مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ کی ایک منظم جماعت ہے‘ جس کی پینتالیس سے زائد شاخیں پورے برطانیہ میں کام کر رہی ہیں۔ یہ جماعت دعوت وتبلیغ کے کاموں میں سرگرم رہتی ہے اور اس حوالے سے برطانیہ میں مختلف مقامات پر سالانہ کانفرنسوں کا انعقاد بھی کرتی ہے‘ جس میں بڑی تعداد پاکستانی اور ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ مقامی باشندے بھی شرکت کرتے اورمقررین کی تقاریر بڑی دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ مرکزی جمعیت برطانیہ نے ماضی میں مجھے مختلف مقامات پر خطاب کی دعوت دی اور میں ان کے پروگراموں میں شرکت کرتا رہا۔ 2011ء اور 2012ء میں عظمت حدیث اور عظمت قرآن کانفرنس میں شرکت کرنے کا موقع میسر آیا‘ جن میں سامعین کی بڑی تعداد نے شرکت کی مرکزی جمعیت ان کانفرنسوں کے علاوہ میں برطانیہ کے مختلف فورمز ‘انجمنوں اور تنظیموں کے زیر اہتمام مختلف مقامات پر دورس ‘جلسے ‘ اجتماعات‘ میٹنگز اور میڈیا کے پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع ملا۔
عوامی پروگراموں میں شرکت کے ساتھ ساتھ مجھے بہت سی اہم برطانوی سیاسی شخصیات کے ساتھ ملاقات کا موقع بھی میسر آیا۔2011ء میں لارڈ نذیر صاحب نے مجھے ہاؤس آف لارڈ زمیں آنے کی دعوت دی اور اس طرح مجھے ہاؤس آف لارڈز کا دورہ کرنے کا موقع ملا۔اس دورے کے بعدانہوں نے میرے لیے پرُتکلف کھانے کا اہتمام بھی کیا۔ماضی میںمانچسٹر کے لارڈ میئر اور اولڈھم کے میئر نے بھی مجھ سے مفصل ملاقاتیں کیںاو ر ملاقاتوں کے دوران بہت سے علمی موضوعات پر اُن سے تبادلہ خیال بھی ہوا۔ برطانیہ میں مقیم ایک متحرک دوست عدنان رشید نے بھی مجھے لندن شہر کی اہم تاریخی عمارتوں کا دورہ کروایا اور اس کے ساتھ ساتھ برطانیہ کے اہم تعلیمی اداروں کا بھی تعارف کروایا۔ ان دوروں سے یقینا میرے علم اور معلومات میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح مجھے انگلستان میں مقیم بہت سے بین الاقوامی مبلغین جن میں عبدالرحیم گرین‘ یوسف چیمبرز اور حمزہ اینڈریاس سرفہرست ہیں ‘سے بھی ملاقات کا موقع میسر آتا رہا۔ ان مبلغین کی دعوت وتبلیغ کی وجہ سے برطانیہ کے ساتھ ساتھ افریقہ میں بھی غیر مسلم بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔یہ تمام شخصیات علم اور تبلیغ کے ساتھ ساتھ عملی حوالوں سے بھی سامعین کو بہت متاثر کرتی ہیں۔
ماضی قریب میں جب توہین آمیز خاکے بنانے کا اعلان کیا گیا تو پوری اُمت مسلمہ میں تشویش کی ایک لہر دوڑ گئی اور مسلمانوں نے اپنے اپنے انداز میں اس حوالے ردّعمل کا اظہار کیا۔ میں نے بھی اپنے رفقاء کے ساتھ اپنے ردّ عمل کا اظہار کیا اور ملک کے مختلف مقامات پر احتجاجی اجتماعات سے خطاب کیا۔ گیٹ ویلڈرز دنیائے اسلام میںکیے جانے والے احتجاج کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دباؤ برداشت نہ کر سکا اور اس نے توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ کروانے کا ارادہ ملتوی کر دیا۔ اس واقعے پر جہاں دنیائے اسلام میں بہت زیادہ تشویش اور اضطراب کی لہر دوڑی وہیں پر مغربی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو بھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ بعض مسلمان دانشوروں نے محسوس کیا کہ پیغام سیرتﷺ کو عام کرنے کے لیے منظم انداز میں محنت کرنی چاہیے۔ اسی حوالے سے مرکزی جمعیت اہل حدیث برطانیہ نے برمنگھم میں7اکتوبر کو ''ورفعنا لک ذکر ک اور دہر میں اِسم محمد سے اُجالا کردے‘‘ کے عنوان سے ایک عظیم الشان کانفرنس کا انعقا دکیا‘جس میں مجھے بھی مدعو کیاگیا۔ میں ستمبر کے مہینے میں مختلف پروگراموں میں شرکت کے سبب کانفرنس سے فقط ایک دن قبل 6 اکتوبر کو لاہور سے لندن کے لیے روانہ ہوا۔ جہاز مختلف ممالک کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا آٹھ گھنٹے میںلندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ پر اتر گیا۔ وہاں پر میرے استقبال کے لیے ریڈنگ کے دیرینہ دوست محمد نبیل موجود تھے۔ انہوںنے خندہ پیشانی سے میرا استقبال کیا اور مجھے لے کر لندہ کے مضافاتی قصبے ریڈنگ کی طرف روانہ ہو گئے۔ راستے میں میڈن ہیڈ میںقائم اسلامی مرکز میں نماز ظہر اور عصر کی ادائیگی کا موقع میسر آیا۔میڈن ہیڈ سے روانہ ہونے کے کچھ ہی دیر کے بعد ہم ریڈنگ پہنچ گئے‘ جہاں پربرادر محمد ندیم اور محمد نبیل نے میرے لیے پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس ضیافت سے فارغ ہونے کے بعدریڈنگ کے اسلامی مرکز میں مغرب اور عشاء کی نمازوں کی ادائیگی کے بعدجب رہائش گاہ میں واپسی ہوئی تو میں سفر کی تھکاوٹ کو لیے ہوئے میں اپنے لیے وقف کمرے میں جا کر محو خواب ہو گیا۔ فجر کے قریب آنکھ کھلی نماز فجر کی ادائیگی کے کچھ دیر بعددوبارہ ایک مرتبہ پھر گہری نیند لینے کا موقع اور صبح گیارہ بجے جب دوبارہ آنکھ کھلی تومیں اور محمد نبیل برمنگھم کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستے میں ٹریفک کا دباؤ اتوار کے دن کے سبب کم تھا؛ چنانچہ سفر تیز رفتاری سے مکمل ہوا اورہم تقریباً پونے دو گھنٹے میں برمنگھم میں پہنچ گئے جہاں پر جماعت کے سینئر ارکان مولانا عبدالہادی عمری‘ مولانا حبیب الرحمن‘ مولانا شعیب احمد میر پوری‘ مولانا شفیق الرحمن شاہین‘ مولانا شریف اللہ شاہد نے بڑے پرتپاک انداز میں استقبال کیا۔ کانفرنس میں پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے علماء نے بھی سیر حاصل خطاب کیا۔ہندوستان سے مولانا ظفر الحسن مدنی‘ مولانا اصغر علی امام اورپاکستان سے ڈاکٹر حماد لکھوی نے سیرت النبی ﷺ کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے زبردست انداز میںخطابات کیے۔
ان کے بلیغ اور علمی خطابات کے بعد مجھے بھی اپنی چند گزارشات کو سیرت الرسولﷺ کے حوالے سے لوگوں کے سامنے رکھنے کا موقع میسر آیا۔ میںنے برطانیہ بھر سے آئے ہوئے مسلمانوں کی کثیر تعداد سے خطاب کرتے ہوئے رسول کریمﷺ کی عظمت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔میں نے اس موقع پر کہا کہ جمیع انسانیت میںسے کوئی شخصیت حتیٰ کہ سابقہ انبیاء بھی اپنی رفعت اور عظمت کے لحاظ سے نبی کریم ﷺ کے مقام اور مرتبے کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ آپﷺ کی عظمت کے بیان کے ساتھ ساتھ میں نے اس بات کو بھی سامعین کے سامنے رکھا کہ نبی کریمﷺ کی عظمت کے احساس سے لبریز ہونے کے بعد آپ کی محبت بھی پوری طرح ہمارے دل میںراسخ ہونی چاہیے اور قرآن مجید کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ‘رسول کریمﷺ اور جہاد فی سبیل للہ کی محبت ہمارے دلوں میں باقی تمام تعلقات اور اشیاء سے زائد ہونی چاہیے اور اس بات کی تائید میں میںنے سورہ توبہ کی آیت نمبر 24کو پیش کیا:
''کہہ دیجئے اگر ہیں تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارا خاندان اور وہ مال (کہ ) تم نے کمایا ہے ‘اُن کو اور (وہ) تجارت (کہ) تم ڈرتے ہو‘ اُس کے مندا پڑ جانے سے اور (وہ) گھر (کہ) تم پسند کرتے ہو ‘اُنہیں زیادہ محبوب ہیں تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ لے آئے اللہ اپنے حکم کو‘ اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نافرمانی کروالے لوگوں کو۔‘‘
اس کے ساتھ ساتھ میں نے اتباع رسول ﷺ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور یہ بات بیان کی کہ نبی کریمﷺ کی اتباع ہر مسلمان پرلازم ہے۔ عظمت رسول ﷺ‘ حب ِرسول ﷺ اور اتباع رسولﷺ کی اہمیت کو بیان کرنے کے بعد میں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ مسلمان ممالک نے جس طرح نبیﷺ کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے‘ توہین رسالت سے متعلقہ قوانین کو اپنے ملکوں میں لاگو کیا ہے اہل مغر ب کو بھی مسلمانوں کے جذبات کا احساس کرتے ہوئے ان قوانین کو اپنے ملکوں میں لاگو کرنا چاہیے؛ اگر ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین کو جمہوری آزادیوں کے باوجود معاشروں میں لاگو کیا جا سکتا ہے‘ تو ڈیڑھ ارب انسانوں کے رہنما اور اُن کے دلوں ک دھڑکن حضرت رسول اللہ ﷺ کی ناموس کے تحفظ کے لیے بھی مغربی ممالک میں قوانین کو لاگو ہونا چاہیے۔
کانفرنس کو لوگوں نے بڑے انہماک اور دلچسپی کے ساتھ سنا اور کانفرنس کے دوران لوگوں کے جذبات حب ِرسول ﷺ کے حوالے سے دیدنی تھے اور کئی آنکھیں آپﷺ کی عقیدت کی وجہ سے اشکبار ہو چکی تھیں۔ نبی کریم ﷺ کی عظمت‘ محبت اور ناموس کی اہمیت کو اجاگر کے لیے ہونے والی یہ کانفرنس جب اپنے اختتام کو پہنچی تو لوگوں نے تمام مقررین سے بہت ہی پرجوش انداز میں ملاقاتیں کیں اور یوں برمنگھم کی یہ عظیم الشان اکتالیسویں سالانہ کانفرنس اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