برطانیہ کے شہر برمنگھم میں اکتالیسویں سالانہ دعوت کانفرنس کے موقع پر جہاں میری ملاقات کئی اہل علم دوست احباب سے ہوئی‘ وہیں پر میری ملاقات دو ایسے شعراء سے بھی ہوئی‘ جنہوں نے شاعری کے ذریعے بہت ہی خوبصورت انداز میں مختلف عنوانین پر بڑی دلکش نظموں کو لکھا ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالرب ثاقب العمری نے مختلف پیراؤں میں بڑی خوبصورت باتیں کی ہیں۔ ان کی ماں کے حوالے سے لکھی گئی‘ ایک نظم انتہائی دلکش اور دلفریب ہے‘ جس کے بعض اشعار درجہ ذیل ہیں :
ماں عظمت انساں ہے
ماں شفقت و فیضاں ہے
ماں نعمت یزداں ہے
ماں رحمتِ رحماں ہے
ماں پیار کی چھایا ہے
مان دھوپ کا سایا ہے
ماں چاندنی چندا ہے
ماں پیار کی ممتا ہے
ماں عظمت و سطوت ہے
ماں رفعت و شوکت ہے
ماں ہمت و جرأت ہے
ماں رافت و راحت ہے
ماں رحمتِ باراں ہے
ماں باغ و بہاراں ہے
ماں باغ کے گل چیں پر
اک برق جو سوزاں ہے
ماں لفظ جو پیارا ہے
ماں لفظ دلارا ہے
مان تابش ایقاں ہے
ماں باعثِ ایماں ہے
ماں پیار کی ندیا ہے
ماں خیر کا دریا ہے
ماں نور کا ہالہ ہے
ماں سکھ کا ہیولیٰ ہے
ڈاکٹر عبدالرب ثاقب کے ساتھ ساتھ محمد حبیب اللہ امیر الدین صاحب سے بھی اسی موقع پر ملاقات ہوئی ۔انہوں نے اپنی ''منظوم ترجمان قرآن ــ‘‘کتاب کی جلد اوّل کو پیش کیا‘ جس کے اشعار یقینا دل پر اثر کرنے والے تھے۔
اس کتاب میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کے تراجم کو منظوم انداز میں پیش کیا گیا۔ ان دونوں شعراء سے ملاقات یقینا میرے لیے باعث فرحت ہے اورمیرے علم اور مشاہدے میں اضافے کا سبب بنی۔ مولانا محمد حبیب اللہ نے مقاصد شاعری کے حوالے سے بڑے خوبصورت انداز میں ایک نظم کو قلم بند کیا‘ جس کو میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
پوچھتے ہیں ہم سے کچھ اہل وطن
کہ بتائیں کیا ہے یہ شعر و سخن؟
کر رہا ہوں یہ حقیقت بے نقاب
اور ان کو دے رہا ہوں میں جواب
شاعری محبوب ہے اسلام میں
جب کہ سچائی کو لائیں کام میں
اس پہ ہے قرآن کی نص صریح
اس لیے کہتے ہیں ہم اس کو صحیح
آیتیں شعراء کی پڑھ لیں غور سے
دیکھیں استثناء خصوصی طور سے
اس میں یا وہ گئی کی تردید ہے
اور اچھے شعروں کی تائید ہے
آپ ہر گز نہ گھڑیں جھوٹا بیاں
جس کی حرمت ہے شریعت سے عیاں
جھوٹی باتوں سے بھرا ہو جو کلام
دین میں اس کا نہیں کچھ بھی مقام
اس سے لازم ہے مکمل اجتناب
یہ ہے شرعی فیصلہ سن لیں جناب
ان شعراء کی شاعری کو پڑھنے کے بعد میرا تخیل مجھے الطاف حسین حالیؔ‘ علامہ محمد اقبال ؔ‘ مولانا ظفرؔ علی خاں اکبر ؔالہٰ آبادی اور آغا شورشؔ کاشمیری کی طرف لے گیا ۔ ان تمام شعراء نے اپنی زندگی میں بامقصد شاعری کی تھی‘ اسی طرح ماضی کے اوراق پلٹتے پلٹتے میرے تصورات حضرت حسان بن ثابتؓ تک جاپہنچے کہ جن کی شاعری کی تعریف اور تائید مستند احادیث میں وارد ہوئی ہیں۔ ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:
بخاری شریف میں مذکور ہے:''نبی کریم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ مشرکین کی ہجو کر‘ جبرائیل تمہارے ساتھ ہیں۔‘‘اسی طرح صحیح بخاری ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریمﷺ نے غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ مشرکین کی ہجو کرو‘ جبرائیل تمہاری مدد پر ہیں۔
صحیح بخاری میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ انہیں برا نہ کہو ‘ کیونکہ وہ رسول ﷺ کی طرف سے کفار کو جواب دیتے تھے ۔
صحیح مسلم میں حدیث مذکور ہے کہ اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اکرمﷺ سے سنا ‘ آپﷺ فرماتے تھے کہ حسانؓ نے قریش کی ہجو کی ‘تو مومنوں کے دلوں کو شفاء دی اور کافروں کی عزتوں کو تباہ کر دیا ۔ حضرت حسانؓنے کہا کہ تو نے محمد ﷺ برائی کی ‘تو میں نے اس کا جواب دیا اور اللہ تعالیٰ اس کا بدلہ دے گا۔ تو نے محمد ﷺکی برائی کی‘ جو نیک اور پرہیزگار ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ ہیں اور وفاداری ان کی خصلت ہے ۔ میرے باپ دادا اور میری آبرو محمدﷺکی آبرو بچانے کے لئے قربان ہیں ۔ اگر کداء ( مکہ کے دروازہ پر گھاٹی ) کے دونوں جانب سے غبار اڑتا ہو نہ دیکھو ‘تو میں اپنی جان کو کھوؤں ۔ ایسی اونٹنیاں‘ جو باگوں پر زور کریں گی اور اپنی قوت اور طاقت سے اوپر چڑھتی ہوئیں ‘ ان کے کندھوں پر وہ برچھے ہیں ‘جو باریک ہیں یا خون کی پیاسی ہیں اور ہمارے گھوڑے دوڑتے ہوئے آئیں گے ‘ ان کے منہ عورتیں اپنے دوپٹوں سے پونچھتی ہیں ؛ اگر تم ہم سے نہ بولو‘ تو ہم عمرہ کر لیں گے اور فتح ہو جائے گی اور پردہ اٹھ جائے گا ۔ نہیں تو اس دن کی مار کے لئے صبر کرو‘ جس دن اللہ تعالیٰ جس کو چاہے گا‘ عزت دے گا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک لشکر تیار کیا ہے‘ جو انصار کا لشکر ہے ‘ جس کا کھیل کافروں سے مقابلہ کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے ایک بندہ بھیجا‘ جو سچ کہتا ہے‘ اس کی بات میں کچھ شبہ نہیں ہے ۔ ہم تو ہر روز ایک نہ ایک تیاری میں ہیں ‘تنازع ہے کافروں سے یا لڑائی ہے یا کافروں کی ہجو ہے۔اور حدیث کے آخر میں مذکور ہے کہ حضرت حسان بن ثابت ؓنے کہااور (روح القدس) جبریل علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے ہم میں بھیجاگیا ہے اور روح القدس کا ( کائنات میں) کوئی مد مقابل نہیں۔
بامقصد شاعری کرنے والے ان عظیم شعراء کے کلام پر غور کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر شاعری مثبت مقاصد کے لیے کی جائے‘ تو یقینا مستحسن ہے‘ لیکن اگر شاعری کے ذریعے بے حیائی‘ بے راہ روی‘ جھوٹ ‘ افواہوں اور بداعتقادی کو فروغ دیا جائے‘ تو ایسی شاعری کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ حضرت اُم المومنین سیدہ عائشہ ؓ کا فرمان ہے‘ جسے امام بخاری نے ''الادب المفرد‘‘ میں نقل کیا ہے۔ وہ اس حوالے سے ہمارے لیے ایک نصیحت کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ ؓ فرماتی ہیں: کچھ اشعار اچھے ہوتے ہیں اور کچھ برے۔ اچھے لے لو اور برے چھوڑ دو‘ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ شاعرانہ صلاحیتوں کو اصلاح معاشرہ‘ باطل افکار‘ بے حیائی اور غلط نظریات کی تردید اور بیخ کنی کے لیے استعمال کریں۔ اس کے مد مقابل جھوٹ‘ بداعتقادی اور بے حیائی کے فروغ کا سبب بننے والی شاعری کے حوالے سے ہمیں نبی کریمﷺ کی اس حدیث مبارکہ کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:''اگر تم میں سے کوئی شخص اپنا پیٹ پیپ سے بھرے ‘ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اسے شعر سے بھرے۔‘‘