بیت اللہ الحرام اور مسجد نبوی شریف کی زیارت کی تمنا ہر مسلمان کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ میری عمر اس وقت فقط گیارہ برس تھی‘ جب میں نے پہلی مرتبہ حج بیت الحرام کی سعادت کو حاصل کیا۔ گو‘ اس وقت مجھ پر حج فرض نہیں تھا‘ لیکن حج کی فرضیت کے بعد بھی میں نے دو مرتبہ حج بیت اللہ الحرام کی سعادت کو حاصل کیا۔ سعودی عرب کے ان سفروں کے دوران جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے گھر اور مسجد نبوی شریفﷺ کو دیکھ کر مجھ پر ایک روحانی کیفیت طاری ہوئی‘ وہیں پر ان سفروں کے دوران مجھے عرب تہذیب وثقافت کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنے کا موقع بھی میسر آیا۔
قرآن مجید اور احادیث نبوی شریف ﷺ چونکہ عربی زبان میں ہے ‘اس لیے ان سے وابستگی کی وجہ سے میں نے ہمیشہ عرب تمدن اور عربی زبان میں ایک کشش کو محسوس کیا۔
عالم عرب میں والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر کو چونکہ بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا‘ اس لیے بچپن ہی میں مجھے عالم عرب کی بہت سی اہم شخضیات سے ملاقات کا موقع بھی میسر آیا۔ ڈاکٹر عبد اللہ عبدالمحسن الترکی‘ جوکہ جامعۃ الامام ریاض کے وائس چانسلر اور ڈاکٹر عبداللہ صالح العبید جو کہ مدینہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں اور یہ دونوں شخصیات بعد ازاں رابطہ عالم اسلامی کے جنرل سیکرٹری کے منصب پر فائض رہیں۔ ان کو میں نے اوائل عمری ہی میں بڑی قریب سے دیکھاہے‘اسی طرح مجھے امام کعبہ شیخ عبداللہ بن سبیل سے بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ عرب معاشروں میں گو وقت کے ساتھ ساتھ جہاں دیگر معاشروں کی طرح تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں‘ لیکن وہاں پر یہ بات دیکھنے کا موقع میسر آیا کہ عرب ممالک اور بالخصوص سعودی عرب میں تاحال غیر ملکی کلچر سے دوری کی کیفیت ابھی بھی اپنے پورے عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب لوگ آج بھی غیر ملکی لوگ لباس زیب تن کرنے کی بجائے اپنے لباس کو بڑے ذو ق وشوق سے پہنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح عربوں میں تاحال روایتی مہمان نوازی کا سلسلہ برقرار ہے اور وہ اپنے گھر میں آنے والے مہمانوں کی پرزور اور پرتکلف ضیافت کرتے ہیں اور اس حوالے سے کسی قسم کے بخل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
سعودی عرب کے ساتھ جہاں پر روحانی اور مذہبی اعتبار سے ہر مسلمان کا گہرا تعلق ہے‘ وہیں پر ہر پاکستانی اس حقیقت کو بھی جانتا اور پہچانتا ہے کہ سعودی عرب پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک اس کا ایسا درینہ اور قابل اعتماد دوست ہے‘ جس نے ہر مشکل گھڑی میں دوستی کو نبھایا ہے۔
پاکستان کے دفاعی معاملات میں سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کی حمایت کی ہے اور پاکستان کے جملہ تنازعات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر بھی سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے اصولی موقف کی بھرپور انداز میں حمایت کی ہے۔ ایبٹ آباد اور گلیات کے علاقوں میں آنے والے زلزلے نے آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس قدرتی آفت کے بعد بحالی کے لیے پاکستان کو بہت سے بین الاقوامی اداروں اور دوسرے ممالک کے تعاون کی ضرورت تھی۔ اس دوران بھی سعودی عرب نے ہر اعتبار سے پاکستان کی معاونت کی اور بحالی کے کام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ واجپائی کے دور میں کیے جانے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد بھی پاکستان کو بین الاقوامی دباؤ کا سامنا تھا۔ اس دباؤ کے دوران سعودی عرب نے پاکستان کو مفت تیل فراہم کرکے پاکستان کو اقتصادی بحران سے نکلنے میں معاونت کی ۔
اسی طرح مختلف ادوارِحکومت میں پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے سعودی عرب ہمیشہ خطیر رقم دیتا رہا ہے۔ پاکستان کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد سعودی عرب سے تعلیم حاصل کرکے دنیا کے مختلف مقامات پر اچھے انداز میں اپنی ذمہ داریوں کو انجام دے رہی ہے۔ مکہ مکرمہ ‘ مدینہ منورہ اور ریاض میں قائم یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طالب علموں کو میں نے پاکستان کے مختلف مدارس درس گاہوں ‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہوئے اور دین کی خدمت کرتے ہوئے دیکھاہے۔
اسی طرح میں نے مغربی ممالک میں بھی ان یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلبہ اور علماء کو اپنی ذمہ داریوں کو احسن انداز میں نبھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
جن ممالک میں پاکستان کے لوگ کثیر تعداد میں ملازمتیں اور کاروبار کرنے میں مصروف ہیں ان میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ یہاں پر لیبر فورس سے لے کر ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور تاجر طبقہ بڑی تعداد میں زرمبالہ کماکر اپنے ملک روانہ کرتا ہے۔
سعودی عرب کا پاکستان سے دیرینہ تعلق کسی بھی بحران کے نتیجے میں متاثر نہیں ہوا اور پاکستان کوہمیشہ سعودی عرب کی اس دوستی پر فخر اور غیر معمولی اعتماد رہا ہے۔ پاکستان کے اہم سیاسی تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی سعودی عرب نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے؛ چنانچہ قومی اتحاد اور پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں پیدا ہونے والے ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لیے بھی سعودی عرب نے اپنا کردار نہایت احسن طریقے سے ادا کیا ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے سیاسی تنازعات کے حل کے لیے سعودی عرب نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا ہے۔ گو بعض پاکستانی حلقے سعودی عرب کے اس کردار پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں‘ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی عرب نے یہ تمام کام فقط پاکستان کے سیاسی استحکام کے لیے انجام دیے ہیں۔
پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کو بہترین سطح تک لانے میں شاہ فیصل مرحوم نے اپنا کردار نہایت احسن اندا ز میں ادا کیا ہے اور پاکستان کے ساتھ آخری وقت تک اپنے تعلقات بہترین انداز میں نبھاتے رہے۔ ان کے اس طرز عمل کو ان کے بھائیوںنے بھی برقرار رکھا اور پاکستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات ہمہ وقت برقرار رکھے۔
سعودی عرب ہر سال قومی دن کی تقریب اسلام آباد میں منعقد کرتا ہے‘ جس میں پاکستان کے تمام دینی اور سیاسی طبقات سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات مدعو کی جاتی ہیں۔ مارچ میںکیپٹل سٹی کالا شاہ کاکو میں آل پاکستان اہل حدیث کانفرنس کا انعقاد ہوا‘ جس میں امام کعبہ شیخ صالح بن محمد آل طالب بحیثیت مہمان خصوصی تشریف لائے۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ موجودہ سعودی سفیر نواف المالکی اور مکتبہ دعوہ کے سرکردہ نمائندگان بھی موجود تھے۔اس دوران مجھے بھی وہاں پر خطاب کا موقع ملا‘ تو میرے خطاب کے بعد سعودی عرب سے آنے والے مہمانوں نے میرے کندھے کو تھپکتے ہوئے بھرپور انداز میں میری حوصلہ افزائی کی۔
سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب 23ستمبر کو اسلام آباد میں منعقد ہوئی ‘جہاں پر مجھے بھی مدعو کیا گیا۔ تقریب کے سٹیج پر پاکستان کے تمام نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنما موجود تھے۔ راجا ظفر الحق‘ چوہدری شجاعت حسین‘ چوہدری پرویز الٰہی‘ پرویز خٹک‘ فواد چوہدری‘ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال‘ پروفیسر ساجد میر‘ سراج الحق‘ عبدالغفور حیدری سمیت پاکستان کے نمایاں اور سرکردہ رہنما بڑی تعداد میں موجود تھے۔ افواج پاکستان کے ذمہ داران نے بھی اس تقریب میں شرکت کی۔ اس تقریب میں مجھے بہت سے احباب کے ساتھ ملنے کا موقع میسر آیا اور پاکستان کی ان اہم سرکردہ شخصیات کی شمولیت کی وجہ سے سعودی عرب کے قومی دن کی تقریب ایک بڑی آل پارٹیز کانفرنس کا منظر پیش کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔
سعودی عرب اور پاکستان کے خوش گوار تعلقات کی یہ آئینہ دار تقریب تلاوت کلام مجید ‘ سعودی سفیر کی خوبصورت تقریر اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے جچے تلے الفاظ کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچی اور میں پاکستان اور سعودی عرب کے ہمالیہ سے زیادہ بلند اور چٹانوں سے زیادہ مضبوط تعلقات کی خوبصورت یادوں کو لیے ہوئے‘ لاہور چلا آیا۔
پاکستان سعودی تعلقات کے حوالے سے یہ بات بھی میں اپنے قارئین کے سامنے ضرور رکھنا چاہوں گا کہ مجھے دنیاکے مختلف ملکوں میں سفر کرنے کا موقع ملا‘ لیکن ایک بات جو میں نے برطانیہ اور سعودی عرب کے معاشروں میں محسوس کی وہ یہ ہے کہ برطانیہ اور سعودیہ کی ریاستوں میںایک نکتہ ٔ اشتراک یہ نظر آیا کہ ان معاشروں میں قانون کی مکمل بالا دستی ہے اور قانون کی اس بالا دستی کو برقرار رکھنے میں ان ملکوں کی قیادت کا بڑااہم ہاتھ ہے۔
پاکستان کو ان ملکوں کے نظام سے سبق سیکھتے ہوئے اپنے ملک میں بھی قانون کی بالا دستی کا اہتمام کرنا چاہیے‘ تاکہ ہم بھی دنیا کے نقشے پر ایک کامیاب ریاست اور مملکت کی حیثیت سے اپنی شناخت کو برقرار رکھ سکیں۔