اسلامی کیلنڈر کا آغاز محر م الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے۔ محرم الحرام حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے اور اس کی حرمت کا تعین اس دن سے ہی ہو گیا تھا‘ جس دن اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین وآسمان کو تخلیق کیا تھا؛ چنانچہ سورہ توبہ کی آیت نمبر36 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''بے شک شمار مہینوں کا اللہ کے نزدیک بارہ مہینے ہیں‘ اللہ کی کتاب میں جس دن اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو ان میں سے چار (مہینے) حرمت والے ہیں۔‘‘
محرم الحرام اور دیگر حرمت والے مہینوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کا ثواب باقی مہینوں کے مقابلے میں زیادہ اور گناہ پر گرفت بھی باقی مہینوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ محرم الحرام کے ساتھ تاریخ کی بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے رسل اللہ میں سب سے زیادہ ذکر سیدنا موسیٰ ؑکا فرمایا۔ سیدنا موسیٰ ؑ کا مقابلے اپنے عہد کے بہت بڑے ظالم ‘ جابر اور کافر کے ساتھ تھا۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو ذبح کر دیا کرتا تھا اور ان کی عورتوں کو چھوڑ دیا کرتا تھا۔وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کے لیے بہت بڑی آزمائش تھا۔ فرعون دعویٰ ربوبیت اور الوہیت کیا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی اسرائیل کے کمزوروں پر جب رحم کا ارادہ فرمایا تواللہ تبارک وتعالیٰ نے سیدنا موسیٰ ؑکو چن لیا اور ان یدبیضاء اور معجزاتی اعصاء عطا فرمایا اور اس کے ساتھ ساتھ موسیٰ ؑ اللہ کی طرف سے گاہے بگاہے فرعونیوں کو بہت سی نشانیاں دکھلاتے رہے‘لیکن ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی فرعون ظلم‘ جبر اور کفر کے رستے پر گامزن رہااور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کو قبول کرنے پر آمادہ وتیار نہ ہوا۔ بالآخر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک رات موسیٰ ؑ کو بنی اسرائیل کے کمزوروںکو ساتھ لے کر علاقے سے نکلنے کا حکم دیا۔ موسیٰ ؑجب بنی اسرائیل کے مظلوموں کو لے کرنکلے تو فرعون نے اپنی فوجوں سمیت موسیٰ ؑ کا تعاقب کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے راستے میں آنے والے ایک بڑے سمندر کو موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کے لیے کھول دیا اور تعاقب کرنے والے فرعون اور اس کی فوجوں کو غرق آب کر دیا۔ فرعون نے آخری وقت توبہ کو طلب کرتے ہوئے کہا: میں ایمان لایا اس پر کہ بے شک جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے اور جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دستک دیتے ہوئے عذاب کو دیکھ کر کی جانے والی توبہ کو قبول نہ کیا اور اس کے وجود کو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے نشان عبرت بنا دیا۔ موسیٰ ؑکو فرعونیوںکے ظلم سے نجات دس محرم الحرام کو حاصل ہوئی۔ نبی کریم ﷺ جب مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ‘تو یہودی یوم عاشور کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا: ہم یہود کے مقابلے میں موسیٰ ؑکے زیادہ حق دار ہیں؛ چنانچہ آپﷺنے خود بھی یوم عاشور کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام ؓبھی یوم عاشور کا روزہ رکھتے رہے۔ نبی کریم ﷺنے یوم عاشور کا روزہ رکھنے کو گزشتہ ایک برس کے گناہوں کا کفارہ قرار دیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ کے آخری سال آئندہ برس 9 محرم الحرام کا روزہ رکھنے کا ارادہ فرمایا ‘ لیکن اگلے محرم سے قبل ہی دنیا سے تشریف لے گئے؛ چنانچہ علماء دس کے ساتھ نو کا روزہ ملانے کے بھی قائل ہیں۔
موسیٰ ؑکے ساتھ ساتھ محرم الحرام کا مہینہ ہمیں سیدنا عمر فاروق ؓکی یاد بھی دلاتا ہے۔ حضرت امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم ؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا ‘جب مسلمان کمزور تھے اور کفار اور قریش مکہ کے ظلم اور استبداد سے پریشان تھے۔ آپؓ کا قبول اسلام درحقیقت نبی کریمﷺ کی اس دعا کا نتیجہ ہے‘ جو آپ ﷺ نے مسلمانوں کی کمزوری دیکھ کر مانگی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اسلام کو امر ابن ہشام یا عمر ابن خطاب (کے قبول اسلام سے )عزت دے ۔
