اللہ تبارک وتعالیٰ نے آسمان دنیا کو اجرام سماویہ سے مزین کیا ہے۔ رات کی تاریکیوں میں آسمان پر اربوں کھربوں کی تعداد میں یہ ستارے ہر سمت پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان اجرام سماویہ میں جہاں دیکھنے والوں کے لیے دلکشی اور کشش کا بھر پور سامان ہے وہیں پر ان کو دیکھ انسان کے ذہن میں اپنے خالق ومالک کی کبریائی اور بڑآئی کا تصور بھی اُبھرتا ہے اور انسان اپنے خالق ومالک کی کبریائی ‘ شان اور عظمت کا معترف ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مجھے 2016ء میں سعودی عرب کے مکہ ٹاور میں قائم کردہ دنیا کی ایک بڑی رصد گاہ میں نصب دور بین کے ذریعے اَن گنت ستاروں اور سیاروں کے مشاہدے کا موقع ملا تھا اور اس بر کیف منظر کو دیکھ کر میں اپنے خالق ومالک کی عظمت کے احساس سے لبریز ہو گیا تھا اور تاحال جب بھی کبھی مجھے وہ منظر یاد آتا ہے۔ میں تادیر سوچوں میں گم ہو جاتا ہوں اور اپنی کم بوقتی اور معمولی حیثیت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جاتاہوں۔
یہ بہت بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ سابقہ معاشروں کی طرح مسلمان معاشروں میں بھی اجرام سماویہ کے حوالے سے مختلف طرح کے غلط تصورات پائے جاتے ہیں اور دینی تعلیمات سے دور لوگوں کی ایک بڑی تعداد انسانی زندگی پر ان کے اثرات کو تسلیم کرتی ہے۔ گو ان کی براہ راست پوجا تو نہیں کی جاتی‘ لیکن انسانی زندگی پر ان کے مثبت اور منفی اثرات کو ایک حقیقت سمجھا جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم کا ذکر کیا۔ اس قوم کے لوگ بت پرستی کے ساتھ ساتھ اجرام سماویہ کی بھی پوجا کیا کرتے تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی بداعتقادی کو دلائل سے واضح فرما دیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انعام کی آیت نمبر 75سے79 تک ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اسی طرح ہم دکھانے لگے ابراہیم کو نظام ِ سلطنت آسمانوں اور زمین کا اور تاکہ وہ ہوجائے یقین کرنے والوں میں سے‘ پھر جب چھا گئی اس پر رات اس نے دیکھا ایک ستارہ کہا‘ یہ میرا رب ہے ‘ پھر جب وہ غائب ہو گیا ‘کہا: میں نہیں پسند کرتا غائب ہو جانے والے کو۔ پھر جب اس نے دیکھا چاند کو چمکتا ہوا‘ کہا: یہ میرا رب ہے‘ پھر جب وہ چھپ گیا ‘کہا؛ البتہ‘ اگر نہ ہدایت دی‘ مجھے میرے رب نے (تو) یقینا میں ہو جاؤنگا گمراہ ہونے والی قوم میں سے‘ پھر جب اس نے دیکھا سورج کو چمکتا ہوا ‘کہا :یہ میرا رب ہے یہ(تو) سب سے بڑا ہے ‘پھر جب وہ (بھی) ڈوب گیا‘ کہا: اے میری قوم! بے شک میں بیزار ہوں اس سے جو تم شریک بناتے ہو۔ بے شک میں نے رخ کر لیا‘ اپنے چہرے کا اس کے لیے یکسو ہو کر جس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں ۔‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ میں بھی سورج ‘ چاند اور ستاروں کے سامنے جھکنے سے منع فرمایا ۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 37 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے رات اور دن اور سورج اور چاند تم مت سجدہ کرو سورج کو اور نہ چاند کو اور تم سجدہ کرو اس اللہ کو جس نے پیدا کیا ان سب کو اگر ہو تم صرف اسی کی عبادت کرتے۔‘‘
اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں سورج ‘ چاند اور ستاروں کی تخلیق کے مقاصد بھی بیان فرما تے ہیں؛ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ یونس کی آیت نمبر 5 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''(اللہ )وہی ہے‘ جس نے بنایا سورج کو تیز روشنی (والا) اور چاند کو نور (والا) اور اس نے مقرر کی ہیں اس کی منزلیں‘ تاکہ تم معلوم کرو سالوں کی گنتی اور حساب نہیں پیدا کیا‘ اللہ نے یہ (سب کچھ) مگر حق کے ساتھ وہ کھول کھول کر بیان کرتا ہے (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لیے (جو) جانتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر189 میںنئے چاند کے بارے میں ارشاد فرمایا : ''وہ پوچھتے ہیں آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں ‘ آپ کہہ دیں یہ لوگوں کے لیے اوقات اور حج کے (تعین کا ذریعہ ہیں)۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ قصص کی آیت نمبر73 میں سورج کے آنے اور چلے جانے یعنی دن اور رات کے فوائد کے حوالے سے ارشاد فرمایا:''اور اپنی رحمت سے ہی اس نے بنایا تمہارے لیے رات اور دن کو تاکہ تم آرام کر لو اس (رات) میں اور تاکہ تم تلاش کرو اس کے فضل سے (دن میں) اور تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ اسی طرح طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک مختلف اوقات میں نمازوں کو بھی ادا کیا جاتا ہے۔چنانچہ شمس وقمر کے ذریعے گزرتے ہوئے وقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس کے مطابق اپنے نظام الاوقات کو مرتب کیا جا تا ہے۔
سورج اور چاند کی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے ستاروں کی تخلیق کے مقاصد کو بھی قرآن مجید کے مختلف مقامات پر انتہائی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا:1۔دیکھنے والی آنکھوں کو خوبصورت اور بھلا معلوم ہونا: ستارے دیکھنے والی آنکھوں کو بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ حجر کی آیت نمبر 16میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور بلاشبہ یقینا ہم نے بنائے آسمان میں برج اور ہم نے مزین کر دیا انہیں دیکھنے والوں کے لیے۔ ‘‘ 2۔شیاطین کا رجم: سورہ حجر کی جس آیت میں پہلے فائدے کا ذکر کیا گیا ہے انہیں سے متصل آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ دوسرے مقصد یعنی شیاطین کو رجم کرنے والی کیفیت کا بھی ذکر فرماتے ہیں۔سورہ حجر کی آیت نمبر 17 اور18 میں ارشاد ہوا ''اور ہم نے محفوظ کر دیا انہیں (ستاروں کو) ہر شیطان مردود سے‘ مگر جو چوری چھپے سن بھاگے تو پیچھا کرتا ہے اس (شیطان) کا ایک روشن شعلہ۔‘‘3:بحر وبر کے اندھیروں میں راستہ دکھانا: ستاروں کی تخلیق تیسرا مقصد یہ ہے جب انسان خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راہوں کا تعین نہیں کر سکتا تو مختلف جہتوںمیں پھیلے ہوئے ستاروں مثلاًقطب شمالی‘ قطب جنوبی وغیرہ۔ اسی طرح دیگر جہتوں کو دیکھ کر وہ اپنی سمت کا صحیح انداز میں تعین کر سکتا ہے۔ اس حقیقت کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انعا م کی آیت نمبر 97 میں یوں فرمایا: ''اور وہی ہے جس نے بنائے تمہارے لیے ستارے۔ تاکہ تم راہ پاؤ ان کے ذریعے خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں۔ یقینا ہم نے کھول کھول کر بیان کر دی ہیں آیتیں اس قوم کے لیے (جو) جانتے ہیں۔‘‘ ان تین مقاصد کے علاوہ ستاروںکی تخلیق کا کوئی چوتھا مقصد نہیں ۔ بعض لوگ جو اپنی آنے والی زندگی کو ستاروں کی روشنی میں دیکھنا چاہتے ہیں ان کو اس حدیث پاک سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنی چاہیے: '' سیّدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی اوررات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے ‘توآپ نے لوگوں کو متوجہ ہو کر فرمایا :کیا تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے؟ ہم نے کہا: اللہ اور اس کے رسول خوب جانتے ہیں۔ آپٖٖ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ''میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پہ۔تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ کے فضل اور رحمت سے ہوئی تو وہ ستاروںکے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا۔ ‘‘اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں ایک بارش کے برسنے کی نسبت بھی ستاروں کے ساتھ کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اورایسا عقیدہ انسان کو ایمان کے راستے سے ہٹا کر کفر کے راستے پر چلا دیتا ہے؛ چنانچہ ہمیں قرآن وسنت کی روشنی میں سورج ‘ چانداور ستاروں کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے حال اور مستقبل کے معاملات کو ستاروں کی تخلیق کے مقاصد کو سمجھتے ہوئے سے منسوب کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ہی کو تقدیر اور مستقل کا مالک سمجھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین