کسی بھی معاشرے کی بقاء اور ترقی کے لیے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ہونا ازحد ضروری ہے‘ جس معاشرے میں اخلاقی اقدارکا جنازہ نکل جائے‘ وہ معاشرہ مادی یا سائنسی اعتبار سے خواہ کتنی ہی ترقی کیوں نہ کر لے‘ اس معاشرے کو انحطاط اور ہلاکت کے گھڑے میں گرنے سے کوئی نہیں رو ک سکتا۔ قوم لوط اور اہل مدین کی ہلاکت کا سبب ان کی بے حیائی اور کاروباری بے اعتدالیاں تھیں۔ معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے روا داری‘ حیا‘ برداشت‘ایک دوسرے کی عزت اور احترام اور حقوق کا خیال کرنا ازحد ضروری ہے۔ اس حوالے سے اس بات کو بھی ضرور سمجھنا چاہیے کہ تمام انسان اپنی مادی ‘ سماجی اور سیاسی حیثیت سے قطع نظر عزت اور احترام کے یکساں حقدار ہیں اور کسی بھی انسان کی عزت اور خوداری پر حملہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ اس وقت ہمارا موجودہ سیاسی اور سماجی ڈھانچہ پوری طرح بداخلاقی کی لپیٹ میں آچکا ہے اور لوگ مثبت اور صحت مند تنقید کرنے اور اس کو برداشت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کا استہزاء کرنے‘ ایک دوسرے پر طعن کرنے اور ایک دوسرے کی تذلیل کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ بے حیائی اور مخلوط کلچر بھی اپنے پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معاشرے میں جن برائیوں کو معمولی سمجھا جاتا ہے‘ حقیقت میں وہ برائیاں انتہائی ہلاکت خیز ہیں اور ان تمام برائیوں سے بچنا ازحد ضروری ہے۔ اعتقادی امور اورعبادات کے ساتھ ساتھ اخلاقی اعتبار سے بھی قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کی بھرپور انداز میں رہنمائی کی ہے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کے چند اہم مقامات درج ذیل ہیں:سورہ حجرات کی آیت نمبر 11 سے لے کر 14 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ''اے (وہ لوگ )جو ایمان لائے ہو‘ نہ مذاق کرے کوئی قوم کسی (دوسری) قوم سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں‘ ان سے اور نہ کوئی عورتیں (مذاق کریںدوسری)عورتوں سے‘ ہو سکتا ہے کہ وہ بہتر ہوں‘ ان سے اور نہ تم عیب لگاؤ اپنے نفسوں (یعنی ایک دوسرے) پر اور ایک دوسرے کو مت پکارو (برے) القاب سے (کسی کو) فسق والا نام (دینا ) برا ہے۔ ایمان لانے کے بعد ‘ اور جس نے توبہ نہ کی‘ تو وہ لوگ ہی ظالم ہیں۔ اے (وہ لوگو!) جو ایمان لائے ہو‘ اجتناب کرو ‘بہت گمان کرنے سے ‘بے شک بعض گمان گناہ ہیں۔ اور تم جاسوسی نہ کرو‘ اور نہ غیبت کرے تم میں سے کوئی دوسرے کی‘ کیا تم میں سے کوئی ایک (اس بات کو) پسند کرتا ہے کہ وہ گوشت کھائے اپنے مردہ بھائی کا ؟تو تم ناپسند کرتے ہو اسے‘ اور اللہ سے ڈرو ‘بے شک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ اے لوگو! بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا ‘ایک مرد سے اور ایک عورت(سے) اور ہم نے بنا دیا تمہیں‘ قومیں اور قبیلے‘ تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔ بے شک اللہ بہت جاننے والا خوب خبردار ہے‘‘۔
سورہ حجرات کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو دو سرے شخص کا استہزاء نہیں کرنا چاہیے‘ اسی طرح کسی کو ایسے ناموں سے نہیں پکارنا چاہیے‘ جس میں تحقیر کا عنصر پایا جائے۔ ان آیات میں یہ بات بھی بتلائی گئی ہے کہ بدگمانی اور تجسس کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ ان آیات مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ تمام انسان یکساں اہمیت کے حامل ہیں اور کسی شخص کو اپنی سماجی‘ سیاسی اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے کسی دوسرے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے۔ اسی طرح ان آیات سے یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ کسی شخص کی غیبت اور توہین کرنے کی اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔
سورہ نور کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں‘ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ناراضی کو دعوت دیتے ہیں۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نور کی آیت نمبر 4میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور وہ لوگ جو تہمت لگائیں ‘پاکدامن عورتوں پر پھر نہ لائیں چار گواہوں کو تو کوڑے مارو انہیں ‘اسی (80)کوڑے اور نہ قبو ل کرو‘ ان کی گواہی کو کبھی بھی اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔ ‘‘
قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل میں بھی اللہ تبارک تعالیٰ نے بہت سے ایسے اخلاقی اصولوں سے راغب کیا ہے‘ جن پر عمل پیرا ہو کر یقینا انسان معاشرے میں پروقار زندگی گزار سکتا ہے۔قرآن مجید کی سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 23 سے 30 میں ارشاد ہوا :''اور فیصلہ کر دیا آپ کے رب نے کہ نہ تم عبادت کرو‘ مگر صر ف اسی کی اور والدین کے ساتھ نیکی کرنے کا (حکم دیا) اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات۔ اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحمدلی سے اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں۔ تمہارا رب خوب جاننے والا ہے‘ اس کو جو تمہارے دلوں میں ہے ‘اگر تم ہو گے نیک تو یقینا وہ ہے بار بار رجو ع کرنے والوں کے لیے بہت بخشنے والا۔اور دے قرابت والے کو اس کا حق اور مسکین کو اور مسافر کو (بھی) اور نہ فضول خرچی کر۔ بے شک فضول خرچی کرنے والے شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔ اور اگر تو ضرور اعراض کرے‘ ان (مساکین رشتہ داروں‘ مسافروں وغیرہ) سے تلاش کرتے ہوئے اپنے رب کی رحمت (کہ) تو امید رکھتا ہو اس کی تو کہہ ان سے آسان (نرم) بات۔ اور نہ کر اپنے ہاتھ کو بندھا ہوا اپنی گردن سے اور نہ اسے بالکل کھول دینا‘ ورنہ بیٹھ رہے گا تو ملامت کیا ہوا تھکا ماندہ۔ بے شک تیرا رب (ہی) فراخ کرتا ہے‘ رزق کو جس کے لیے وہ چاہتا ہے اور وہی تنگ کرتا بلاشبہ وہ اپنے بندوں کو خوب خبر رکھنے والا(ان کو) خوب دیکھنے والا ہے ۔‘‘
اسی سورت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کئی سماجی برائیوں سے بچنے کی بہت ہی احسن انداز میں تلقین کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 31 سے 38تک ارشاد فرماتے ہیں: ''اور تم مت قتل کرو اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے ہم ہی رزق دیتے ہیں انہیں اور تمہیں بھی بے شک ان کا قتل بہت بڑاگناہ ہے ۔ اور تم مت قریب جاؤ زنا کے‘ بے شک وہ بے حیائی اوربُرا راستہ ہے۔ اور مت قتل کرو اس جان کو جسے حرام کردیااللہ نے‘ مگر حق کے ساتھ اور جو قتل کیا گیا مظلومی کی حالت میں تو یقینا ہم نے کر دیا ہے‘ اس کے ولی کے لیے غلبہ تو نہ وہ زیادتی کرے ‘قتل کرنے میں بے شک وہ مدد دیا ہوا ہے۔ اور مت قریب جاؤ یتیم کے مال کے‘ مگر (اس طریقے) سے جو بہت ہی بہتر ہو یہاں تک کہ وہ پہنچ جائے اپنی جوانی کو اور پورا کرو (اپنے ) عہد کو بے شک عہد (کے بارے میں) باز پرس ہو گی۔ اور تم پورا کرو ماپ کو جب تم ماپو اور تم وزن کرو سیدھے ترازو کے ساتھ یہی بہتر ہے اور بہت اچھا ہے انجام کے لحاظ سے۔ اور نہ آپ پیچھا کریں (اس کا) جو نہیں ہے‘ آپ کو اس کا کوئی علم‘ بے شک کان اور آنکھ اور دل ہر ایک ان میں سے ہو گی‘ اس کے بارے میں باز پرس۔ اور مت چل زمین میں اکڑ کر بے شک تو ہرگز نہیں پھاڑ سکے گا زمین کو اور ہرگز نہیں تو پہنچ سکے گا پہاڑوں (کی چوٹی) تک لمبا ہو کر۔ یہ سب (کام) ہے اس کی برائی تیرے رب کے نزدیک ناپسندیدہ۔‘‘
قرآن مجید میں مذکور اعلیٰ اخلاق سے متعلقہ نصیحتوں پر عمل کر لیا جائے ‘تو ہمار ا معاشرہ امن وسکون کا گہوراہ بن سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ رہا ہے کہ یہاں اعلیٰ اخلاقی تربیت کے حوالے سے تعلیمی اداروںاور سماجی اور سیاسی شخصیات نے وہ ذمہ داری اور کردار ادا نہیں کیا‘ جو ان کا حق بنتا تھا۔ معاشرے میں بسنے والے تمام ذمہ دار افراد کو معاشرے کو امن وسکون کا گہواراہ بنانے کے لیے قرآن مجید میں مذکور ان تمام نصیحتوں پر کھلے دل سے عمل کرنا چاہیے۔ جب تک ان نصیحتوں پر عمل نہیں ہو گا‘ ہمارا معاشرہ انتشار‘ خلفشار اور بے چینی کا شکار رہے گا۔