آپ ؓکے اسلام لانے سے مسلمانوں کو غیر معمولی تقویت حاصل ہوئی اور بڑے بڑے روسائے حضرت عمر فاروق ؓ کے قبول اسلام کی وجہ سے شدید کوفت کا شکار ہوئے اور مرعوبیت کی لپیٹ میں آگئے۔ گو مسلمانوں پر ہونے والا ظلم‘ آپؓ کے قبول اسلام کے بعد بھی جاری رہا‘ لیکن اس کی شدت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگی اور مسلمانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت عمر فاروق ؓ ساری زندگی نبی کریمﷺ کے قریبی رفقاء ‘ تلامذہ اور خدام میں شامل رہے۔ اور آپﷺ کے فرمان پر لبیک کہنا اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے رہے۔ نبی کریمﷺ کے چہرے پر پڑنے والی شکنوں کو دیکھ کر حضرت عمر فاروق ؓبے تاب ہو جایا کرتے تھے اور آپ ﷺ کی شان اقدس میں معمولی سی گستاخی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروق ؓکا قبول اسلام کے بعد زندگی کا بڑا مقصد یہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور نبی کریم ﷺ کے پیغام کو دنیا بھر میں پھیلا دیا جائے۔ آپؓنبی کریمﷺ کی ہمراہی میں تمام اہم غزوات میں شریک ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک نبی کریمﷺ کے جانثار وں اور فداکاروں میں شامل رہے۔ نبی کریمﷺ کی رحلت کے بعد آپؓ سیدنا صدیق اکبر ؓ کے ساتھ مل جل کر سلطنت اسلامیہ کے تحفظ ‘ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور نبی کریمﷺ کے فرامین کے ابلاغ کے لیے پہلے کی طرح کوشاں رہے۔ حضرت سیدنا صدیق اکبرؓ کی رحلت کے بعد سیدنا فاروق اعظمؓ مسلمانوں کے امیر بنے۔ آپؓ نے جہاں پرخارجی محاذ پر غیر معمولی کامیابیاںحاصل کیں‘وہیں پر آپؓ نے داخلی سطح پر سماجی انصاف کا ایک ایسا نظام متعارف کروایا‘ جو آج تک دیارِ مغرب کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے رعایا کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خبر گیری کا انحصار صرف مخبر وں کی اطلاعات پر نہ کیا‘ بلکہ خود رعایا کے احوال کی خبر گیری کے لیے راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر گشت فرمایا کرتے تھے۔ سیدنا عمر فاروق ؓ کے حسن انتظام اور تدبیر کی وجہ سے اسلامی مملکت دنیا کی طاقتور اور کامیاب ترین مملکت بن گئی۔ حضرت عمر فاروق ؓ دس برس سے زیادہ مسلمانوں کے امیر رہے اور اس کے بعد سیدنا فاروق اعظم ؓ پر ایک مجوسی ابو لولوؤ فیروز نے حالت نماز میں قاتلانہ حملہ کیا ‘جس کے نتیجے میں سیدنا عمر فاروق ؓ زخموں سے جانبر نہ ہو سکے۔ ذی الحجہ کے اواخر میں ہونے والے اس حملے کے بعد کچھ دن زخمی رہ کر یکم محرم الحرام کو اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ نبی کریمﷺ کی حیات مبارکہ میں رفیق سفر کی حیثیت سے زندگی گزارنے کے بعد سفر آخرت کے حوالے سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ آپ ؓ کو نبی کریمﷺ کی ہمراہی ہی میں سیدنا صدیق اکبرؓ کے پہلو میں جگہ نصیب فرمائی اور آپؓ کی رفاقت کو ایک ابدی حیثیت حاصل ہو گئی۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی بھی دیادلاتا ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ‘نبی کریمﷺ کے نواسے سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لخت جگر ‘ حضرت فاطمۃالزاہرہؓ کے جگر گوشے‘ نوجوانانِ جنت کے سردار اور مسلمانانِ عالم کے دلوں کی دھڑکن تھے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا حسین ؓ سے غیر معمولی محبت اور پیار کیا کرتے تھے۔ شب زندہ داری اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت میں ہر وقت مصروف مشغول رہنے والے سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سیرت وکردار ہر ورق ہر اعتبار سے غیر معمولی ہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اسی مہینے کی دس تاریخ کو کربلا کے مقام پر اپنے خانوادے کے بہت سے دیگر افراد کے ساتھ انتہائی مظلومانہ اور دردناک انداز میں شہید کر دیا گیا۔ سیدنا حسین ؓکی شہادت ایک ایسا سانحہ تھا‘ جس کی کسک آج تک امت مسلمہ محسوس کرتی ہے اور آپ ؓکی سیرت وکردار اور آپ ؓکی عزیمت واستقامت اور شہادت کا تذکرہ رقیق القلب مسلمانوں کے دلوں پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتا ہے۔
محرم الحرام کے مہینے سے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام‘ عمر فاروقؓ اور سیدنا حسینؓ کی سیرت وکردار کی یادیں وابستہ ہیں‘ وہیں پر ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں بعض لوگوں کی غفلت ‘ کوتاہی اور غیر محتاط رویوں کی وجہ سے کئی ناخوش گوار واقعات بھی پیش آ جاتے ہیں‘ ان ناخوش گوار واقعات کے سدباب کے لیے پاکستان میں تمام مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے ملی یکجہتی کونسل کے پلیٹ فارم پر ایک ضابطہ اخلاق کو مرتب کیا ہے جو فقط اسلامیان پاکستان کے لیے ایک رہنما ضابطے کی حیثیت نہیں رکھتا۔ دنیا ئے اسلام کے تمام لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس ضابطہ اخلاق کے مطابق مقدسات امت یعنی خلفائے راشدین‘ امہات المومنین ‘ اہل بیت عظام اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص حرام اور ان کی تکفیر کرنا کفر ہے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کو ہر صورت باہمی تکفیر سے بھی اعراض کرنا چاہیے۔ اگر اس ضابطہ اخلاق پر اس کی روح کے مطابق عمل کر لیا جائے تو پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور ناخوش گوار واقعات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
محرم الحرام کا مہینہ شروع ہو چکا ہے ۔امید کی جاتی ہے کہ اسلامی سال کا یہ پہلا مہینہ مسلمانوں کے عروج وترقی اسلام دشمنوں کے زوال اور تنزلی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو صحیح معنوں میں کتاب وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین )