نے مسلسل‘ آپﷺ پر جنگوں کو مسلط کرنے کی کوشش کی‘ لیکن آپﷺ استقامت کی چٹان بن کر ابتلاؤں اور تکالیف کو برداشت کرتے رہے؛ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے فتح ِمکہ کی شکل میں آپﷺ کو فتح مبین سے نواز دیا۔ نبی ٔکریم ﷺ فتح یاب ہوئے اور اس موقع پر جو آپﷺ کو تکلیف دینے والے‘ ایذاء پہنچانے والے اور سازشیں کرنے والے تھے‘ نبیٔ کریم ﷺ نے ان سے انتقام لینے کی بجائے‘ اُن سب کو معاف فرما دیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو نبی ٔکریم ﷺ کے تلامذہ تھے‘ انہوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے راستے میں بے شمار تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا‘ لیکن استقامت اور حوصلے کی چٹان بن کر اپنی زندگیوں کو اللہ کی بندگی میں گزارتے رہے۔ حضرت بلال ِحبشیؓ ‘ حضرت صہیب ِرومیؓ‘ حضرت زنیرہ ؓ‘حضرت سمیہ ؓنے استقامت کی ایک ایسی تاریخ کو رقم کیا‘ جو آنے والی نسلوں کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ 
ماضی قریب میں بھی جب ہم نظر دوڑاتے ہیں‘ تو تاریخ ِ پاکستان کے قائدین نے بھی تحریک ِپاکستان کے لیے مسلسل جدوجہد کی۔ محمد علی جناح‘ علامہ اقبال‘ مولانا ظفر علی خاں اور مولانا محمد علی جوہر نے بیداری ِملت کے لیے برصغیر کے طول وعرض میں رات دن جدوجہد کی اور بالآخر ہم پاکستان کے قیام کے حصول میں کامیاب ہوئے۔ اس آزادوطن کے حصول کے لیے ہجرتوں کو کیا گیا‘ بوڑھوں کی ڈاڑھیوں کو لہو میں رنگین کیا گیا‘ جوانوں کے سینوں میں سنگینوں کو اتارا گیا‘ معصوم بچوں کو نیزوں کی انیوں پر تڑپایا گیا‘ لیکن بالآخر اللہ تعالیٰ نے مسلمانان ِبرصغیر کی جدوجہد کو بار آور کروا دیا ۔ جہد مسلسل کے بہت سے واقعات ہمارے گردونواح میں رونما ہوتے رہتے ہیں ‘جو ہر مثبت سوچ رکھنے والے کو اس بات کا درس دیتے ہیں کہ انسان اگر حق کے راستے پر ہو تو اس کواستقامت کو اختیار کرنا چاہیے ۔
بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہو جاتی ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو کامیابیوں سے ہمکنار فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو درست راستے کا شور عطا فرمائے اور ہم سب کو جہد مسلسل کرنے والوں میں شامل فرمائے۔ (آمین)

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں